انسان خسارے میں ہے

قسم ہے زمانے کی، انسان خسارے میں ہے۔ سوا ے اُن لوگوں کے جو ایمان لاے، اور جنہوں نے نیک اعمال کیے، اور جنہوں نے ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کی۔ (سورۃ العصر)

یہاں اﷲ نے جس زمانے کی قسم کھایٔ ہے، وہ گزرا ہوا زمانہ بھی ہے، گزرتا ہوا زمانہ بھی، اور آنے والا زمانہ بھی۔ زمانے کی قسم کھانے کا مقصد یہاں ہر گز یہ نہیں کہ زمانہ بہت ہی باکمال ہے یا کبھی تھا بلکہ یہاں جس بنا پر اﷲ یہ قسم کھاتا ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ گواہ رہا ہے ان گزرے ہوے ایاّم کی جب جب انسان نے خو د کو خسارے میں ڈالے رکھا، اور کس طرح سے انسان خود کو خسارے میں ڈال رہا ہے اور کس طرح سے آنے والے وقتوں میں ڈالے گا۔ قرآن وہ واحد کتاب ہے جو ہر دور میں، ہر معاشرے میں، ہر زمانے میں، ہر طرح کے لوگوں کا ضامن رہی ہے۔جو کہ چودہ سو سال پہلے نازل ہونے کے باوجود ، آج بھی ہدایت کا مکمل نور ہے اور رہے گی۔ پس جب قرآن نے یہ کہ دیا کے قسم ہے زمانے کی، تو اِس سے مراد ہر دور ہے۔ پھر فرمایا کہ انسان خسارے میں ہے۔ خسارہ کہتے ہیں کسی بہت بڑے گھاٹے یا نقصان کو۔ اب چاہے وہ خسارہ مال و دولت کا ہو یا رزق کا ہو یا دنیا کا ہو یا آخرت کا۔ قرآن میں جب جب اﷲ فایٔدہ و نقصان کی بات کرتا ہے، اُس سے مراد دنیا و آخرت دونوں کا فایٔدہ و نقصان ہوتا ہے۔ درحقیقت دنیا والوں کے نزدیک تو دنیا کی کامیابی ہی کامیابی ہے اور دنیا میں ناکام ہونا ،ناکامی ہے۔ لیکن اﷲ کے نزدیک جو کامیابی اصل میں ہے وہ دنیا سے لے کر آخرت تک کی ہے اور ناکامی یعنی دنیا میں بھی گھاٹا اور آخرت میں بھی۔ جب اﷲ یہ کہتا ہے کہ انسان خسارے میں ہے سواے آگے بیان کی گیٔ چار صفات والوں کے۔ تو یہ صاف ظاہر ہے کے یہ چار صفات دنیا میں ہی ہونا لازم ہے ۔ یعنی کے اگر دنیا میں رہتے ہوے آپ ان صفات سے خالی ہیں، تو آپ بہت بڑے گھاٹے میں پڑے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اﷲ نے دنیا میں رہنے کے قاعدے قوانین مقرر کیے ہیں۔ اگر ہم ان قوانین کو دھتکار کر اپنی مرضی کریں گے، تو یقیناً خسارہ پایٔیں گے۔ اِس کی مزید وضاحت آپ کو مضمون کے اگلے حصے میں نظر آجاے گی۔

اب آتے ہیں اُن صفات پر جن کے نہ ہونے سے آپ کو دنیا و آخرت کا خسارہ ہے۔ پہلی ہے ایمان! ایمان کسے کہتے ہیں؟ قرآن میں بعض مقامات پر زبانی اقرار کرلینے کو بھی ایمان کہا گیا ہے لیکن حقیقت میں سچے دل سے مان لینے اور یقین کرنے کو ہی ایمان کہتے ہیں۔ اﷲ فرماتا ہے: ــ ــ مومن تو وہ ہے جو اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاے اور پھر شک میں نہ پڑے (سورۃ الحجرات)۔ یعنی ایمان صرف زبان سے اقرانا کر لینا نہیں ہے بلکہ اُس کو مان لینے کے بعد اس بات کا بھی یقین رکھناکہ جو کچھ بھی ہے، فقط اسی کے دم سے ہے،وہی زندگی اور موت کا مالک ہے، وہی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، وہی ہے جو عبادت کے لایٔق ہے، سواے اُس کے بادشاہ کویٔ نہیں،وہی قسمتوں کو بنانے اور بگاڑنے والا ہے، کویٔ نہیں جو اس کی برابری کر سکے، اس کے اختیار میں سبھی کچھ ہے، وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ اکثر لوگ اﷲ کو مان تو لیتے ہیں کہ ہاں، اﷲ ہے۔ لیکن حقیقی ایمان سے خالی ہوتے ہیں۔ وہ اﷲ سے مانگنے کے بجاے دنیا والوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں، دنیا والوں کے سامنے روتے ہیں اور ان کی خوش آمدیں کرتے ہیں۔ دعا اﷲ سے بے شک مانگ تو لیں لیکن یقین کی طاقت سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ انہیں یقین ہی نہیں ہوتا کے ان کی دعا قبول ہوگی بھی۔ یا وہ جیسا چاہتے ہیں، ویسا ہو بھی سکتا ہے یا نہیں۔ اِسے ہی کہتے ہیں شک میں پڑجانا۔ ایسے لو گ ایمان کے کچے ہوتے ہیں کیوں کہ یہ شرک کرنے سے بھی باز نہیں رہتے۔ اﷲ کو ماننے کے ساتھ اس کی طاقتوں پر بھی یقین رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ناممکن ہم انسانوں کے لیٔے تو کچھ ہوسکتا ہے لیکن یہ جان رکھو کہ اﷲ کے لیٔے کچھ بھی ناممکن نہیں۔ اﷲ خود کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو، گڑگڑاکر، عاجزی سے، میں تمہیں دوں گا۔ تو یقیناً وہ دے گا۔ لیکن یقین کا ہونا مقصود ہے، جیسا کہ اﷲ فرماتا ہے: تم مجھ سے جیسا گمان کرو گے، میں تمہوں ویسا ہی ملوں گا۔ اگر شک میں پڑ گیٔے، تو اﷲ تمہیں شک میں ہی ڈالے رکھے گا۔ اور پھر یہی لوگ روتے پھرتے ہیں کہ ہمارا کویٔ کام نہیں ہوتااور مایوسی کا ظہار کرتے ہیں۔ یا اگر ان کے کام ہو بھی جایٔیں تو بھی یہ نا شکرے ہی رہتے ہیں، اور اپنی کامیابی کا کریڈٹ اپنے آپ کو دیتے ہیں۔ اور جہاں ملے ناکامی، وہاں اﷲ کو کوسنے لگ جاتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں زندگی میں کبھی سکون نہیں مل پاتا۔ کیوں کہ یہ لوگ اپنی اپنی امیدوں کا مرکز دنیا کو اور لوگوں کو بناتے ہیں، اﷲ پر انکا ایمان نہیں ہوتا۔

اور جو لوگ ایمان لاے، وہ سب سے بڑھ کر اﷲ سے محبت رکھتے ہیں (سورۃ البقرہ)۔ یعنی اگر اﷲ پر ایمان ہے، تو اُس سے محبت ہونا لازم ہے۔ اور محبت کا تقاضا ہے کہ آپ محبوب کے تابع دار ہوں، اُس کی ہر بات مانیں، اُس کا ہر حکم بجا لاییٔں۔ مگر کیا ہم اﷲ سے محبت رکھتے ہیں؟ کیا ہم اُس کے ہر حکم کو مانتے ہیں؟ کیا ہم اُس کے تمام احکامات پر سرِ تسلیمِ خم کرتے ہیں؟ نہیں! بلکہ ہم تو سب کچھ ہی اُس کے احکامات کے برعکس کرتے ہیں۔ چاہے زندگی کا کویٔ بھی مرحلہ ہو، کویٔ بھی قدم ہو، کیا ہم اس کے بتاے ہوے طریقوں کے مطابق عمل کرتے ہیں؟