کيا اب بھی ايسے لوگ ہيں جو کورونا کی وبا سے لا علم ہيں؟

image


اس وقت اس بات کا تصور بھی ناممکن ہے کہ کوئی کورونا کی وبا سے لا علم ہو۔ مگر دنيا کے چند ممالک ميں نہ صرف ایسا ہے بلکہ بعض ايسے لوگ بھی موجود ہيں، جو يا اس وبا کو جھٹلا رہے ہيں يا اس کے بارے ميں غلط معلومات رکھتے ہيں۔

پچھلے لگ بھگ چھ ماہ سے دنيا کو کئی دہائيوں بعد ايک عالمگير وبا کا سامنا ہے۔ نئے کورونا وائرس کا وبائی مرض دنيا کے بيشتر حصوں تک پھيل چکا ہے۔ پچيس جون کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر متاثرين کی تعداد قريب 95 لاکھ اور ہلاک شدگان کی تعداد چار لاکھ 80 ہزار سے متجاوز ہے۔ ايسے ميں يہ تصور بھی ممکن نہيں کہ آج دنيا ميں کچھ ايسے بھی علاقے ہيں اور کچھ ايسے بھی لوگ ہيں، جو اس وبا سے قطعی طور پر لا علم ہيں۔ مگر يہ ايک حقيقت ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے مبصرين افريقی ملک صوماليہ کی سرحد پر مہاجرين سے پوچھ گچھ کرتے ہيں۔ عموماً ان تارکين وطن سے صرف ان کے نام اور پتے اور منزل کے بارے ميں دريافت کيا جاتا تھا مگر صوماليہ ميں کووڈ انيس کے اولين کيس کی تصديق کے بعد سوالات کی فہرست ميں کورونا وائرس کے بارے ميں ايک سوال بھی شامل کر ليا گيا۔

بيس جون کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران مجموعی طور پر 3,471 مہاجرين سے سوالات پوچھے گئے اور ان ميں سے 51 فيصد کورونا وائرس اور عالمی وبا کے بارے ميں لا علم تھے۔ صومالی دارالحکومت موغاديشو ميں يو اين ايچ سی آر کی خاتون پروگرام منيجر سليسٹ سانچيز بين کے مطابق جب پہلی مرتبہ انہيں اس بارے ميں پتا چلا تو انہيں کافی حيرت ہوئی۔ سانچيز بتاتی ہيں کہ اکثر اوقات يمن جانے کے خواہش مند مہاجرين کو يہ علم بھی نہيں ہوتا کہ وہاں جنگ جاری ہے: ''تو اس لحاظ سے شايد يہ حيرت کی بات نہيں کہ کورونا وائرس کے بارے ميں اب بھی آگاہی محدود ہے۔‘‘ ان مہاجرين کا تعلق اکثريتی طور پر ايتھوپيا سے ہوتا ہے۔ زيادہ تر ديہی علاقوں سے ہوتے ہيں، جہاں انٹرنيٹ کی سہولت کم ہی دستياب ہے۔
 

image


کووڈ انيس کے بارے ميں لاعلمی صرف مہاجرين تک ہی محدود نہيں۔ جنوبی صوماليہ کے شہر ساکاؤ سے ٹيلی فون پر بات کرتے ہوئے فاطمہ موالن نے کووڈ انيس کے بارے ميں بات کرتے ہوئے کہا، '' ايسا کوئی لفظ ميرے کانوں سے گزرا ہے مگر يہ يہاں نہيں۔ مسلمانوں کو يہ بيماری نہيں لگتی۔‘‘

صوماليہ ميں شدت پسند تنظيم الشباب کے زير کنٹرول علاقوں کے مقيم تو وائرس کو سرے سے ہی جھٹلا ديتے ہيں۔ موغاديشو حکام انٹرنيٹ کی محدود دستيابی، آگاہی پھيلانے کی کم مہمات اور شدت پسندوں کی جانب سے رابطہ کاری پر پابندی کو اس مسئلے کی وجوہات بتاتے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر نے يہ بھی پتا چلايا کہ صوماليہ کے کئی دور دراز کے علاقوں ميں لوگ اب بھی کووڈ انيس کو مچھروں کے کاٹنے سے لگنے والی کوئی بيماری سمجھتے ہيں اور ان کا ماننا ہے کہ سب سے اہم علامت پيٹ خراب ہونا ہے۔
 


Partner Content: DW

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: