ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نظریہ الوہیت پر تنقیدی نظر

اس مضمون کی pdf فائل کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔ اس فائل میں ڈاکٹر صاحب کی انگریزی کتاب اور اس کے ترجمہ کے متعلقہ صفحات کا عکس بھی شامل کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس مضمون کے متعلق حوالہ جات کے لئے بھی اس لنک کی اہمیت نہایت ضروری ہے۔

https://www.scribd.com/doc/55516862/Zakir-Naik-ka-Tasawwur-e-Khuda

ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک مذہبی ذوق رکھنے والے حضرات کے لئے کوئی اجنبی شخصیت نہیں۔ پیس ٹی وی نامی چینل پر ان کے پروگرام باقاعدگی سے نشر ہوتے ہیں۔ موصوف اگرچہ میڈیکل سائنس میں سند یافتہ ہیں۔

ڈاکٹر نائیک کا یہ مختصر تعارف ہم نے ان کےاپنے ادارے آئی آر ایف کی ویب سائیٹ پر موجود مواد کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ اس ویب سائیٹ کے مطابق ڈاکٹر صاحب مندرجہ ذیل کتابوں کے مصنف بھی ہیں:
1. CONCEPT OF GOD IN MAJOR RELIGIONS
2. ANSWERS TO NON MUSLIMS
3. THE QURAN AND MODERN SCIENCE

شروع میں جب ڈاکٹر صاحب کو ٹی وی پر دیکھنے کا اتفاق ہوا تو بہت سے لوگوں کی طرح ہم بھی ان سے متاثر ہوئے اور دیگر مذاہب کے بارے میں ان کی وسیع معلومات کی ستائش کئے بغیر نہ رہ سکے۔ قدرتی طور پر دل میں یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ جو شخص غیر مذاہب کی تعلیمات پر اس قدر عبور رکھتا ہے، یقیناً اسلام (جو اس کا اپنا مذہب ہے) کے بارے میں اس کی معلومات کہیں وسیع ہونگی (موصوف اپنے ایک خطاب میں اس بات کا دعویٰ خود بھی فرما چکے ہیں)، اور انھیں قرآن و حدیث کے کثرت کے ساتھ حوالے دیتے دیکھ کر ہمارے اس مفروضے کو مزید تقویت ملی۔

لیکن افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موصوف کے بارے میں متنازعہ بیانات سامنے آنا شروع ہوئے اور آھستہ آھستہ ان میں شدت بھی آتی گئی۔ تحقیق کرنے پر اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ بعض لوگ جو ان سے اختلاف کر رہے ہیں، ان کے تحفظات بالکل درست ہیں۔ بلکہ ہمیں یہ جان کر خاصی حیرت ہوئی کہ وہ ڈاکٹر نائیک جو اسلام کے ایک داعی کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے تھے، ایک مخصوص مکتبہ فکر کے انتہائی متشدد ترجمان کے طور پر سامنے آئے۔ کل تک جن کے دلائل کا ہدف غیر مذاہب کے باطل نظریات تھے، آج ان کے طعن و تشنیع کا نشانہ خود امت مسلمہ کی واضح اکثریت بن گئی۔ اگرچہ ہمیں ان کی کئی باتوں سے اختلاف ہے مگر یہاں ہم صرف ایک مسئلہ ذکر کرنا چاہیں گے۔ ہماری درخواست ہے کہ اس تحریر کو غیر جانبداری سے پڑھا جائے اور اس کے بعد اپنی آزادانہ رائے قائم کی جائے۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس تحریر میں چونکہ ہماری حیثیت ایک مخالف کی ہے، اس لئے ہم غیر جانبداری کا قطعی کوئی دعویٰ نہیں کر رہے، البتہ اس بات کے مدعی ضرور ہیں کہ اس معاملے میں ہمارا کوئی ذاتی مفاد یا ڈاکٹر صاحب سے کوئی ذاتی عناد ہرگز کارفرما نہیں بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ ہم جس چیز کو شرعی لحاظ سے قابل گرفت سمجھیں اس کی نشاندہی پوری دیانت داری سے کر دیں۔

اب ہم اپنی اس تحریر کا محرک بیان کرتے ہوئے اس کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب ہماری نظر سے گزری۔ اس کتاب کا نام ہے:

CONCEPT OF GOD IN MAJOR RELIGIONS

یہ ۲۹ صفحات پر مشتمل ایک مختصر انگریزی تحریر ہے اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس میں مختلف مذاہب میں خدا کے بارے میں پائے جانے والے تصورات کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ عطا تراب نامی کسی صاحب نے "مجھے ہے حکم اذاں ۔ اہم مذاہب میں خدا کا تصور" کے نام سے کیا ہے جسے رومیل ھاؤس آف پبلی کیشنز نے راولپنڈی سے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ یہ اردو ترجمہ ۱۱۰ صفحات پر مشتمل ہے جس میں اصل انگریزی کتاب کا ترجمہ صفحہ ۶۵ تک ہے جبکہ صفحہ ۶۶ سے صفحہ ۱۱۰ تک بزم سوال و جواب کا اضافہ کیا گیا ہے جو اسی موضوع پر مشتمل ہیں۔

ہم نے اس مضمون کے آخر میں دونوں کتابوں کے ٹائٹل پیج اور متعلقہ صفحات کے عکوس شامل کر دئے ہیں۔ مزید برآں اگر کوئی صاحب اصل کتب دیکھنا چاہے تو انگریزی کتاب تھوڑی سی تلاش کے بعد مختلف ویب سائیٹس پر نا صرف مل سکتی ہے بلکہ ڈاؤن لوڈ بھی کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اردو ترجمہ جس کا اوپر حوالہ دیا گیا وہ بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا، اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے مختلف مذاہب (بشمول اسلام) کی تعلیمات کی روشنی میں خدا کے بارے میں نظریات کا ذکر کیا ہے۔ دیگر مذاہب کے حوالے سے جو کچھ انھوں نے لکھا، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں،چنانچہ اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم صرف خدا کے بارے میں ان کے اس نظریے کو لیں گے جسے انھوں نے اسلام کی طرف منسوب کیا ہے اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں ایسی رائے ظاہر کی ہے جس سے ہمیں سخت اختلاف ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی تحریر پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ امت مسلمہ کے چند مستند علماء کرام کی آراء اس سلسلے میں نقل کر دیں تاکہ اندازہ ہو جائے کہ ہماری مصدقہ کتابوں میں صفات باری تعالیٰ کے بارے میں کیا عقائد درج ہیں۔

