امید ٹوٹنے نہیں دیتے

دنیا میں ترقی کا سفر تیزی سے جاری ہے مگر ہم دن بدن پستی کی طرف جا رہے ہیں کیوں ؟ کیونکہ ہم اس کیوں کا کھوج نہیں لگاتے بلکہ یہاں ہر شخص اپنی اپنی وابستگیوں کی نسبت سے الگ الگ دلیل گھڑے ہوئے ہے کبھی کسی نے خرابی کی اصل جڑ تک پہنچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی ہم تو درخت کو دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کتنا خوبصورت ہے کیسے کیسے پھل اور پھول دیکھنے کو ملتے ہیں مگر ہم نے کبھی اسکی جڑ نہیں دیکھی کہ وہ زمین میں کتنی لمبی ہے کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں جتنی کسی درخت کی جڑلمبی ،گہری اور پھیلی ہوئی ہوں گی اتنا ہی وہ درخت مضبوط ہوگا اور جس درخت یا پودے کی جڑ چھوٹی اور مختصر ہوگی وہ اتنا ہی کمزور ہوگا تیز ہوا کے جھونکے میں بھی جڑ سے اکھڑ جاتا ہے مگر جن درختوں کی جڑیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہوں وہ تیز آندھیوں اور طوفانوں میں بھی چٹان کی طرح کھڑے رہتے ہیں اسی طرح ہمارے معاشرے میں جتنی برائیاں ہیں انکی جڑیں بہت لمبی ہو کر پھیل گئی ہیں اور مضبوط اتنی ہوچکی ہیں اس پر کھڑاجھوٹ ،کرپشن ،چور بازاری اور لوٹ مار کا درخت بھی کسی طوفان کو خاطر میں نہیں لاتا ہماری پولیس اتنی گندی اور مکروہ ہوچکی ہے کہ اس ادارہ میں کام کرنے والوں کی اکثریت ضمیر نام کے کسی لفظ سے آشنا ہی نہیں ظلم و بربریت کی درد ناک مثالیں اگر دینا پڑ جائیں تو اس محکمہ سے زیادہ مناسب اور کوئی نہیں بھیڑ بکریوں کی طرح انسانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم آج سے شروع نہیں ہوئے پاکستان میں 40سے زائد وزیروں کے نیچے درجنوں ادارے کام کررہے ہیں اور جس ادارے کی کارکردگی پرکھنی ہو تو بس یہ سمجھ لیں کہ وہ پولیس سے بھی دو ہاتھ آگے دکھائی دیگا ہمارے صحت کے ادارے کو دیکھ لیں وہاں پر کیا کیا نہیں ہورہا غریب انسان سر درد کی دوائی لینے جائے تو کئی اور بیماریاں اپنے ساتھ لیکر واپس آتا ہے وہاں پر بھی اجارہ داریاں ہیں پروٹوکول ہے دونمبریاں ہیں آپ پاکستان نرسنگ کونسل کو ہی دیکھ لیں جہاں پر کسی کی نظر ہی نہیں جاتی یہاں پر بھی کرپٹ مافیا نے کرپشن کی عجب کہانیاں رقم کررکھی ہیں تعلیم کے نام پر جعلی نرسنگ سکولوں کی بھر مار ہے کراچی میں آئے روز محکمہ صحت کے جعلی اداروں کی نشاندہی ہورہی ہے میرٹ صرف نام کی حد تک رہ گیا ہے سفارشی اور راشی ٹولہ اوپر آچکا ہے محنتی اور ایماندار افراد خاموشی سے اپنا وقت گذار رہے ہیں پشاور کے ایک ہسپتال کی نرس کے ایک واقعہ سے آپ ملک کے باقی اداروں کا حال بھی بخوبی جان جائیں گے جو کچھ یوں ہے کہ وہ نرس جو 2002میں نرسنگ کونسل میں ڈیپوٹیشن پر آئی تھی اور پھر خود اپنی ترقیوں اور تعیناتیوں کی مال بن کر آخر کار نرسنگ کونسل پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا اور پھر کلرک آصف کے ساتھ ملکر کرپشن کی تاریخی کہانیاں لکھ ڈالی اور یہ سب کچھ شہر اقتدار میں ہورہا ہے جہاں پر سب کی نظریں ہوتی ہیں جوں جوں آپ اسلام آباد ،لاہور ،کراچی ،پشاور اور کوئٹہ سے دور ہوتے چلے جائیں گے ویسے ہی وہاں پر مظالم اور لوٹ مار کی انتہا ختم ہونے کا نام نہیں لے گی جاگیرداروں ،سرمایہ داروں اور ہمارے سیاستدانوں نے اپنی اپنی مرضی کے قانون بنا رکھے ہیں غریب کو مزید غریب بنانے اور جہالت کلچر کو پرموٹ کرنے میں انکا کوئی چانی نہیں خود