حج کے مہینوں میں سے شوال کا مہینہ ختم ہونے کے بعد ماہِ
ذو القعدہ کے شروع ہونے پر دنیا میں کورونا وبائی مرض کے پھیلاؤ کے باعث
سعودی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ امسال (1441-2020) سعودی عرب میں مقیم
مختلف ممالک کے باشندے ہی صرف محدود تعداد میں حجاج کرام کی حفاظت اور
سالمیت کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے حج بیت اﷲ ادا کرسکیں گے۔
غرضیکہ امسال دنیا کے چپہ چپہ سے ضیوف الرحمن حج کی ادائیگی نہیں کرسکیں گے۔
حج‘ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی طرح اسلام کا ایک اہم بنیادی رکن ہے۔ تمام عمر
میں ایک مرتبہ ہر اس شخص پر حج فرض ہے جس کو اﷲ نے اتنا مال دیا ہو کہ اپنے
گھر سے مکہ مکرمہ تک آنے جانے پر قادر ہو اور اپنے اہل وعیال کے مصارف
واپسی تک برداشت کرسکتا ہو۔ فرمانِ الٰہی ہے: لوگوں پر اﷲ تعالیٰ کا حق ہے
کہ جو اس کے گھر تک پہونچنے کی استطاعت رکھتے ہوں وہ اس کے گھر کا حج کریں
اور جو شخص اس کے حکم کی پیروی سے انکار کرے، اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اﷲ
تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔ (سورۃ آل عمران ۹۷)
مارچ کے مہینہ سے عمرہ پر پابندی اور امسال بیرون ممالک سے حجاج کرام کے حج
کی ادائیگی نہ کرنے پر سعودی حکومت اور سعودی عوام کو اربوں ریال کا خسارہ
ہے۔ چند سالوں سے تقریباً ۲۵۔۳۰ لاکھ حجاج کرام حج کی ادائیگی کرتے ہیں اور
ماہ رمضان میں عمرہ کرنے والوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
سعودی حکومت نے کورونا وبائی مرض کی وجہ سے ملک میں نافذ پابندیاں تین ماہ
کے بعد اب ختم کردی ہیں، حتی کہ کھیلوں پر عائد پابندیاں بھی ۲۱ جون سے
اٹھالی ہیں۔ اگرچہ ابھی تک مسجد الحرام (مکہ مکرمہ) عام لوگوں کے لئے نہیں
کھولی گئی ہے۔
مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کے وسط میں واقع خانۂ کعبہ (بیت اﷲ) وہ پہلا گھر
ہے جو اﷲ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے زمین پر بنایا۔ ’’اِنَّ اَوَّلَ
بَےْتَ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبِکَّۃَ مُبَارَکاً وُہُدیً
لِلْعَالَمِےْن‘‘ (سورۃ آل عمران، آیت ۹۶)۔ اور قیامت تک یہی مسلمانوں کا
قبلہ ہے۔اس کی سب سے پہلی تعمیر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے قبل
فرشتوں نے کی تھی۔ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت شیث علیہ السلام کی تعمیر
کا ذکر بھی بعض کتابوں میں ملتا ہے۔ آج سے تقریباً چار ہزار سال قبل حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل
کر کعبہ کی از سر نو تعمیر کی تھی۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما
السلام کی بیت اﷲ کی تعمیر کو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی، چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے
بھی قرآن کریم میں اس واقعہ کو ذکر کیا ہے: وَاِذْ ےَرْفَعُ اِبْرَاہِےْمُ
الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَےْتِ وَاِسْمَاعِےْلُ، رَبَّنَا تَقَبَّل مِنَّا،
اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِےْعُ الْعَلِےْمُ (سورۃ البقرۃ ۱۲۷) اس وقت کا تصور
کرو جب ابراہیم بیت اﷲ کی بنیادیں اٹھارہے تھے اور اسماعیل بھی (ان کے ساتھ
شریک تھے اور دونوں یہ کہتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار! ہم سے (یہ
خدمت) قبول فرمالے۔ بیشک تو، اور صرف تو ہی، ہر ایک کی سننے والا، ہر ایک
کو جاننے والا ہے۔ اس پاک گھر کی عظمت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے
کہ اﷲ تعالیٰ نے کعبہ کو جو بڑی حرمت والا گھر ہے لوگوں کے لئے قیام امن کا
ذریعہ بنا دیا ہے، یعنی جب تک کعبہ شریف رہے گا قیامت نہیں آئے گی، قیامت
کے آنے سے قبل بیت اﷲ کو اٹھالیا جائے گا جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: ’’جَعَلَ
اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَےْتَ الْحَرَامَ قِےَاماً لِلنَّاسِ‘‘ (سورۃ
المائدہ، آیت ۹۷)۔
آج سے تقریباً چار ہزار سال قبل بیت اﷲ کی تعمیر کے بعد اﷲ تعالیٰ نے حضرت
ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کردو۔ چنانچہ اﷲ
تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اعلان نہ صرف اس وقت کے زندہ لوگوں
تک پہونچا دیا بلکہ عالم ارواح میں تمام روحوں نے بھی یہ آواز سنی، جس شخص
