سویرا:ٹنزیلہ ٹنزیلہ۔۔۔۔
تنزیلہ:کمرے سے نکلی ہاں بولو صبح صبح ہی سکول کی گھنٹی کی طرح بجنے لگتی
ہے۔
ٹنزیلہ میں ہاسپٹل جا ڑہی ہوں ٹم گھڑ کا ڈڑوازہ بنڈ کڑ لو۔ ابا نے کہا ٹھا
ڑاٹ وہ نہیں آئیں گے۔
تنزیلہ:پہلے کونسا وہ روز آتے ہیں۔ بالوں کو کھجاتے ہوئے مشکل سے آنکھیں
کھولیں اور پھر لپک کر اس سے لپٹ گئی۔ وہ قاسم۔۔۔اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے
آنکھ ماری نمبر کہاں ہے اسکا؟
سویرا"ہونٹ دباتے ہوئے مسکرائی" میڑے پاس پرس کی زیپ کھول کر" اس میں"
ٹنزیلہ"آگے بڑھ کر پرس کو چما پھر دونوں بازو پھیلا کر گھومی دونوں ہاتھ
تھوڑی کے نیچے رکھ کر مسکرانے لگی۔
سویرا"ٹنزیلہ اب ٹمہین کیا ہوا ہے۔
تنزیلہ"ارے تم وہ سب نہیں سمجھو گی میری بھولی بھالی بہن۔
سویرا مسکرانے لگی" پٹہ نہیں کیا سوچٹی ڑہٹی ہو "
تنزیلہ"جب ایک کھلاڑی آوٹ ہوتا ہے تو اگلے کی باری آتی ہے۔
سویرا"کھلاڑی کا قاسم کے نمبر سے کیا لینا ڈینا۔
تنزیلہ" سر پکڑتے ہوئے جاو پرائیویٹ ڈسپینسری کی سستی نرس۔
سویرا"ہر وقٹ کچھ نہ کچھ چلٹا ڑہٹا اسکے بھیجے میں "
----
رضیہ: رپورٹ لے کر تسکین کے آفس میں گئی۔
تسکین:بڑے ادب سے "رجی رپورٹ بن گئی؟
رضیہ"جی سر تسکین"
تسکین ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے لاو مجھے دیکھاو۔ اس نے پیلے رنگ کی فائل تسکین
کی طرف بڑھائی۔
تسکین"کتنی محنت کی اس پر۔۔۔۔۔اسکی نظروں میں حقارت اور لہجے میں طنز تھا۔
رضیہ نے اس کے راویے کو نظر انداز کرتے ہوئے۔ سر تسکین یقین کرئیں اس بار
بھی بہت محنت کی ہے بس اگر آپ وقار کو نہ دے دیں تو۔
تسکین نے زور سے فائل میز پر دے ماری"مس رجی تم اس قابل نہیں ہو کے اس
ادارے میں کام کرو۔
رضیہ"حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے"سر تسکین۔۔۔کیا ہوا؟
تسکین"وقار کی رپورٹ چوری کرتی ہو۔۔۔۔تمہیں شرم آنی چاہیے۔ صحافتی اقدار کی
قاتل ہو تم۔ ابھی کے ابھی تم نکل جاو میرے آفس سے۔
رضیہ"سر آپکو غلط بتایا گیا ہے حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے۔ وقار میری
رپورٹس کو عابد کے ہاتھوں چوری کرواتا ہے۔
تسکین"سیکیورٹی سیکیورٹی جب تسکین دوبارہ چیخا تو رضیہ فائل اٹھا کر نکلتی
بنی۔ جب وہ تسکین کے آفس سے نکلی اسکی گالوں پر آنسو بہہ رہے تھے جو اسنے
ہاتھ کی ہتھیلی سے صاف کر لیے۔
----
زمرد ہسپتال پہنچا۔۔۔
کافی دیر ڈاکٹر سے بات کرنے کے بعد اسی لڑکی کے کمرے میں آیا۔ اسلام علیکم!