۱۔ شرح مقاصد میں ہے "عیب اللہ تعالیٰ پر محال ہے"
۲۔ امام محقق علی الاطلاق کمال الدین مسایرہ میں فرماتے ہیں "جتنی نشانیاں عیب کی ہیں جیسے جہل و کذب سب اللہ تعالیٰ پر محال ہیں"
۳۔ علامہ کمال الدین محمد بن محمد ابن ابی شریف قدس سرہ اس کی شرح مسامرہ میں فرماتے ہیں "یعنی کسی کو اس میں خلاف نہیں کہ جو کچھ صفت عیب ہے باری تعالیٰ اس سے پاک ہے اور وہ اللہ تعالیٰ پر ممکن نہیں"
۴۔ امام فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں "اللہ تعالیٰ کی بات بہت صفتوں سے موصوف ہے۔ ازانجملہ اس کا سچا ہونا ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ کذب عیب ہے اور عیب اللہ تعالیٰ پر محال۔
۵۔ مزید فرماتے ہیں "اللہ تعالیٰ کی شان نہیں کہ وہ بیٹا بنائے۔ وہ پاک ہے"
۶۔ فاضل سیف الدین ابہری کی شرح مواقف میں ہے "ہر عیب اللہ تعالیٰ پر بالاجماع محال ہے"
۷۔ شرح عقائد جلالی میں ہے "تمام اسباب عیب مثلاًجہل و عجز سب محال ہیں اور صلاحیت قدرت سے خارج"
۸۔ اللہ تعالیٰ پر حرکت و انتقال و جہل و کذب کچھ ممکن نہیں کہ یہ سب عیب ہیں اور عیب اللہ پر محال"
۹۔ مولانا نظام الدین سہالی شرح مسلم الثبوت میں لکھتے ہیں "جو کچھ خدا ہونے کے منافی ہے وہ سب محال عقلی ہے"
۱۰۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تفسیر عزیزی میں فرماتے ہیں "اللہ تعالیٰ تمام نقائص و عیوب سے پاک ہے"
۱۱۔ شرح عقائد نسفی میں ہے "زندہ، قادر، جاننے والا، سمیع، بصیر، مشیت والا، ارادے والا ہے کیونکہ ان کے اضداد نقائص ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کا بری ہونا لازم ہے"
۱۲۔ شرح سنوسیہ میں ہے "اللہ تعالیٰ کے لئے سمع اور بصر کا ہونا لازم ہے۔ اس پر دلیل کتاب، سنت اور اجماع ہے، اور یہ بھی کہ اگر وہ ان سے متصف نہ ہو تو ان کی ضد سے متصف ہو گا اور وہ نقائص ہیں اور نقص اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے"
۱۳۔ شرح مواقف میں ہے "ہمارے لئے معرفت صفات پر افعال اور نقائص سے تنزیہ کے ساتھ استدلال کے سوا کوئی چارہ نہیں"
۱۴۔ شرح المقاصد میں ہے "اہلسنت کا مذہب یہ ہے کہ تمام جہان حادث و نوپیدا ہے اور اس کا بنانے والا قدیم اور صفات قدیمہ سے موصوف ہے، نہ اس کا جہل ممکن ہے نہ کذب ممکن ہے نہ اس میں کسی طرح کے عیب و نقص کا امکان ہے"
۱۵۔ ھدایہ میں ہے "اللہ تعالیٰ اپنی تخلیق کے ساتھ ہمیشہ سے خالق ہے اور پیدا کرنا اس کی صفت ازلی ہے، اور ہمیشہ سے اپنے فعل کے ساتھ فاعل ہے، اور کرنا اس کی صفت ازلی ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی فاعل ہے، اور فعل اسی کی صفت ازلی ہے، اور فعل سے جو مفعول ہوا (یعنی پیدا ہوا)، وہ البتہ مخلوق ہے، اور اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل مخلوق نہیں، اور صفات الٰہی ازل میں پیدا نہ ہوئیں اور نہ مخلوق ہوئیں، اس لئے اگر کوئی یہ کہے کہ یہ صفات الٰہی مخلوق ہیں یا نئی پیدا ہو گئی ہیں، یا ان کے بارے میں توقف کرے یا ان میں شک و شبہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کا منکر ہے"

اوپر درج کئے گئے حوالوں سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ امت مسلمہ کا یہ اجماعی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے۔ اس کی ہر صفت، صفت کمال اور جملہ نقائص سے مبرہ ہے۔ کوئی نقص اس کی طرف راہ نہیں پا سکتا بلکہ وہ ہر اس چیز سے بلند و برتر ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں۔ وہ ان تمام عیبوں سے بھی پاک ہے جو کم عقل اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔

ویسے تو ہمارے خیال میں ہر مسلمان فطری طور پر ان باتوں پر یقین رکھتا ہے اور اس سلسلے میں اسے کسی حوالے کی حاجت نہیں ہونی چاہئے، تاہم ہم نے اپنے موقف کی حمایت میں بطور نمونہ چند حوالے درج کر دیے تاکہ کوئی تشنگی باقی نہ رہے۔

اب ہم ڈاکٹر صاحب کی کتاب اور اس کے اردو ترجمے کے چند اقتباسات نقل کرنے کے بعد ان پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ سب ڈاکٹر صاحب نے اسلامی نظریے کے تحت تحریر کیا ہے۔ ہم یہاں ان کی تحریر کا صرف وہ حصہ لیں گے جس کا تعلق براہ راست اس بحث سے ہے۔ مکمل تحریر مضمون کے آخر میں یا اصل کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔ وہ اپنی کتاب کے صفحہ ۱۸ پر لکھتے ہیں:
God does not become a human being:
Some people argue that God can do everything, then why cannot He take human form? If God wishes He can become a human being. But then He no longer remains God because qualities of God and human beings in many respects are completely incompatible.
یہی بات اردو ترجمے کے صفحہ ۴۴ اور ۴۵ پر اس طرح ہے:
خدا انسانی پیکر میں نہیں ڈھلتا
"بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے تو وہ انسانی پیکر میں کیوں نہیں ڈھل سکتا۔
اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ چاہے تو وہ بشری پیکر میں ڈھل سکتا ہے لیکن پھر وہ خدا نہیں رہے گا کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

مندرجہ بالا تحریر میں ڈاکٹر صاحب بعض لوگوں کا اعتراض ذکر کرنے کے بعد یہ بتا رہے ہیں کہ اگر اللہ چاہے تو وہ انسانی پیکر میں ڈھل سکتا ہے۔ ساتھ ہی اس کا منطقی نتیجہ بھی بیان کر تے ہیں کہ اگر اللہ انسانی پیکر میں ڈھل جائے تو پھر وہ خدا نہیں رہے گا۔ آگے چل کر مثالوں سے واضح کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا انسانی پیکر میں ڈھلنا بالکل بے معنی اور غیر معقول ہے۔

بظاہر اس تحریر سے یہ دھوکہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اللہ تعالیٰ کے انسانی پیکر میں ڈھلنے کے غلط نظریے کا بطلان فرما رہے ہیں۔ لیکن ان کی تحریر کو غور سے پڑھنے پر واضح ہوجاتا ہے کہ وہ دراصل محض وقوع کی نفی کر رہے ہیں نہ کہ امکان کی۔ جبکہ یہ بات مسلمہ ہے کہ جو کچھ ممکن ہے وہ اللہ کی قدرت کے تحت ہے، اور جو کچھ تحت قدرت نہیں، وہ ممکنات میں شمار ہی نہیں ہوتا بلکہ محال کہلاتا ہے۔ چنانچہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ "اگر اللہ سبحانہ چاہے تو وہ بشری پیکر میں ڈھل سکتا ہے" تو ثابت ہوا کہ وہ اسے محال نہیں مانتے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی نتیجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہو تو وہ خدا نہیں رہے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا اگر خدا نہ رہے تو یہ اس کے حق میں عیب ہے یا نہیں۔ یقیناً اس سے بڑا عیب خدا کے حق میں کیا ہو گا کہ اس کی خدائی ہی جاتی رہے۔ اور ہم مستند حوالوں سے اوپر یہ ثابت کر آئے کہ عیب اللہ پر محال ہے، تو یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا انسانی پیکر میں ڈھلنا بھی محال ہے۔ لہذا یہ قول کہ اگر اللہ چاہے تو انسانی پیکر میں ڈھل سکتا ہے، باطل محض ہے۔

آگے چل کر اپنی کتاب کے صفحہ ۱۹ پر اللہ تعالیٰ کے انسانی پیکر میں نہ ڈھلنے کے مزید دلائل دیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
Moreover if God takes human form, the same human cannot later become God, since human beings, by definition, do not possess the power to become God.
یہی بات اردو کتاب کے صفحہ۴۶ پر یوں ہے:
"علاوہ ازیں اگر خدا انسانی روپ اختیار کر لے تو پھر یہی انسان خدا نہیں بن سکے گا کیونکہ انسان اپنی تعریف میں ہی ایسا موجود ہے جو خدا بننے کی قدرت نہیں رکھتا"۔

سبحان اللہ۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈاکٹر صاحب کے اس طرز استدلال کی داد کس طرح دیں۔ یعنی فرماتے ہیں کہ خدا انسان اس لئے نہیں بنتا کہ اگر ایک دفعہ انسان بننے کی غلطی کر بیٹھا تو واپس خدا کیسے بنے گا۔ لا حول ولا قوۃ الابااللہ۔

ہمارا اعتراض پھر وہی ہے۔ اگر اس استدلال کو درست تسلیم کر لیا جائے تو ثابت ہو گا کہ انسانی پیکر میں ڈھلنا مطلقاً خدائی سے ہاتھ دھونا ہے، لہٰذا بہت بڑا عیب ہے، اور چونکہ اللہ تعالیٰ عیب سے پاک و منزہ ہے لہذا ماننا پڑے گا کہ یہ کہنا کہ اگر اللہ چاہے تو انسانی پیکر میں ڈھل سکتا ہے قطعا غلط اور باطل ہے۔ کیونکہ ہر وہ چیز جو خود عیب ہو یا کسی عیب کا باعث بنے، اللہ تعالیٰ کو اس سے پاک ماننا ضروری ہے۔
آگے چل کر اسی صفحہ ۱۹ اور ۲۰ پر اپنے اس نظریے کی تائید میں بطور دلیل لکھتے ہیں:
God does not perform ungodly acts:
The attributes of Almighty God preclude any evil since God is the fountainhead of justice, mercy and truth. God can never be thought of as doing an ungodly act. Hence we cannot imagine God telling a lie, being unjust, making a mistake, forgetting things, and such other human failings. Similarly God can do injustice if he wants but He will never do it because being unjust is an ungodly act.
The holy Quran says:
“Allah is never unjust in the least degree”
God can be unjust if he wants, but the moment God does injustice He ceases to be God.
God does not forget nor does He make mistakes:
God will not forget anything because forgetting is an ungodly act, which reeks of human limitations and failing. Similarly, God will not make a mistake, because making mistakes is an ungodly act.
“….. my Lord never errs, nor forgets”.
God performs godly acts:
He has power over all things. The Islamic concept of God is that God has power over all things. The Holy Quran says in several places:
“For verily Allah has power over all things”
Further the glorious Quran says:
“Allah is the doer of all He intends”
We must keep in mind that Allah intends only godly acts and not ungodly acts.
یہ مضمون اردو کتاب کے صفحہ ۴۶ سے ۴۸ تک بیان ہوا ہے:
خدا غیر خدائی افعال سرانجام نہیں دے سکتا
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی پاکیزہ صفات کسی ناشائستگی اور ناروائی کی متحمل نہیں ہو سکتیں کیونکہ وہ ذات باری تعالیٰ عدل، رحم و کرم اور حق و صداقت کا سرچشمہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ناشائستہ فعل کا صدور اصلاً و ابداً ناقابل تصور ہے لہذا ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ خدائے عزوجل جھوٹ، ناانصافی، غلطی، نسیان اور اسی طرح کی دیگر انسانی کوتاہیوں کا (معاذاللہ) مرتکب ہو البتہ خدا نا انصافی پر قادر ضرور ہے لیکن وہ ایسا ہرگز نہیں کرتا سکتا ہے کیونکہ یہ اس کے شایان شان نہیں۔
قرآن مجید فرماتا ہے:
"یقیناً اللہ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا"۔
خدا چاہے تو ظلم کر سکتا ہے لیکن جونہی ظلم کرے گا خدا نہیں رہے گا۔
خدا بھولتا ہے نہ غلطی کرتا ہے
خدا کسی چیز کو نہیں بھولتا کیونکہ بھولنا ایک غیر خدائی فعل ہے جو انسانی عجز، کمزوریوں اور کوتاہیوں کی علامت ہے۔ علی ہذا القیاس خدائے ذوالجلال کبھی غلطی نہیں کرتا کیونکہ یہ ایک غیر خدائی فعل ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے"۔
خدا اپنے شایان شان افعال انجام دیتا ہے
اللہ سبحان و تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اسلامی تصور خدا میں خدائے ذوالجلال قادر مطلق ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر ارشاد فرماتا ہے:
"بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے"۔
قرآن مجید مزید فرماتا ہے:
"وہ جو چاہے اسے خوب انجام دینے والا ہے"۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ خدا صرف روا، زیبا اور شایان شان کاموں کا ارادہ کرتا ہے نہ کہ نازیبا اور ناروا کاموں کا۔

