خوشی اور اطمینان قلب کیسے حاصل کی جا سکتی ھے ، یہ سوال
ھر فرد کے پیش نظر رہتا ہے، مگر بجائے سلجھنے کے خیالات و تصورات مذید
الجھتے رہتے ہیں، غور کریں تو معلوم ھو گا کہ اس کا جواب خود انسان کے اندر
موجود ہوتا ہے، اکثر اوقات انسان خود کو خواہشات کا غلام بنا لیتا ہے اور
اس کے حصول کے لیے تمام جائز اور ناجائز ذرائع استعمال میں لاتا ہے، یہی
نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے، خوشی اور خواہش دو الگ چیزیں ہیں، خواہشات کی
دنیا اتنی وسیع ھے کہ اس میں ٹھہراؤ ممکن نہیں ہوتا، اور انسان اس سمندر
میں ڈوبتا رہتا ہے اور بالآخر کشتی چھوٹ جاتی ہے اور وہ غرق ہو جاتا ھے،
ضروریات زندگی کی کوشش کرنا، خواہش نہیں بلکہ فرض ہے مگر محدود سے لا محدود
کا سفر انسان میں ھوس جنم دیتا ہے، جو اس کی تسکین کبھی نہیں کر پاتا، اسی
لیے نفس کے خلاف جہاد کو جہاد اکبر کا نام دیا گیا، خوشی اور اطمینان قلب
روح سے جنم لیتا ہے اور روح کی اصل غذا ذکر الہیٰ ھے، جس کے لیے کہاگیا کہ
"بے شک اللہ کا ذکر ھی دلوں کو اطمینان اور سکون دیتا ہے" یہ ایک مضبوط قوت
ھے جو عجز و نیاز کے ساتھ اللہ کے سامنے جھک کر نماز کی صورت میں، یا چلتے
پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، جاگتے، سوتے ھر لمحہ احساس وعمل سے پیدا ھوتی ھے، یہ
قوت انسان کو ظاہر وباطن کو خوشی سے لبریز کرتی ہے، دوسری طرف شیطان بھی
اسی طاقت کے ساتھ سرگرم عمل رہتا ہے جو انسان کے اندر حسد جیسی بیماری کو
تقویت دیتا ہے، جیسے حدیث میں فرمایا گیا کہ، "حسد نیکیوں کو سوکھی لکڑیوں
کی طرح جلا دیتا ہے" جو نیکی آپ نے حاصل کی وہ اس سے ضائع ہو گئی جبکہ حسد
تو انسان کی خوشیاں بھی جلا دیتا ہے، کئی دفعہ جس سے حسد کیا جائے اس کو
بھی جلا دیتا ہے، مگر حسد کرنے والے کی تسکین نہیں ھوتی! اس لئے خوشی ذکر
الہیٰ کے بعد شکر گزاری اور دوسروں کی خوشی سے حاصل ہوتی ہے، اسی سے ظرف
پیدا ہوتا ہے اور جب ظرف اجائے تو کوئی چیز آپ کو زیر نہیں کر سکتی، آج
معاشرے میں خواہشات اور حسد کی فروانی ھے جس کی وجہ سے ھر شخص خوشی سے
محروم ھے، یقین جانیے یہ اطمینان قلب ھی ھے جو موت سامنے دیکھ کر بھی نہیں
گھبراتا بلکہ اس امانت یعنی زندگی کی حفاظت کرتا ہے اور جب مالک واپس مانگے
تو آسانی سے اس کے حوالے کر دیتا ہے، حسد، خواہشات کا ھجوم اور ذکر و شکر
سے محرومی انسان کو چین نہیں دیتی، دوسروں پر نظر رکھنے اور ان سے حسد
رکھنے سے بے چینی اس کا مقدر بن جاتی ہے ایک دن وہ خود اس آگ کا ایندھن بن
جاتا ہے۔خوشی اور خواہش میں فرق کو سمجھیے اور ذکر و شکر سے اطمینان حاصل
کیجیئے، غم، اداسی یہ فطری ھیں اور اس میں صبر و نماز سے مدد ملتی ہے،
غمگین تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ھوئے، مگر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں
چھوڑا، اس لئے مایوسی اور بے چینی کی وجوہات یعنی خواہشات اور حسد سے کنارہ
کشی ھی فلاح و خوشی کا باعث ہے۔ |