تو لوٹ مارکرکے اربوں پتی بن گئے اور غریب آج بھی روٹی ،کپڑا اور مکان کو ترس رہا ہے حیرت ناک بات یہ ہے کہ غریب کی غربت ،جاہل کی جہالت اور ملک کی قسمت بدلنے والے الیکشن جیتنے کے بعد ان الفاظ سے ہی نآشنا بن جاتے ہیں اپنے ووٹروں کو مل کر انہی پر احسان کررہے ہوتے ہیں اور ہم بھی انہی کو ووٹ دیتے ہیں جو بڑی بڑی گاڑیوں میں گن مینوں کے ساتھ گھومتے ہیں اپنے جیسے غریب انسان کو ووٹ دینا ہم توہین سمجھتے ہیں ہم نے اپنا بیڑہ خود غرق کررکھا ہے ایک پلیٹ بریانی یا چند سو روپے کے عوض ہم نہ صرف اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کامستقبل اور ملک کی ترقی بھی ہم ان مفاد پرستوں کے ہاتھوں گروری رکھ دیتے ہیں ہمارے وہ سیاستدان جنہوں نے اپنے بچوں کو تو بیرون ملک سے پڑھا لیا اور اپنے ووٹروں کے لیے پرائمری سکول تک نہ بنوا سکے یہی سیاستدان حکمران بننے کے بعد اپنا علاج سرکاری خرچ پر باہر سے کروانے لگے جبکہ انکے حلقہ کا ووٹر دکھ ،درد اور تکلیف سے اپنی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے لگا حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ایک غریب خاندان کا فرد عوام کو سنہری خواب دکھا کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوتا ہے تو پھر وہ بھی اسی کلاس میں داخل ہوجاتا ہے جن کی وجہ سے آج ہماری آبادی کا تقریبا 75فیصد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گذار رہا ہے اور اس وقت شرع افراط زر کے حساب سے دنیا کے پہلے سو ممالک میں ہمارا نام تک نہیں ہم دن بدن اپنی جہالت کی وجہ سے مزید ابتری کی طرف جارہے ہیں اور ہمارے ادارے اس میں بہت بڑا حصہ ڈال کر ہمیں تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں ان اداروں کو تباہ و برباد کرنے میں ہماری آج کی حکومت کا اگرکوئی کردار نہیں ہے تو اسے سدھارنے میں بھی کوئی حصہ نہیں ہے کیونکہ ہمارے آج کے سبھی سیاستدان پرانی پنیری سے ہی تیار ہورہے ہیں جن کے ذہنوں میں تبدیلی صرف ایک لفظ کا نام ہے جو انہوں نے اپنے اور اپنے خاندان کے اندر لانی ہے دنیا کی ترقی سے اپنے آپ کو ہم آنگ رکھنا ہے ہماری جہالت اور غربت اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ ہم اب کسی کی بات سننے کو تیار نہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں مختلف اداروں میں بیٹھے ہوئے سرکاری افسران کا رعب برداشت کرتے ہیں انکی نوکری کرتے ہیں اور پھر بھی ماننے کو تیار نہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے ان حکمرانوں کا ہی کیا دھرا ہے جنہوں نے ان اداروں میں اپنے ملازموں کو بھرتی کیا اور پھر ان نوکروں سے اپنی مرضی کے کام لیے کسی کو جوتے مروائے تو کسی کو جان سے مروادیا اس تما م ناامیدی میں جب یو کے میں بیٹھے ہوئے گلوبل پیس کے سربراہ جناب انجم ضیاء سے گپ شپ ہوتی ہے تو کچھ پریشانیاں کم ہوجاتی ہیں کیونکہ مجھے امید ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں اور کربھی رہے ہیں اگر آپ بھی ان سے پاکستان کی صورتحال پر گفتگو کرنا چاہیں تو انکا نمبر یہ ہے +44 7388 238005 بہت ہی خوبصورت اور محب وطن پاکستانی ہیں چاہتے ہیں کہ اگلے منٹ میں ہی پاکستان یورپ بن جائے پورا نظام بدل جائے ایک امید ہے جو وہ ٹوٹنے نہیں دیتے ۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612095 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.