مندرجہ بالا اقتباسات کے بعد ہم یہاں اردو کتاب کے بزم سوال و جواب کے صفحہ ۷۰ اور ۷۱ پر موجود کچھ مواد آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں:
لہذا اگر خدا انسان بننا چاہے تو وہ بن سکتا ہے لیکن پھر خدا نہیں رہے گا لہذا خدا کبھی بھی انسان
بننا نہیں چاہے گا۔
کیونکہ جھوٹ بولنا غیرخدائی فعل ہے اللہ سبحانہ جھوٹ بول سکتا ہے لیکن کبھی نہیں بولے جونہی وہ جھوٹ بولے گا خدا نہیں رہے گا۔
اللہ سبحانہ چاہے ظلم کر سکتا ہے لیکن کبھی نہیں کرے گا کیونکہ ظلم غیر خدائی فعل ہے جیسے قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے
"یقیناً اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا"۔
پس اگر وہ ظلم کرے گا تو خدائی سے معزول ہو جائے گا۔
اللہ سبحانہ چاہے تو غلطی کر سکتا ہے لیکن کبھی نہیں کرے گا کیونکہ غلطی کرنا خدائی شان کے خلاف ہے۔۔۔۔۔۔۔

ہم نے دونو ں کتابوں سے جو عبارات نقل کی ہیں انہیں بار بار پڑھئے اور اچھی طرح غور کرنے کے بعد ہمارے موقف کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیجئے کہ کیا واقعی ڈاکٹر صاحب خدا کے بارے میں خالص اسلامی نظریہ پیش کر رہے ہیں یا اس سلسلے میں وہ بہت بڑی غلطی میں مبتلا ہیں۔اگرچہ ان کی تحریر پڑھنے والا اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ وہ تو غیر مذاہب میں موجود خدا کے بارے میں باطل نظریات کی نشاندہی کر رہے ہیں اور ان کی کمزوری واضح کر رہے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ انھوں نے خدا کا جو تصور اسلام کے حوالے سے پیش کیا ہے، کیا وہ اپنی جگہ درست ہے؟ اگر ایسا نہیں، تو انھوں نے اپنے اس فعل سے اسلام کی کیا خدمت انجام دی؟ مزید برآں، بعض حضرات اس طرح کے معاملات میں یہ موقف بھی اختیار کرتے ہیں کہ معترض نے تحریر کا بعض حصہ لے کر اپنی مرضی کا مطلب اخذ کرنے کی کوشش کی ہے، اور یوں غلطی پر پردہ ڈالنے کی سعی کرتے ہیں۔ ہم عرض کریں گے کہ ان کا یہ اعتراض تب معقول ہو گا جب تحریر کا بعض حصہ لینے اور باقی کو چھوڑ دینے سے معنی تبدیل ہو جائیں، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو یہ اعتراض درست نہیں۔ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے جن عبارات پر اعتراض کیا ہے وہ مستقل حیثیت کی حامل ہیں اور ان کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھا جائے یا علیحدہ، معنی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اور نہ ہی ہمارا اعتراض رفع ہوتا ہے۔ ہم نے متعلقہ صفحات چونکہ مضمون کے آخر میں دے دیے ہیں لہٰذا ہر شخص تسلی کے لئے ان کی طرف رجوع کر کے ہمارے دعوے کی تصدیق کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی نقل شدہ تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ اللہ سبحان و تعالیٰ ہر کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے، خواہ وہ کام اچھا ہو یا برا۔ مثلاً ڈاکٹر صاحب کے مطابق اللہ تعالیٰ (معاذاللہ) ظلم کر سکتا ہے، جھوٹ بول سکتا ہے، غلطی کر سکتا ہے، انسانی شکل میں ڈھل سکتا ہے وغیرہ ۔ البتہ وہ ایسا کرتا نہیں، کیونکہ اگر وہ یہ کام کرے تو خدائی سے معزول ہو جائے گا اور خدا نہیں رہے گا ۔ایک اور وجہ یہ ہے کہ ان کی نظر میں یہ سب کام غیر خدائی ہیں اور اللہ صرف خدائی کام کرتا ہے ۔

دوسرا موقف ہم نے علمائے اسلام کا بیان کیا جس کے مطابق اللہ تعالیٰ ہر قسم کے عیب سے پاک ہے اور اس کی طرف کسی ایسی چیز کی نسبت جو اس کی شان و عظمت کے لائق نہ ہو، جائز نہیں۔ اور چونکہ یہ دونوں موقف بالکل جدا ہیں، لہذا ان میں سے ایک یقینی طور پر غلط ہے۔

اس ضمن میں ہم ڈاکٹر صاحب کے موقف کا تنقیدی جائزہ لیں گے اور پھر علمائے اسلام کی تصریحات سے اس کا موازنہ کریں گے۔ہم یہاں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیں گے کہ وہ کس موقف کو درست سمجھتے ہیں۔ ہماری نظر میں ڈاکٹر صاحب کا خدا کے بارے میں نظریہ درج ذیل وجوہات کی بنا پر قطعی طور پر باطل ہے:

پہلی بات یہ کہ ڈاکٹر صاحب عیوب و نقائص کو اللہ تعالیٰ کے حق میں ممکن مان رہے ہیں جبکہ اکابرین امت نے اللہ تعالیٰ کے تمام عیوب سے پاک ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکٹر صاحب کی رائے پوری امت کے اجماع پر فوقیت رکھتی ہے، یا اس اجماعی مسئلے کے خلاف جا کر وہ غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مزید برآں، اگر محض عقلی لحاظ سے بھی سوچا جائے تو کون سا موقف زیادہ بہتر ہے؟ کیا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے جھوٹ، ظلم، بھول اور دوسری خامیوں کا اقرار کیا جائے، یا اسے ان تمام نقائص سے مکمل طور پر پاک سمجھا جائے۔ فیصلہ آپ خود کیجئے۔