پھول اسے دے کر اب کیسی ہو؟
لڑکی:ٹھیک ہوں۔
زمرد"کیا تم مجھے اپنا نام نہیں بتاو گی۔
لڑکی "گڑیا"
زمرد"اٹھکر کھڑا ہوگیا "گڑیا کیا کہا تم نے؟
لڑکی "گڑیا"
زمرد گہری سوچوں میں ڈوب گیا۔۔۔اسے اپنا بچپن یاد آنے لگا۔
سرخاب سرخاب چھوڑو اسے۔۔۔۔۔
سرخاب نے گڑیا کے بال نوچ رکھے تھے۔
زمرد:ابو ابو۔۔۔۔۔۔سرخاب کو جب تسلی ہوگئی صدیق آرہا ہے تو اسے چھوڑ دیا۔
زمرد نے گڑیا کو گلے لگایا میں اپنی بہن کو اپنے ساتھ لے جاوں گا۔ صدیق تین
آئس کریم پکڑے آرہا تھا۔گاڑی میں بیٹھے بچوں کو ایک ایک پکڑا کر گاڑی میں
بیٹھ گیا جب گاڑی چلائی تو اپنے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی سرخاب کی طرف
دیکھتے ہوئی آج میری گڑیا بات کیوں نہیں کر رہی؟؟ ۔سرخاب خاموشی سے بیٹھی
رہی۔ جب صدیق گاڑی کی طرف دھیان لے گیا تو جان بوجھ کر آئس کریم یونیفارم
پر گرا لی۔ "پھوپھا پھوپھا چیخ چیخ کر رونے لگی" صدیق گاڑی روک کر میں اور
لا دیتا ہوں۔سرخاب" نہیں پھوپھا"اسکے ساتھ لپٹ گئی" منٹ ڈبل روٹی کی طرح
پھلا رکھا تھا۔ گڑیا "نہیں انکل مجھے نہیں کھانی میں یہ سرخاب کو دے دیتی
ہوں۔ اس نے اپنی آئس کریم آگے بڑھائی سرخاب پہلے تو اسے گھوری پھر صدیق کو
دیکھتے ہوئے مسکرا کر پکڑ لی"تھینک یو"
صدیق نے خوش ہو کر گاڑی چلا لی۔ سرخاب نے شیشہ کھولا اور آئس کریم گڑیا کو
دکھا کر باہر پھینک دی۔ زمرد کو سرخاب پر بہت غصہ آیا اس نے اپنی آدھ کھائی
آئس کریم اسکے بالوں پر لگا دی۔ سرخاب رونے لگی۔ صدیق کو پتہ چلا تو اس نے
زمرد کو بہت ڈانٹا۔ زمرد کو ڈانٹ پڑتی دیکھ کر گڑیا رونے لگی۔ زمرد نے اسکے
آنسو صاف کیے اور گلے لگا کر اسکے گھنگریالے بالوں پر ہاتھ پھیرنےلگا۔ چپ
کرو گڑیا بھائی گڑیا کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا"
لڑکی آگے بڑھ کر کیا سوچ رہے ہو؟ زمرد "گڑیا"
گڑیا "کیا کہا؟
زمرد"دیکھو گڑیا اب تم ٹھیک ہوگئی ہو مجھے اپنے گھر والوں کے بارے کچھ
بتاو۔
گڑیا" غمگین ہو کر بیٹھ گئی۔ کوئی نہیں ہے میرا اللہ کے سوا۔۔۔!
زمرد" دیکھو اگر تم اپنے گھر پہنچنے میں ہماری مدد نہیں کرو گی تو مجبورا
ہم تمہیں پولیس کو رپورٹ کر دیں گے۔
گڑیا" ہمارا چھوٹا سا گھر تھا۔ ہم بہت خوش تھے۔ بابا،ماں اور میں اور میرا
بھائی۔ زندگی سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی تھی۔ غم کیا ہوتے ہیں کچھ پتہ
نہیں تھا۔ پھر زوروں کا طوفان آیا سب کچھ بکھر گیا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے
چہرے کو ملنے لگی۔
زمرد نے آگے بڑھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ پلیز چپ کرو!
گڑیا اسے لپٹ کر رونے لگی ۔اتنے میں ڈاکٹر اندر آیا۔ انہیں دیکھ کر حیران
ہوا۔گلا کھنکارتے ہوئے۔علی آپ باہر کاونٹر پر بقایاجات پے کر دیجئے گا۔
زمرد نے اسے دیکھتے ہوئے "اوکے ڈاکٹر"
گڑیا اسکا نام سن کر ششدر رہ گئی۔ جلدی سے پیچھے ہٹی اور اپنے سر سے اسکا
ہاتھ پیچھے دھکیل دیا۔
زمرد اٹھ کر چلا گیا۔۔۔۔ڈاکٹر کچھ دیر گڑیا کو گھورتا رہا پھر کچھ کہے بنا
باہر نکل گیا۔
گڑیا علی۔۔۔۔۔نہیں مگر وہ بریسلٹ تو وہی لگ رہی تھی____سوچوں میں ڈوب گئی
زمرد بھئیا بھئیا_____
زمرد فٹ بال کے ساتھ لان میں کھیل رہا تھا۔ گڑیا کی آواز سنی تو چاروں طرف
اسے ڈھونڈنے لگا۔ پھر ایک چھوٹے سرو کے پودے کے پیچھے سفید جوتے نظر آئے۔
آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہاں پہنچ کر "پکڑی گئی" گڑیا "جائیں میں نہیں
بولتی" زمرد"کیوں کیوں؟ گڑیا"جہاں بھی چھپ جاؤں آپ ڈھونڈ لتے۔ زمرد " او
ہو____اچھا بتاو میلہ کیسا رہا؟ گڑیا"کلی کی طرح کھلتے ہوئے آپ کے لیے سر
پرائز ہے۔ منھ بسورتے ہوئے مگر آپ پرامس کے باوجود گئے نہیں میرے ساتھ"
زمرد نیچے بیٹھ کر فٹ بال ایک سائیڈ کو پھینک دی۔ "وہ جو چڑیل ہے نا وہ ابو
سے بہت ڈانٹ پڑواتی ہے۔
گڑیا"بھئیا اگر سرخاب نے سن لیا تو آپکو کنجا کردے گی"
زمرد ہنستے ہوئے"نہیں ابو کے ساتھ بازار گئی ہے"
قادر گھر سے نکلا اور گاڑی کی طرف جاتے ہوئے:گڑیا چلو میں تجھے گھر چھوڑ
دوں"
گڑیا"بھئیا اب میں چلتی ہوں"
زمرد"اللہ حافظ گڑیا " گڑیا تھوڑا چلی پھر واپس آکر "آنکھیں بند کریں" زمرد
نے آنکھیں بند کیں تو گڑیا نے اسکا بایاں ہاتھ پکڑا۔ زمرد"ہاتھ پے کاٹنا
مت۔۔چپکے سے آنکھیں کھولیں تو گڑیا اسکی کلائی پر سلور کلر کی بریسلٹ پہنا
رہی تھی" اس سے پہلے گڑیا اسکی طرف دیکھتی اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ گڑیا "
اب دیکھیں " زمرد"یہ کیا؟
روبینہ باہر آئی اور ادھر ادھر دیکھا بولی"قادر بھائی بات سنیں" قادر "جی
باجی "
گڑیا "میری دوست اپنے بھائی کی کلائی پر دھاگا باندھتی ہے۔ کہتی ہے اس سے
اسکی رکھشا ہوگی۔
زمرد"رکھشا؟
گڑیا سر پر ہاتھ مارتے ہوئے "حفاظت"
زمرد"مگر یہ___چھوڑو نماز پڑتی ہو؟ گڑیا "جی ہاں____ اماں نے سیکھائی ہے۔
زمرد"میرے لیے اللہ سے دعا کیا کرو"
گڑیا "سوری بھیئا آپ مجھے واپس کردیں"
زمرد"بریسلٹ کے اوپر بنی اوول شکل والی سلور کلر کی پٹی پر لکھے انگریزی
ایلفا بیٹ جی اور بی دیکھے تو بولا یہ کیا ہے؟
گڑیا" جی سے گڑیا اور بی سے بھئیا یعنی صرف اور صرف گڑیا کے بھئیا"
زمرد"بھائی کبھی بھی اسے اپنی کلائی سے جدا نہیں کرے گا"
گڑیا"زمرد کے ہاتھ پر کس کرتے ہوئے____یہ بہت کھلی ہے"گڑیا کے بھئیا سب سے
اچھے"
زمرد"مس گڑیا "اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے۔
گڑیا حواس بہال ہوتے ہی اسکے بائیں ہاتھ کی کلائی کی طرف دیکھنے لگی۔ جس پر
بڑھے ڈائل والی گھڑی پہنی ہوئی تھی۔
زمرد"کیا سوچا پھر؟
گڑیا "کس معاملے میں؟
زمرد"جانے کا___ کہاں جانا ہے؟
گڑیا نے چھپ سادھ لی۔ زمرد نے فون نکال کر نمبر ڈائل کیا"ہاں ریحان کہاں
ہو؟ گھر پہنچو میں آرہا ہوں۔ ایڈریس ایس ایم ایس کردینا۔ چلو میرے ساتھ وہ
کمرے سے نکل گیا۔
گڑیا کافی دیر سوچتی رہی پھر اپنی چادر کھینچ کر کندھے سے ٹھیک کی اور اسکے
پیچھے پیچھے چل پڑی۔ گاڑی میں بیٹھی زمرد نے کہا "سیٹ بیلٹ باندھ لو" گاڑی
چلا لی۔ تم پریشان نہیں ہو تم وہاں محفوظ رہو گی۔ گڑیا "تمہارا نام علی ہے؟
زمرد نے گاڑی روکی اور اپنا وزٹینگ کارڈ اسکی طرف بڑھا دیا۔
گڑیا نے کارڈ پکڑ لیا___ہاتھ میں مچھوڑنے لگی کچھ دیر پعد نیچے پھینک دیا۔
زمرد اسے نوٹ کر رہا تھا۔ ایک بڑی سی بلڈنگ کی پارکنگ سائٹ پر گاڑی پارک کی
ابھی گاڑی سے اترے ہی تھے کہ کالی جینز اور سفید شرٹ میں ملبوس مناسب وضع
قطع والا لڑکا آگے بڑھا اور زمرد سے مصافحہ کیا۔ زمرد"کیسے ہو ریحان؟
ریحان" مالک کا کرم ہے!
زمرد"اسکی طرف اشارہ کرتے ہوئے" یہ گڑیا ؛اپنی امانت تمہارے سپرد کرتے جا
رہا ہوں"
ریحان پریشان ہوگیا "علی مگر___
زمرد" اگر مگر کچھ نہیں مجھے یہاں صرف تم ہی جانتے ہو تمہیں میری مدد کرنی
ہی ہوگی۔ باقی تفصیل فون پے شیئر کروں گا۔ "گڑیا یہ ریحان تم اسکے ساتھ جاو
مجھے کام ہے شام کو وقت ملا تو آونگا۔
وہ گاڑی میں بیٹھا اور چلا گیا گڑیا اسکی گاڑی کو نظروں سے اوجھل ہونے تک
دیکھی رہی۔
ریحان "گڑیا چلیں آپکو اپارٹمنٹ دیکھاوں" ذہنی مریضہ لگتی پتہ نہیں سرخاب
بھابی کے ہوتے ہوئے بھی، مجھے کیا۔۔! بڑابڑاتے ہوئے پہلے فلور کی سیڑھیوں
کے اوپر پہنچ کر جب پیچھے دیکھا تو گڑیا پہلی سیڑھی پر تھی۔ غصے سے چلایا
گڑیا پانچویں فلور تک جانا ہے اگر گونگے والی رفتار رہی تو رات ادھر ہی ہو
جائے گی۔
گڑیا قدموں میں تھوڑی پھرتی لائی۔ سر ہلاتے ہوئے ریحان نے اسے حکارت سے
دیکھا اور بولا مہربانی آپکی میڈم!
____
تسکین فائل دیکھ رہا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔۔۔۔۔۔فون اٹھا کر کون؟
اٹھ کر کھڑا ہوگیا جناب غلام حاضر ہے۔
معذرت خواہ ہوں۔۔۔۔۔!
کالے رنگ کے فون کو اٹھایا۔۔۔ہاں رجی کو آفس میں بھیجو! ریسپشن سے جواب آیا
سر وہ تو ایک گھنٹہ پہلے چلی گئیں۔ تسکین سر پر ہاتھ رکھ کر "اوکے "
اٹھا اور وقار کو کہتا ہوں جمشید صاحب کا انٹرویو لے کر آئے۔ آفس سے نکلا
تو وقار کے کیبن سے آوازیں آرہیں تھیں ۔ سنبل "وقار تم نے اسے نکالوا ہی
دیا" وقار" مجھے کانٹے پسند نہیں ہیں اسامہ کا آفس اب مجھے ملے گا۔۔۔۔۔ہاہا
کیا بات ہے ہماری" سنبل"تم نے نہیں اسکے اندھے اعتماد نے---تمہیں پتہ ہے
اسے مجھ پر شبہ تک نہیں ہوا" وقار"کیا مطلب؟ سنبل" تمہارے اور عابد کے خلاف
اسکے کان بھرتی رہی اور وہ پاگل لڑکی مجھ پر اندھا اعتماد کر بیٹھی" قہقہہ
لگا کر ہنستے ہوئے میں چلتی ہوں اسے پہلے کوئی دیکھ لے۔ یہ دھماکوں والی
رپورٹ اگر سیدھی ایڈیٹر کے پاس نہ جاتی تو یہ بھی تمہیں دے دینی تھی۔
وقار"تم تو ناگ سے زیادہ خطرناک ہو" سنبل"بچ کے رہنا"
تسکین نے انکی باتیں سن لیں-----اسے یاد آیا کہ رضیہ کو جو کام دیتا تھا
اسکی رپورٹ وقار کے نام سے میرے ٹیبل پر کیسے آتی تھی۔تف ہے تم پر
وقار----وہ واپس گیا اور رضیہ کو کال کرنے لگا مگر اسکا فون بند تھا۔ پاس
پڑے ایک فون کا بٹن دبایا۔ اس نے اپنے سیل فون سے کال کی جمشید سے معذرت
کرتے ہوئے۔ سر اگر کل شام تک کا وقت دے دیں۔ بہت نوازش ۔ دروازے پر نوک
ہوئی۔۔۔۔۔ہاں حمزہ آجاو۔ وہ اندر داخل ہوا" جی سر" تسکین"دو ٹرمینیشن لیٹر
تیار کروادو" حمزہ"اوکے سر مگر کس کے نام؟ تسکین" بعد میں بتاون گا۔
------
رضیہ"بس سے اتری گھڑی پر ٹائم دیکھا 12 بج کر 19 منٹس تھے۔ سورج سر پے تھا
ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سورج کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ خود کلامی کرتے
ہوئے"رجی تیری زندگی میں بھی تو 12 ہی بجے ہیں۔ ایک سفید پوش ضعیف آدمی پاس
سے گزرا" بیٹی زندگی جہد مسلسل کا نام؛ وقت کی کوئی وقعت نہیں رہتی جب
انسان اپنی ناکامیوں سے سیکھنے لگے" یاد رکھو بار بار ایک ہی بل سے ڈسا
جانے والا کبھی کامیاب نہیں ہوتا" رضیہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی مگر اس کی
زبان اسکے لفظوں کا ساتھ نہ دے پائی۔ پلک جھپکتے ہی وہ ضعیف شخص نظروں سے
اوجھل ہوگیا۔ وہ چلتے چلتے ایک سائیکلوں کی دکان پر چلی گئی۔ایک بابا جی جس