َ اﷲ قرآن میں فرماتا ہے کہ جس نے سود لیا، اُس نے اﷲ کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ اور یہ کہ اس کی کویٔ عبادت بھی قبول نہیں ہوگی۔ مگر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ یہاں جتنے بھی لوگ بزنس کرتے ہیں، تقریباً سب ہی سود پر کام کرتے ہیں، اور زیادہ منافع کے لیٔے جھوٹ بولنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دنیا والوں کو دھوکے میں رکھتے ہیں تا کہ زیادہ مال کماسکیں۔ بظاہر تو انہیں اپنا فایٔدہ نظر آرہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ گھاٹے میں رہے۔ کیوں کہ ایسے لوگوں کی کمایٔ ہی حرام ہوگیٔ، اور جس کی کمایٔ حرام، اُس کی کویٔ عبادت قبول نہیں۔ حرام کما کر صدقہ و خیرات کردینے سے وہ مال ہرگز پاک نہیں ہوسکتا کیوں کہ وہ آپ نے حاصل کیا ہے اﷲ کے خلاف جاکر۔ اور ایسے مال میں نہ تو کبھی برکت ہوگی اور نہ ہی کبھی آپ کے دل کو سکون آے گا، نہ ہی آپ کی نیت بھرے گی اور نہ ہی کبھی آپ شکر کروگے۔ تو کیا یہ سراسر گھاٹا نہیں، دنیا کا بھی اور آخرت کا بھی؟ اور تو اور اﷲ قرآن میں کہتا ہے کہ جب اذان کی آواز آجاے تو اپنے اپنے کاروبار بند کرکے مسجدوں کی طرف دوڑو، لیکن یہاں تو معاملہ الٹ ہی ہے۔ اکثر لوگ اذان کی آواز آنے پر اپنا کاروبار بند نہیں کرتے، گویا انہیں نماز سے زیادہ اپنا کاروبار عزیز ہو۔ شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ رزق دینے والا صرف اﷲ ہے۔ تو کیا ایسے مال میں اﷲ برکت ڈالے گا؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ اﷲ جب کچھ دے سکتا ہے تو لے بھی سکتا ہے؟ جب آپ اس کے احکامات کی خلاف ورزی کریں گے تو کیا وہ آپ کو نوازے گا؟ کیا یہ خسارہ نہیں، دنیا کا بھی، آخرت کا بھی؟ دوسری طرف آخرت پر ایمان ہونا بے حد ضروری ہے۔ جب اانسان کو آخرت پر یقین ہوتا ہے تو وہ اپنی زندگی کو اﷲ اور اُس کے رسول کے بتاے ہوے طریقوں کے مطابق بسر کرتا ہے اور ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ غلط کاموں سے بچا رہے۔ وہ اپنی دنیا کو بہتر بناتا ہے کیوں کہ اسے آخرت پر یقین ہوتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ اﷲ کے احکامات کی خلاف ورزی کرکے اپنی دنیا بہتر بنا سکتے ہیں تو معاف کیجییٔے، آپ نے خود کو دھوکے میں ڈالا ہوا ہے۔ جو انسان بھی آخرت کو بھلادے، اس کا ایمان قابلِ قبول نہیں۔ کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں وہ اِس دنیا کو اخیر سمجھ لے گا۔ اور اخیر سمجھنے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی زندگی کو ایسے گزارے گا جیسے اِس کے بعد کویٔ زندگی نہیں۔ چنانچہ، وہ ہر قسم کے گناہوں میں مبتلاہوگا ۔ اور مرنے کے بعد اسے اُس کی اِس سوچ کے مطابق سزا ملے گی، کہ دنیا کی زندگی ہی سب کچھ تھی۔ تو اب آخرت میں اُس کے لیٔے کچھ نہیں ہوگا۔ اور اس سے بڑا خسارہ کچھ نہیں۔

