سورۃ طور
تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے لیے جوتمام جہانوں کا پروردگار ہے اور درود
وسلام ہوں تمام رسولوں میں افضل ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی (صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) پر اور آپ کی آل اوراصحاب پر، امابعد!قرآن کریم
وہ بلند رتبہ کتاب ہے جس میں شک کی گنجائش نہیں،جسے اللہ تعالیٰ نے ایسے
عظیم نبی پر نازل فرمایا جن کے ذریعے نبیوں کی آمد کا سلسلہ مکمل ہوااور
وہ ایک ایسا دین لے کر تشریف لائے جو خاتم الادیان ٹھہرا ۔یہ وہ کتاب ہے جو
مخلوق کی اصلاح کے لیے خالق کا دستور ہے۔زمین والوں کی ہدایت ورہنمائی کے
لیے آفاقی قانون ہے، اس کو نازل فرمانے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام
سابقہ شریعتوں کو منسوخ فرمادیا اور قیامت تک کے لیے صرف شریعت محمدی اور
دین اسلام کے واجب القبول ہونے کا اعلان کردیا۔
قرآن مجید دین اسلام اور شریعت محمدی کی اساس اور برہان ہے۔ اس میں اللہ
تعالیٰ کی ذات اور صفات پر دلائل ہیں، انبیائے سابقین اور سیدنا حضرت محمد
صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی نبوت،رسالت اور ان کی عظمتوں کا بیان ہے،
حلال اورحرام، عبادات اور معاملات، آداب اور اخلاق کے جملہ احکام کا تذکرہ
ہے،حشرونشر اور جنت ودوزخ کا تفصیل سے ذکر ہے اور انسان کی ہدایت کے لیے جس
قدر امور کی ضرورت ہوسکتی ہے اس سب کا قرآن مجید میں بیان ہے۔آئیے ہم
سورۃ طور کے بارے میں جانتے ہیں آخر اس سورۃ میں بیان کیا اور کیسے ہوا؟
سورئہ طور مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ الطور، ۴/۱۸۶)۔
اس میں 2رکوع، 49آیتیں ،312کلمے اور1500حروف ہیں ۔( خازن، تفسیر سورۃ
الطور، ۴/۱۸۶)
وجہ تسمیہ :
طور ایک پہاڑ کا نام ہے ،اوراس سورت کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑ
کی قَسم ارشاد فرمائی ،اس مناسبت سے اس کا نام’’سورۂ طور‘‘ رکھا گیا۔
حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں نے مغرب کی
نماز میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو
سورۂ طور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا،جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان آیات پر پہنچے:
’’ اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَؕ(۳۵)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: کیا وہ کسی شے کے بغیر ہی پیدا کردئیے
آئیے ہم یہ جانتے ہیں کہ اس سورۃ میں بندوں سے کس کس موضوع کے متعلق خطاب
کیا گیا ہے ۔اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں نبی کریم صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کفار کے اعتراضات کے بڑے پُرجلال
انداز میں جوابات دئیے گئے ہیں ،نیز اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے
ہیں :اس سورت کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے 5چیزوں کی قَسم ذکر کر کے ارشاد
فرمایا کہ کفار کو جس عذاب کی وعید سنائی گئی ہے وہ قیامت کے دن ان پر ضرور
واقع ہو گا۔
آخرت کی ہَولناکیوں اور شدّتوں کا ذکر کیا گیا اور قیامت کے دن کفار کے
برے انجام اور پرہیز گاروں کو ملنے والی نعمتوں اور ان کی طرف سے اللہ
تعالیٰ کے احسانات کو یاد کرنے کا بیان فرمایا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کو رسالت کی تبلیغ جاری رکھنے اور کفار کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے
رہنے کا حکم دیا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی معبودِیَّت اور وحدانیَّت
پر قطعی دلیلیں قائم فرمائیں اسی طرح اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت اور صداقت کو قطعی دلیلوں سے ثابت
فرمایا۔اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی اور کفار کی اَذِیَّتوں پر صبر
کرنے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینے اور تمام اَوقات میں اپنے رب تعالیٰ
کا شکر ادا کرتے رہنے کا حکم ارشاد فرمایا۔
ہر دورمیں ارباب علم وفضل اور اصحاب تحقیق نے مختلف شکلوں میں قرآن پاک کے
ہر پہلو پر ممکنہ تحقیقی کام جاری رکھا ہے۔کبھی قرآن کے الفاظ اور اس کی
ادائیگی کے طریقوں پر تحقیق ہوئی تو کبھی قرآن پاک کا اسلوب اور اعجاز
مرجع التفات رہا۔کوئی قرآن پاک کی کتابت اور رسم الخط کے طریقوں کو اپنا
موضوع تحقیق بناتا ہے تو کسی کا وظیفہ حیات اور شغل زندگی قرآن مجید کی
تفسیر اور اس کی آیات کی شرح کرنے کی سعادت حاصل کرنارہا ہے ،اسی طرح اور
بہت سے گوشوں پر تحقیقی کام ہوا۔کلام مجید کی خدمت اور شعور و آگاہی کو
عام کرنے کی غرض سے ہم نے بھی کوشش کی کہ اس علمی ورثہ کو ہر خاص وعام تک
پہنچایا جائے ۔ہم کس حد تک کامیاب ہوئے یہ آپ کی عملی زندگی اور آپ کی
دعاؤں سے اندازہ ہوسکے گا۔ہمیشہ سلامت رہیں ۔ |