دوسری قابل ذکر بات یہ کہ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اگر خدا سے کسی ایسے فعل کا ظہور ہو جائے جو اس کی شان کے لائق نہیں تو وہ خدا ئی سے معزول ہو جائے گا اور خدا نہیں رہے گا، لہذا قادر ہونے کے باوجود وہ ایسا کوئی فعل نہیں کرتا جو خدائی کے زوال کا موجب بن سکتا ہو۔ جبکہ علمائے اسلام چونکہ اللہ تعالیٰ کو کسی قبیح چیز سے متصف ہی نہیں مانتے، لہذا ان کے نزدیک ایسا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ اگر یوں ہو تو کیا ہو۔ ذرا تصور کیجئے، کیا اللہ تعالیٰ کا خدائی سے معزول ہونا ممکن ہے، خواہ اپنی مرضی سے ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی عقلمند شخص اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ ایک لمحے کے لئے بھی خدائی سے معزول ہو سکتا ہے۔ اب ڈاکٹر صاحب کے موقف کے مطابق اللہ تعالیٰ اگر انسانی پیکر میں ڈھل جائے تو خدائی سے معزول ہو جائے گا، لیکن بحر حال وہ انسانی پیکر میں ڈھلنے پر قادر ضرور ہے، تو دوسرے لفظوں میں ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ خود کو خدائی سے معزول کرنے پر قادر ہوا، کیونکہ وہ ایک ایسے عمل پر قادر ہے جس کا لازمی نتیجہ خدائی سے معزولی ہے۔ کیا خدا کا یہ تصور اسلام کے اصولوں کے مطابق ہے؟ غور کیجئے۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب ایک انوکھی اور خود ساختہ تقسیم خدائی کاموں اور غیر خدائی کاموں کی فرما رہے ہیں۔ لیکن آخر یہ تقسیم وہ کس بنیاد پر کر رہے ہیں؟ اگر ان کے نزدیک جھوٹ، ظلم، نسیان اور اس کی مثل بعض دوسرے کام غیر خدائی ہیں تو انھیں اللہ تعالیٰ کو ایسے کاموں سے متصف ماننے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان خصوصیات سے ضرور متصف ہے تو پھر یہ کام غیر خدائی کیسے ہوئے، خدائی کیوں نہ بن گئے۔ کیا یہ نظریاتی تضاد نہیں؟ اس سلسلے میں یہ وضاحت بھی درکار ہے کہ افعال کے خدائی یا غیر خدائی ہونے کا معیار کیا ہے۔ کیاان اعمال کا وقوع ان میں حد فاصل ہے، مثلاً انسان سے ظلم وقوع پذیر ہوتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ سے یہ وقوع پذیر نہیں ہوتا لہذا یہ غیر خدائی فعل ہوا (باوجود اس کے کہ اگر اللہ چاہے تو ظلم کر سکتا ہے)۔ اگر ایسا ہے تو اس پر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مثلاً سننا اور دیکھنا خدائی افعال ہیں یا غیر خدائی، جبکہ اللہ تعالیٰ بھی سمیع و بصیر ہے اور انسان میں بھی سننے اور دیکھنے کی قابلیت رکھی گئی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی زندہ ہے اور انسان کو بھی اس خصوصیت سے نوازا گیا، وعلی ھذالقیاس، آپ انسان سے بہت سے ایسے افعال کا ظہور دن رات مشاہدہ کریں گے جن سے اللہ تعالیٰ کے متصف ہونے میں کسی کو شک نہیں۔ تو پھر آخر خدائی اور غیر خدائی کی یہ تقسیم کن بنیادوں پر کی جائے؟ ثابت ہوا کہ یہ استدلال سرے سے غلط اور باطل ہے۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت ذیل میں درج کی جاتی ہے۔

بنیادی طور پر ہم صفات کی تقسیم تین طرح سے کر سکتے ہیں۔ پہلی قسم ان صفات کی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں اور اس طرح خاص ہیں کہ غیر خدا میں ان کا تصور بھی ممکن نہیں۔ مثال کے طور پر صفت الوہیت خاصہء خدا ہے جس میں غیر خدا کا کوئی حصہ نہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات کے ساتھ قدیم ہے جبکہ تمام مخلوق حادث۔ جو شخص کسی مخلوق کے بارے میں قدامت کا نظریہ رکھے، وہ شرک کا مرتکب قرار پائے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے جس کو کبھی فنا نہیں جبکہ مخلوق کی فنا ممکن۔ یونہی اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ذاتی ہیں جبکہ مخلوق کے لئے ایک ذرے کے برابر بھی ذاتی صفت ماننا شرک خالص۔

دوسری قسم ان صفات کی ہے جو صرف مخلوق کے لئے ثابت ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ان سے متصف ماننا جائز نہیں۔ مثلاً مخلوق ،جیسا کہ اپنے نام سے ظاہر، کہ تخلیق کی گئی جبکہ اللہ تعالیٰ کو کسی نے تخلیق نہیں کیا، مخلوق عاجز جبکہ اللہ کے لئے شان صمدیت ثابت، مخلوق کے حق میں اولاد باعث فخر جبکہ اللہ کے حق میں بہت بڑا عیب، مخلوق کے لئے موت واقع جبکہ اللہ تعالیٰ کے لئے یہ ناممکن، مخلوق سونے کی محتاج جبکہ اللہ وہ ذات جسے نہ نیند آئے نہ اونگھ۔ اسی طرح سینکڑوں مثالیں مزید پیش کی جا سکتی ہیں لیکن سمجھنے کے لئے یہ کافی ہیں۔

تیسری قسم ان اوصاف کی جو اللہ تعالیٰ کے لئے تو ثابت ہیں مگر اس نے اپنی حکمت و رحمت سے اپنے بندوں کو بھی ان سے حصہ عطا فرمایا۔مثلاً اس نے ہمیں زندگی عطا فرمائی، علم کی دولت سے نوازا، دیکھنے اور سننے کا ملکہ عطا فرمایا وغیرہ۔ حالانکہ وہ خود اپنی شان کے مطابق ان تمام صفات سے متصف ہے، مگر اس کی تمام صفات حقیقی اور ذاتی، جبکہ ہماری ہر صفت مجازی اور عطائی، اور ان دونوں کو آپس میں کوئی تقابلی نسبت نہیں۔

پہلی اور تیسری قسم کے بارے میں تو شاید کسی کے دل میں کوئی ابہام نہیں ہو گا، لہذا ہم دوسری قسم کی صفات کے بارے میں بحث کریں گے۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ اس قسم کی صفات سے اللہ تعالیٰ کو متصف ماننا ہمارے نزدیک جائز نہیں۔ لیکن اس کی کیفیت کیا ہو گی؟ کیا ہم محض اس قسم کے افعال کے اللہ تعالیٰ سے وقوع کے خلاف ہیں یا مطلقاً انھیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تحت ماننے سےہمیں انکار ہے۔ اس سوال کا جواب تھوڑا سا تفصیل طلب ہے۔