کی قسمت میں بیت اﷲ کی زیارت لکھی تھی اس نے اس اعلان کے جواب میں لبیک کہا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے برابر حج کی ادائیگی ہوتی رہی ہے حتی
کہ زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ حج کرتے رہے۔ حضرت محمد ﷺ نے مکہ مکرمہ کی
زندگی میں حج کے موقع کو غنیمت سمجھ کر باہر سے آنے والے وفود کو دین اسلام
کی دعوت دی، چنانچہ آپ ﷺ کی ایام ِحج میں وفود سے ملاقات کے ذریعہ مدینہ
منورہ کی سر زمین اسلام کے لئے ہموار ہوگئی اور آپ ﷺصحابۂ کرام کے ساتھ
مدینہ منورہ ہجرت فرماگئے۔ ۸ ہجری میں جب مکہ فتح ہوا تو بیت اﷲ کو تمام
بتوں سے پاک وصاف کیا گیا۔ ۹ ہجری میں حج فرض ہوا، آپﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق
ؓکو امیر الحجاج بناکر بھیجا اور فریضہ حج‘ اسلامی شریعت کے مطابق ادا کیا
گیا۔ ۱۰ ہجری میں رسول اکرم ﷺ نے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کے
ساتھ حیات طیبہ کا پہلا اور آخری حج ‘ حجۃ الوداع ادا فرمایا۔ اس کے بعد سے
ہر سال نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق فریضہ حج ادا کیا جاتا ہے۔ عازمین
حج کی تعداد بعض مرتبہ تیس لاکھ تک پہنچی ہے۔ بیت اﷲ شریف جو بے حد واجب
التعظیم عبادت گاہ اور متبرک گھر ہے، اسے ظاہری زیب وزینت کی غرض سے غلاف
پہنایا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ کو غلاف پہنانے کا سلسلہ بھی حضرت اسماعیل علیہ
السلام سے برابر جاری ہے۔
جس طرح دنیا میں بیت اﷲ (خانۂ کعبہ) کا طواف کیا جاتا ہے، اسی طرح آسمانوں
پر اﷲ کا گھر ہے جس کو بیت المعمور کہا جاتا ہے، اُس کا فرشتے ہر وقت طواف
کرتے ہیں۔ اس گھر کے متعلق اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اور
قسم ہے بیت معمور کی۔ (سورۃ طور آیت ۴) جب حضور اکرم ﷺ کو معراج واسراء کی
رات میں بیت المعمور لے جایا گیا تو حضور اکرم ﷺ نے حضرت جبرائیل علیہ
السلام سے پوچھا یہ کیا ہے؟ حضرت جبرائیل نے کہا کہ یہ بیت معمور ہے،
روزانہ ستر ہزار فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں ، پھر اُن کی باری دوبارہ قیامت
تک نہیں آتی۔ حدیث کی مشہور کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے۔ طبری کی روایت سے
معلوم ہوتا ہے کہ بیت المعمور بیت اﷲ (خانۂ کعبہ) کے بالکل اوپر آسمان پر
ہے۔
اشہر حج یعنی حج کے ایام شروع ہوگئے ہیں، شوال کا پورا مہینہ مکمل ہوکر ذو
القعدہ شروع ہوگیا ہے، مگر امسال دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں عازمین حج‘
حج کا ترانہ یعنی لبیک پڑھتے ہوئے مکہ مکرمہ نہیں پہنچ پائیں گے۔ لاکھوں
حجاج کرام اسلام کے پانچویں اہم رکن کی ادائیگی کے لئے دنیاوی ظاہری زیب
وزینت کو چھوڑکر اﷲ جل شانہ کے ساتھ والہانہ محبت میں مشاعر مقدسہ (منی،
عرفات اور مزدلفہ) پہنچتے تھے اور وہاں حضور اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ پر
حج کی ادائیگی کرکے اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل
علیہ السلام کی عظیم قربانیوں کے ساتھ جوڑتے تھے۔ حج کو اسی لئے عاشقانہ
عبادت کہتے ہیں کیونکہ حاجی کے ہر عمل سے وارفتگی اور دیوانگی ٹپکتی ہے۔ حج
اس لحاظ سے بڑی نمایاں عبادت ہے کہ یہ بیک وقت روحانی، مالی اور بدنی تینوں
پہلوؤں پر مشتمل ہے، یہ خصوصیت کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں ہے۔ قرآن
وحدیث میں اسلام کے اس پانچویں رکن ’’حج‘‘ کی خاص اہمیت بیان کی گئی ہے۔
چنانچہ ایک موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے محض اﷲ کی خوشنودی کے
لئے حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہیں کیا تو وہ (پاک
ہوکر) ایسا لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز (پاک تھا)۔
(بخاری ومسلم)
دنیا کے وجود سے لے کر اب تک اس پاک گھر کا طواف، عمرہ اور حج ادا کیا جاتا
ہے اور ان شاء اﷲ قیامت سے قبل بیت اﷲ کے آسمانوں پر اٹھائے جانے تک یہ
سلسلہ جاری رہے گا، یقینا بعض حالات میں حج کی ادائیگی موقوف بھی رہی ہے۔
مگر صحیح بخاری ودیگر کتب حدیث میں مذکور رسول اﷲ ﷺ کے ارشاد: ’’قیامت اُس
وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بیت اﷲ کا حج بند نہ ہوجائے۔ ‘‘ سے یہ بات
روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ حج کا نہ ہونا یا حج کا موقوف کرنا یا عازمین
حج کو روکنا کسی بھی حال میں اچھی علامت نہیں ہے خواہ اس کے کچھ بھی اسباب
ہوں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے، آمین۔ |