بدعت------------ ہوشیار اور
دانا مومن کے لیے بہتر ہے کہ آیات اور احادیث کے ظاہری معنوں کے مطابق ان
پر عمل کرے اور تابعدار رہے، نئی نئی باتیں نہ نکالے، نہ اپنی طرف سے کمی
بیشی یا تاویلیں کرے۔ ایسا نہ ہو بدعت اور گمراہی میں پڑ کر ہلاک ہو جائے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ پیروی کرو بدعت اختیار
نہ کرو۔ یہی تمہارے لیے کافی ہے۔ معاذ بن جبل کا ارشاد ہے کہ پوشیدہ باتوں
کی ٹوہ لگانے سے بچو اور یہ مت کہو کہ فلاں چیز کیا ہے۔ جب مجاہد کو حضرت
معاذ کی اس حدیث کا علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ ہم کہا کرتے تھے کہ یہ کیا
ہے مگر اب ہم ایسا نہیں کریں گے۔
سنت اور جماعت----چنانچہ ہر مومن کو سنت اور جماعت کی پیروی کرنا واجب ہے۔
سنت اس طریقے کو کہتے ہیں جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے اور
جماعت اسے کہتے ہیں جس پر چاروں خلفائے کرام نے اپنی خلافت کے زمانہ میں
اتفاق کیا۔ یہ لوگ سیدھی راہ دکھانے والے تھے، کیونکہ انہیں سیدھی راہ
دکھائی گئی تھی۔
اہل بدعت------------ مناسب یہ ہے کہ اہل بدعت کے ساتھ میل جول نہ رکھا
جائے نہ ہی اس کے ساتھ بحث میں نہ پڑے نہ انہیں سلام کرے، ہمارے امام احمد
بن حنبل فرماتے ہیں کہ اہل بدعت کو سلام کہنے والا گویا ان سے دوستی رکھتا
ہے کیونکہ آنحضرت نے فرمایا آپس میں سلام کو رواج دو تاکہ تمھارے درمیان
محبت بڑھے۔ بدعتیوں کے قریب جانا ان کے ساتھ بیٹھنا نہ چاہیے ۔ نہ ان کی
خوشی کے موقع پر انہیں مبارک باد دو۔ نہ ان کے جنازہ میں شرکت کرو۔ اگر
کہیں ایسے لوگوں کا ذکر ہوتا ہو تو ان کے بارے میں رحمت کے کلمے بھی نہیں
کہنے چاہئیں، بلکہ ان سے دور رہ کر ان سے دشمنی کی جائے۔ یہ دشمنی محض اللہ
کے لیے ہو۔ اور اس نیت سے کہ ان کا مذہب جھوٹا ہے۔ ان کی دشمنی سے ہمیں
ثواب ملے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے آپ نے فرمایا جو شخص اللہ کے لیے
اہل بدعت کو اپنا دشمن جانے اس کے دل کو اللہ تعالیٰ ایمان سے بھر دیتا ہے۔
اور جو شخص انہیں خدا کا دشمن جان کر ملامت کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن
اسے امن اور ایمان سے رکھے گا اور جو ایسے لوگوں کو ذلیل کرے اسے بہشت کے
سو درجے ملیں گے۔
اس کے برعکس جو شخص بدعتی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملے جو اس کی خوشی کا
باعث اور اس شخص نے اس چیز کی حقارت کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر
نازل ہوئی۔
حضرت ابی مغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے۔ آنحضرت نے
فرمایا- اللہ تعالیٰ بدعتیوں کے اعمال قبول نہیں کرتا جب تک وہ بدعت سے باز
نہ آجائیں۔ فضیل بن عیاض روایت کرتے ہیں کہ اہل بدعت کے ساتھ دوستی رکھنے
والے کے نیک اعمال ضائع کر دیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے دل سے ایمان
کا نور نکال لیتا ہے۔ اور جو شخص اہل بدعت سے دشمنی رکھتا ہے اسے اللہ
تعالیٰ بخش دیتا ہے۔ خواہ اس کے نیک اعمال تھوڑے ہی ہوں۔
تو کسی بدعتی کو جاتا ہوا دیکھے تو وہ راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ پر چلا
جا۔ فضیل بن عیاض کہتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عینیہ کو یہ کہتے سنا کہ جو
شخص بدعتی کے جنازے کے ساتھ جائے جب تک واپس نہ آجائے اللہ تعالیٰ کا غضب
اس پر نازل ہوتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بدعتی پر لعنت کی ہے۔ فرمایا جو
شخص دین میں کوئی نئی بات پیدا کرے یا بدعتی کو اپنے ہاں پناہ دے اس پر
اللہ تعالٰی اس کے فرشتوں اور سب انسانوں کی لعنت نازل ہوتی ہے۔ اس کے صرف
اور عدل کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔ صرف سے مراد فرض ہے اور عدل سے
نفل۔ ابو ایوب سختیانی روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی کو سنت نبوی کے
بارے میں اطلاع اور وہ جواب میں یہ کہے کہ اس سنت کو اپنے پاس رکھو اور
مجھے صرف یہ بتاؤ کہ قرآن میں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ تو ایسا شخص گمراہ
ہے۔
اہل بدعت کی پہچان------- اہل بدعت کی بعض نشانیاں ہیں جن سے وہ جانے جا
سکتے ہیں۔ وہ حدیث کی تحقیر کرتے ہیں۔ زندیق کی پہچان یہ ہے کہ وہ اہل حدیث
کو جھوٹا کہتا ہے۔ فرقہ قدریہ اہلحدیث کومجیرہ کہتے ہیں۔ جہیمیہ اہل حدیث
کو مشبہہ کہتے ہیں۔ رافضی اہل حدیث کو ناصیہ کہتے ہیں۔ یہ سب وہ اس لیے
کہتے ہیں کہ انہیں اہل سنت کے ساتھ دشمنی اور تعصب ہے۔ اہل سنت کا صرف ایک
ہی نام ہے یعنی اہل حدیث۔ اس کے سوا کوئی نام نہیں۔ اور بدعتی جو اپنا لقب
اہل سنت رکھتے ہیں وہ ان کے نام کے ساتھ لگاؤ نہیں کھاتا۔
بحوالہ غنیہ الطالبین ص۔185-186 مطبوعہ نعمانی آفسٹ پریس دہلی 6، ناشر فرید
بک ڈپو جامع مسجد دہلی 6 |