ذرا سوچئے، کیا یہ عقیدہ رکھنا درسست ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو عاجز ہو جائے، اگر چاہے تو شادی کر لے اور اپنے لئے بیٹے بیٹیاں پیدا کر لے، اگر چاہے تو اپنے اوپر موت طاری کر لے، چاہے تو دو چار گھڑی کے لئے سو جائے یا کم ازکم ذرا اونگھ ہی لے، لیکن وہ یہ کام اس لئے نہیں کرتا کہ اگر ایسا کر ے تو خدائی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔(یہی نہیں، بلکہ ڈاکٹر صاحب اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ خدائے ذوالجلال کو "خالق" ، "پیدا کرنے والا" یا "برہما" کہہ کر پکارا جائے۔ تاہم مسلمان نا صرف اس تصور کو کہ "برہما" ایسا خدا ہے کہ جس کے چار سر ہیں، کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے بلکہ یکسر مسترد کر دیں گے۔ مزید لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا کہ اللہ سبحانہ کو "رب" ، "پروردگار" یا "وشنو" کہہ کر پکارا جائے لیکن ہندوؤں کے مابین "وشنو" کا معروف تصور کچھ یوں ہے کہ اس کے چار ہاتھ ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکٹر صاحب خدا کو اس بات پر قادر مانتے ہیں کہ اگر چاہے تو اپنے لئے چار سر یا چار ہاتھ پیدا کر لے یا نہیں؟ ان کے نظریات سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اس پر ضرور قادر مانتے ہیں، کیونکہ کسی کے چار سر ہونا اس کے جھوٹا ہونے سے بڑا عیب تو نہیں۔ اور پھر جب پیکر انسانی میں ڈھلنے پر قادر مان لیا تو سروں کے متعدد ہونے میں کیوں عاجز ہو جائے گا)۔ بلا شبہ ایسی باتوں پر یقین رکھنا اور ایسا عقیدہ قائم کرنا تو کجا، ان باتوں کا محض نقل کرنا بھی ایک مسلمان کے لئے آزمائش سے کم نہیں۔ لیکن چونکہ اس کے بغیر ان کی قباحت کا کماحقہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اس لئے مجبوراً یہ سب یہاں لکھنا پڑا۔دوسرا موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ ہر عیب سے پاک ہے لہذا ان تمام قبائح کو اس کی طرف کوئی راستہ نہیں اور ان کا صدور تو درکنار اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تحت ماننا بھی منع ہے، لہذا ہم عیوب کو تحت قدرت نہیں مانتے۔ لیکن یوں نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر قادر نہیں، بلکہ اس طرح کہ ان افعال میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے تعلق رکھ سکیں۔ نتیجتاً ہم یہ نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو قبیح کام کر سکتا ہے، لیکن کرتا نہیں، بلکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ قبیح افعال اور عیب اس کی قدرت سے متعلق ہی نہیں اور اس کے حق میں محال قطعی ہیں اور کسی صورت اللہ تعالیٰ سے واقع نہیں ہو سکتے۔ موازنہ کیجئے کہ کون سا موقف ان میں حق پر مبنی ہے۔

یہاں بعض لوگوں کو یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح تو بہت سے افعال اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً قدرت الٰہی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ ہم عرض کریں گے کہ یہ وہم محض کم فہمی کا نتیجہ ہے۔ دراصل ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی شان اور عظمت کو سمجھ ہی نہیں پاتے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انسانی قدرت سے موازنہ کرنے کی بے معنی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے غلطی اور گمراہی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت کو اسی صورت میں وسعت حاصل ہو گی کہ اسے عیبی مانا جائے۔ کیا قرآن کی آیت "بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے" کا یہی تقاضہ ہے کہ اسے جھوٹ، ظلم اور دیگر قبائح پر قادر مانا جائے جنھیں یہ خود بھی غیر خدائی کام قرار دیتے ہیں۔ آئیے اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کریں کہ اگر ان قبائح کو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے متعلق نہ مانا جائے تو کیا اس سے قدرت الٰہی میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے؟

ماضی میں اسلام کا ایک گمراہ فرقہ گزرا ہے جو معتزلہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس فرقے کے لوگوں نے بہت سے مسائل میں اہل سنت سے اختلاف کیا۔ ان کا سواد اعظم سے ایک اختلاف یہ بھی تھا کہ انسان اپنے اعمال کا خالق خود ہے، جبکہ اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اور جو کچھ اعمال وہ کرتا ہے ان سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور انسان کی حیثیت محض ایک کاسب کی ہے۔ انسان اچھائی کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بھلائی کی تخلیق فرما دیتا ہے اور جب انسان برائی کا کسب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے برائی کو تخلیق فرما دیتا ہے۔ پس انسان اور اس کے سب اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے اپنی رحمت و حکمت سے اچھائی اور برائی دونوں کو تخلیق فرمایا۔ بھلائی میں اپنی رضا رکھی اور اس کے کرنے کا حکم دیا، جبکہ برائی میں اپنی ناراضگی رکھی اور اس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ اب انسان جس چیز کا کسب و ارادہ کرتا ہے اسی کی جزا پاتا ہے۔ذرا غور کیجئے کہ انسان جب برا عمل کرتا ہے تو کس کے دیے ہوئے اختیار سے کرتا ہے؟ یقیناً اللہ اس کے برے فعل سے راضی نہیں اور اگر وہ نہ چاہے تو کس کی مجال ہے کہ ایسا عمل کر پائے۔ اسی طرح اچھے اعمال بھی اسی رحمن کی عطا کی ہوئی توفیق سے انسان سے صادر ہوتے ہیں۔ اس سے ہم یہ بات آسانی سےسمجھ سکتے ہیں کہ کوئی شخص جو بھی عمل کرے، وہ اللہ تعالیٰ ہی کے عطا کئے گئے اختیار یا توفیق کی بدولت کرے گا۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت واختیار کو واضح کر تی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کےثبوت کے لئے ضروری نہیں کہ اسے خود بھی برائی پر عمل کرنے پر قادر مانا جائے اور اس کے برعکس عقیدہ رکھنے پر اس کی قدرت میں کمی ثابت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان بھی پیدا فرمائے اور جنات بھی اور فرشتوں کو بھی اسی نے تخلیق فرمایا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے تمام اعمال جو ان سے سرزد ہوتے ہیں ان کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ شیطان جو انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور برائی کی علامت ہے، کیا وہ اللہ کی مخلوق نہیں؟ پھر اگر اللہ تعالیٰ اسے مہلت نہ دیتا تو کیا وہ قیامت تک انسانوں کو گمراہ کرنے کا اختیار رکھ سکتا تھا؟ آج تک اس نے جو کچھ کیا اور جو کچھ کرے گا کیا اپنی ذاتی طاقت سے کرے گا؟ ہرگز نہیں، بلکہ یہ سب کچھ اللہ کے دیے ہوئے اختیار اور مہلت کی بنا پر ہے۔ تو کیا یہ تمام حقائق اللہ تعالیٰ کی قدرت کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ قبائح کا اس کی ذات عظمت نشان سے بالفعل صدور ممکن مانا جائے؟

اس بات کی مزید توضیح کے لئے ہم یہاں اعلحضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے رسالے "دامان سبحان السبوح" کا کچھ حصہ نقل کرتے ہیں جو آپ نے اپنے زمانے کے بعض اسی قسم کی گمراہی میں مبتلا لوگوں کے رد میں تحریر فرمایا۔ آپ لکھتے ہیں:

"ہم اہلسنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ عین مقدورات عبد پر بھی قادر ہے کہ وہ اسی کی قدرت کاملہ سے واقع ہوتے ہیں، اور ان کے امثال پر بھی کہ امثال عبد سے امثال فعل صادر کرا سکتا ہے، مگر ایسے امثال پر قدرت کہ خود اپنے نفس کریم سے ویسی ناپاکیاں صادر کر دکھائے، اس سے وہ پاک و متعالیٰ ہے (پاکی ہے عرش کے رب کوان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں )۔