دوسری صفت جو انسان کو خسارے سے بچانے کے لیٔے ضروری ہے وہ ہے عملِ صالح۔ یعنی کے نیک کاموں میں اپنی زندگی بسر کرنا۔ جیسا کہ میں اوپر کیٔ مثالیں دے چکی ہوں کہ اگر انسان کے پاس ایمان ہوگا تو وہ اﷲ کے بتاے طریقوں پر عمل کرے گا۔ وگرنہ شیطان کا پیروکار ہو گا۔ دوسری صفت بھی یہی بیان کر رہی ہے۔ کیوں کہ ایمان کے بغیر عملِ صالح ہونا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جب جب اﷲ نے نیک اعمال کا ذکر کیا ہے، اُس سے پہلے ایمان کا ذکر آیا ہے۔ ایمان اور عملِ صالح کا رشتہ درخت اور بیج کا سا ہے۔ جب تک بیج زمین میں نہ ہو، کویٔ درخت پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر بیج زمین میں ہو اور کویٔ درخت پیدا نہ ہو رہا ہے تو ا،س کا مطلب کہ بیج زمین میں دفن ہو کر رہ گیا۔ لہٰذا، قرآن میں جتنی بشارتیں بھی دی گیٔ ہیں وہ اُنہیں لوگوں کو دی گیٔ ہیں، جو ایمان لا کر عملِ صالح کریں۔ اِس سورۃ میں بھی اﷲ یہی فرما رہا ہے کہ ایمان کے بعد انسان کے خسارے سے بچنے کے لیٔے جس صفت کا ہونا لازمی ہے وہ ہے اعمالِ صالحات۔ کیوں کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں صرف دعویٰ رہ جاتا ہے، اور دعویٰ کرنے والا انسان اپنے اِس دعوے کی خود ہی تردید کر دیگا جب اُس کے اعمال سے اُس کے ایمان کا مظاہرہ نہیں ہو رہا ہوگا۔ گویا جب اس کے اعمال ہی اﷲ کے دین کے خلاف ہوں گے تو کیسا ایمان؟ اﷲ نے کہا ہے نماز پڑھو، زکوٰۃ دو، حج کرو، روزے رکھو، صدقہ و خیرات کرو، سوالی کو خالی ہاتھ نہ بھیجو، اپنے سے کم تر لوگوں کا خیال رکھو، ناچ گانے نہ کرو، شیطانی محفلوں سے پرہیز کرو، اور اپنے ماں باپ کے آگے اُف تک نہ کہو۔ لیکن اگر آپ نمازنہیں پڑھ رہے، زکوٰۃ نہیں دے رہے، شیطانی محفلوں میں بھی جا رہے، ماں باپ کی نافرمانی بھی کرر ہے، جھوٹ بھی بول رہے، غرض وہ سب کام کررہے جو اﷲ نے منع کیے۔ تو آپ کیسے یہ دعویٰ کر سکتے کہ آپ ایمان والے ہیں؟ بے شک آپ نے زبان سے یہ اقرارکیوں نہ کیا ہو کہ اﷲ ایک ہے اور قرآن سچا ہے اور محمد اس کے آخری رسول ہیں؟
اِن دو صفات کے بعد مزید دو صفات ہیں جو انسان کو خسارے سے بچانے کے لیٔے انتہایٔ ضروری ہیں۔ وہ ہیں ایک دوسرے کو صبر و حق کی تلقین کرتے رہنا۔ اور ان دو صفات کو میں اپنی اگلی تحریر میں تفصیلاً بیان کروں گی۔ کیوں کہ اس تحریر میں ایسا نا ممکن ہے۔
 

Rimsha Yaseen
About the Author: Rimsha Yaseen Read More Articles by Rimsha Yaseen: 10 Articles with 8997 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.