اس کی مثال یوں سمجھو کہ زید و عمرو دونوں اپنی اپنی زوجہ کو طلاق دینے پر قادر ہیں، مگر ایک دوسرے کی زوجہ کو طلاق نہیں دے سکتا، تو ہر ایک دوسرے کے مقدور پر قادر نہیں بلکہ اس کی نظیر پر قادر ہے، لیکن حق جل مجدہ دونوں پر قادر ہے کہ ان میں جو اپنی زوجہ کو طلاق دے گا وہ طلاق اللہ ہی کی قدرت سے واقع و موجود ومخلوق ہو گی، تو اللہ تعالیٰ زید و عمر ہر ایک کے عین فعل پر بھی قادر ہے اور مثل فعل پر بھی کہ ایک کا فعل دوسرے کا مثل تھا۔ مگر ان (منکرین) کی ضلالت نے اسے خدا کی قدرت نہ جانابلکہ قدرت کے لئے یہ لازم سمجھا کہ جیسے وہ اپنی اپنی جورو کو طلاق دے سکتے ہیں خدا خود بھی اپنی جورو مقدسہ کو طلاق دے سکے۔ اس گدھے پن کی حد ہے۔ اس بے ایمانی کا ٹھکانہ ہے۔ لا حول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم"۔

اس کے بعد مزید فرماتے ہیں:
"یہ قضیہ بیشک حق تھا کہ جس پر انسان قادر ہے اس سب پر اور اس کے علاوہ نامتناہی اشیاء پر مولی عزوجل قادر ہے۔ وہ (انسان) بقدرت ظاہریہ عطایئہ اور حق تعالیٰ بقدرت حقیقیہ ذاتیہ، مگر اس حق کو یہ ناحق کوش کس طرح باطل محض کی طرف لے گیا۔ انسان کا فعل کو کرنا کسب کہلاتا ہے۔ انسان کی قدرت ظاہریہ صرف اسی قدر ہے۔ قدرت حقیقیہ، خلق و ایجاد میں اس کا حصہ نہیں۔ وہ خاص مولی عزوجل کی قدرت ہے۔ تو اس کلمہ حق کا حاصل یہ تھا کہ انسان جس چیز کے کسب پر قادر ہے اللہ عزوجل اس کے خلق اور پیدا کرنے پر قادر ہے کہ وہ کسب نہ ہو گا مگر بقدرت خدا، اس دل کے اندھے نے یہ بنا لیا کہ انسان جس چیز کے کسب پر قادر ہے، رحمن بھی خود اپنے لئے اس کے کسب پر قادر ہے (پاکی ہے عرش کے رب کو ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں)۔ اندھے نے نہ جانا کہ کسی کا کسی شے پر قادر ہونا 'صحۃ الشئی من' ہے نہ کہ 'صحۃ الشئی علیہ' اور صاف گھڑ لیا کہ جو بندے پر جاری ہو سکے خدا پر بھی جاری ہو سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ضلالت و شیطنت بے انتہا ہے"۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس ساری تفصیل سے ڈاکٹر صاحب کے نظریات کی لغویت مکمل طور پر ظاہر ہو گئی ہو گی۔ خدا جانے انھوں نے یہ نظریات کہاں سے اخذ کر لیے۔ غالباً انھوں نے دینی تعلیم باقاعدہ کسی مستند ادارے سے حاصل نہیں کی، بلکہ اس سلسلے میں وہ اپنی ذاتی صلاحیتوں اور مطالعے پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں، لہذا اس سب کی ایک وجہ ان کی امت مسلمہ کے اجماعی عقائد سے لاعلمی ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک اور بات کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ وہ یہ کہ چونکہ ڈاکٹر صاحب کا سامنا اکثر غیر مذہب کے لوگوں سے رہتا ہے اور انھیں اس سلسلے میں مختلف مذاہب کے بارے میں کافی معلومات بھی حاصل کرنا ہو تی ہیں ، جس کے لئے لازماً ان مذاہب کی کتب کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے، تو ہو سکتا ہے کہ تحریف شدہ بائیبل، بھگوت گیتا، ہندووں کےمختلف وید اور اسی قسم کی کتابیں جن میں جھوٹے خداؤں کی جھوٹی صفات درج ہیں، ان کے کثرت مطالعہ کی وجہ سے ان کے ذہن میں سچے خدا کی سچی صفات بھی دھندلا گئی ہوں اور وہ اس قسم کی غلطیوں میں مبتلا ہو گئے ہوں۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے نازک معاملات میں اپنی زبان اور قلم کو انتہائی احتیاط کے ساتھ استعمال میں لانا چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی کم علمی کی وجہ سے آپ عوام الناس کی گمراہی کا سبب بن جائیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ڈاکٹر صاحب بالکل ہی کم علم شخصیت ہیں، بلکہ ہم تو اپنی اس تحریر میں ان کی غیر مذاہب پر وسیع معلومات کا برملا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ ہم پھر اقرار کرتے ہیں کہ دیگر مذاہب پر انھیں کافی عبور حاصل ہے، اگرچہ اسلامی عقائد کے بارے میں ان کی معلومات ناقص سہی۔ لہذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں ایسے معاملات میں بات نہیں کرنی چاہئے جن کو وہ خود اچھی طرح ابھی سمجھ نہیں پائے، بلکہ اس کے برعکس اپنی توجہ ان امور تک محدود رکھنی چاہئے جن میں انھوں نے کچھ مہارت حاصل کر لی ہے۔ بلکہ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ دوسروں کو وعظ کرنے کے بجائے وہ خود اللہ تعالیٰ عزوجل کی ذات و صفات کے بارے میں علم حاصل کرنے پر توجہ دیں۔ جس شخص کا اپنا ہی ایمان داؤ پر لگا ہو وہ کسی دوسرے کو کیا دین کی دعوت دے گا؟ چونکہ ڈاکٹر صاحب عقلی دلائل کو کافی اہمیت دیتے ہیں لہذا ہم بطور عقلی دلیل ایک ایسی مثال ان کے سامنے پیش کرتے ہیں جو ان کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہے:

فرض کیجئے ایک شخص دل کے عارضے میں مبتلا ہو جس کاعلاج صرف آپریشن ہو، لیکن وہ شخص اپنےعلاج کے لئے کسی ایسے معالج کی طرف رجوع کرے جو آنکھ کے امراض کا ماہر ہو، تو کیا ایسے شخص کو کوئی عقلمند کہے گا۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی شخص ہرگز اسے عقلمند قرار نہیں دے سکتا۔ اب ذرا تصور کیجئے کہ مذکورہ معالج بھی اس دل کے مریض کے علاج پر کمر بستہ ہو جائے اور دلیل یہ دے کہ چونکہ وہ بھی سند یافتہ ہے لہذا اسے اس بات کا پورا استحقاق ہے کہ وہ کسی بھی مریض کاعلاج کر سکے۔ تو آپ ایسے معالج کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔ ہماری پیش کردہ مثال میں قابل غور چیز علاج کا استحقاق نہیں، بلکہ مہارت اور قابلیت ہے۔ امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہمارا اشارہ سمجھ گئے ہونگے، کیونکہ ہمیں اعتراض بہرحال ان کی عقل پر نہیں بلکہ اسلام کے بنیادی نظریات کے بارے میں ان کی معلومات پر ہے۔

آخر میں ہم ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ یہ کہ بعض لوگ جب کسی سے متاثر ہوتے ہیں تو اس کے خلاف کسی قسم کی بات سننے پر خودکو تیار نہیں کر پاتے اور اس شخصیت کو ہر خامی سےپاک تصور کرتے ہیں۔ یقیناً ڈاکٹر صاحب کے مداحوں میں بھی ایسے لوگ ضرور ہونگے جن کے نزدیک ڈاکٹر صاحب جیسی ذہین اور قابل شخصیت اتنی بڑی غلطی کا شکارہرگز نہیں ہو سکتی۔ ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب سے غلطی کا صدور کوئی انہونی بات نہیں جس پر یقین کرنا مشکل ہو۔ بلکہ ہم موقع کی مناسبت سے ان کی ایک غلطی آپ کے سامنے رکھے دیتے ہیں، اور اس کے لئے ہمیں دور جانے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ ان کی اسی کتاب سے ہم اپنی بات کو ثابت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب کے صفحہ ۲۰ پر نظریہ تجسیم و حلول پر بحث کرتے ہوئے اس کی مخالفت پر ایک دلیل پیش کرتے ہیں۔ اس تحریر کا تنقیدی جائزہ آپ کے پیش خدمت ہے:

بنیادی طور پر اس تحریر میں ایک غلط نظریہ اور اس کی توجیح کوبیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد ا س غلط نظرئیے کے رد میں ایک دلیل پیش کی گئی ہے۔ آئیے اب ایک ایک کر کے ان سب کا جائزہ لیتے ہیں۔

نظریہ یہ ہے کہ بعض مذاہب میں بالواسطہ یا بلا واسطہ حلول یا تجسیم کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔

اس کی توجیح یہ کہ ان مذاہب کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا اتنا پاک، مقدس اور ارفع و اعلی ہے کہ وہ انسانی صعوبتوں، خامیوں اور جذبات و احساسات سے نا آگاہ ہے، بنا بریں وہ انسانوں کے لیے قوانین مرتب کرنے کے لیے خود زمین پر اتر آیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب اس نظریے کے غلط ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اپنے اس دعوے کے حق میں جو دلیل لائے ہیں ذرا وہ ملاحظہ کیجئے۔ مثال دے کرکہتے ہیں کہ ٹیپ ریکارڈر بکثرت بنائے جاتے ہیں لیکن کبھی کوئی ایسی تجویز سامنے نہیں آئی کہ ٹیپ ریکارڈر کی بہتری کے لیے اس کا بنانے والا خود ٹیپ ریکارڈر بن جائے، بلکہ اس کے برعکس ٹیپ ریکارڈر بنانے والا ایک رہنما کتابچہ چھاپتا ہے اور ٹیپ ریکارڈر کے ہمراہ ہمارے حوالے کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی دلیل بنفسہ تو بالکل صحیح ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس دلیل کو اس دعویٰ سے بھی کوئی تعلق ہے جس کے حق میں یہ پیش کی گئی؟ ذرا اوپر بیان کی گئی توجیح کی طرف رجوع کیجئے۔ جو لوگ تجسیم کا نظریہ رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا کو انسانی صورت میں زمین پر اس لئے آنا پڑتا ہے کہ وہ انسانی جذبات اور احساسات سے واقفیت نہیں رکھتا۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب ٹیپ ریکارڈر کی مثال دے کر فرما رہے ہیں کہ اس کے بنانے والے کو اسے سمجھنے کے لئے خود ٹیپ ریکارڈر بننا نہیں پڑے گا بلکہ وہ ایک رہنما کتابچہ لکھ دے گا۔ گزارش یہ ہے کہ کتابچہ وہی لکھ سکتا ہے جو ٹیپ ریکارڈر کے بارے میں جانتا ہے، جس کو اس کے بارے میں علم ہی نہیں وہ کتابچہ کیونکر لکھ سکے گا۔ جبکہ آپ خود فرما رہے ہیں کہ ٹیپ ریکارڈر بنانے والے کو اسے سمجھنے کے لئے (نہ کہ سمجھانے کے لئے) خود ٹیپ ریکارڈر بننا نہیں پڑے گا۔ مزید یہ کہ جن کو آپ دلیل دے رہے ہیں وہ بھی اپنی توجیح میں یہ کہہ رہے ہیں کہ خدا انسان کے احساسات کا علم ہی نہیں رکھتا لہٰذا اس سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے زمین پر آتا ہے۔ اب آپ کی اس دلیل سے وہ لوگ کیونکر مطمئن ہونگے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے خود ہی ایک اعتراض پیش کیا جس کی توجیح بھی بیان کی مگر اس کے رد کے لیے جو دلیل لائے وہ اس سے بالکل ہی لاتعلق ہے۔

آپ نے دیکھا کہ موصوف اپنی ہی لکھی ہوئی بات کو صحیح طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اب ایسے شخص سے کیا بعید ہے کہ وہ ان غلطیوں کا مرتکب ہو جن کا ہم نے پہلے تفصیلی بیان ذکر کیا اور جن کو ظاہر کرنے کے لئے یہ ساری تحریر عمل میں آئی۔

بہرحال، ہمیں یہاں ان کے ایک ایسے نظریے کا بطلان ظاہر کرنا تھا جس کا تعلق کسی فروعی مسئلے سے ہرگز نہیں اور نہ اسے فروعی مسائل پر قیاس کر کے نظر انداز کیا جا سکتا ہے، بلکہ یہ معاملہ الٰہیات سے متعلق ہے جس کے بارے میں ذرا سی کوتاہی ایمان کی مکمل تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ سے ہماری یہ دعا ہے کہ ہمیں پوری زندگی حق پر قائم رکھتے ہوئے ایمان پر ہمارا خاتمہ فرمائے اور ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ و مامون فرمائے اور ہماری اس تحریر کو پڑھنے والوں کے لئے مفید بنائے اور اس کی ممکنہ غلطیوں سے درگزر فرمائے۔ بے شک ہمارا رب ہر قسم کی غلطی سے پاک و منزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں درست بات کہنے کی اور سن کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 440383 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.