کے بال سفید تھے۔ رنگ گندمی منہ اور ہاتھوں پر جھریاں تھی ماتھے سے پسنیہ
ٹپک رہا تھا۔ ٹیوب کو پانی کے ٹب میں ڈبوتا پھر پانی سے اٹھنے والے بلبلوں
پر کان کے اوپر اٹکائی نیلی پینسل سے نشان لگا دیتا۔ رضیہ "سلام انو بابا"
انور"وعلیکم سلام بیٹی" اسکے ہاتھوں کی طرح آواز میں بھی کپکپاہٹ تھی۔
رضیہ "انو بابا میری سائیکل"
انور ٹیوب باہر پھینک کر دوسری اٹھائی " پہلے 1635 روپے لاو"
رضیہ"انو بابا میں نے نئی بائیسائیکل نہیں لینی مجھے اپنی بائیسائیکل چاہے"
انور نے وہاں سے اٹھا کھونٹی پر لٹکتے ہوئے نیلے رنگ کے کپڑے سے اپنے ہاتھ
خشک کیے۔ گلے میں ڈوری سے بندھی چابی سے الماری کھولی۔ حسابی رجسٹر نکالا
کرسی پر بیٹھ گیا۔ رضیہ اسے حیرانی سے دیکھتے ہوئے بڑبڑائی اب البیرونی کے
زمانے کا حساب نکالے گا۔
اسے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے ادھر آو بیٹی" سامنے پیج پر بڑا سا لکھا شیخ
مجیب کا حساب____ رضیہ آگ بگولہ ہوتے ہوئے "افف! انو بابا لگتا آپ کی عمر
کے ساتھ ساتھ یاداشت اور آنکھیں بھی گل ہو گئیں ہیں"
انور نے اسے غصے سے دیکھا پھر چہرے پر طمانیت لاتے ہوئے پیج کے نیچلے حصے
پر انگلی رکھی۔ رجی کا حساب" رضیہ انگلی پھیرتے ہوئے بولی "25دسمبر:پنکچر
کے پانچ روپے بقایا،19 جنوری:پنکچر کے 30 روپے
توبہ توبہ انو بابا 35 روپے تو بن گئے یہ پندرہ سو خود سے بنا لیے" کانوں
کو ہاتھ لگاتے ہوئے پیچھے مڑی تو اپنی سائیکل کو بنا ٹائروں کے دیکھ کر انو
بابا اسکے ساتھ کیا کیا" رونے لگی میری تو ایک یہی سائیکل تھی یہ آپ نے کیا
کر دیا۔ انور نے رجسٹر ٹھپ سے بند کردیا۔ دو ٹائر اٹھا کر باہر پھینک دیے
"یہ انیسویں صدی کے ٹائر اب کسی کام کے نہیں رہے۔ رگڑ بھی نہیں رہی، ایک
نوکیلے اوزار سے ٹائر میں چبا 3 سے 4سینٹی میٹر کا کنکر نکالا ایسے کئی
پتھر دھنس چکے ہیں۔ اسے لیے آئے روز ٹیوب پنکچر ہو جاتی۔ رضیہ" پیسے بھی گم
گئے اب کیا کروں"سر کھجا کر بولی انو بابا کتنا بجٹ بنے گا پھر؟ 500 روپے
کا ایک ٹائر اور 250 روپے کی ٹیوب 100 روپیہ میری مزدوری باقی بقایا کل ملا
کر 1635 روپے بن جائیں گے۔
رضیہ"ٹھیک ہے پھر کردیں ریپئر! اللہ حافظ انو بابا"
انور" اللہ سلامت رکھے بیٹی"
رضیہ ہاسٹل پہنچی کمرے میں جا کر بیگ بیڈ پر رکھ دیا۔کھڑکی کا پردا اٹھا کر
باہر جانکنے لگی مطلع صاف اور آسمان خالی تھا۔ سڑک پر تھوڑی بہت ٹریفک نظر
آرہی تھی۔ دارو کمرے میں داخل ہوئی۔ دروازہ اتنے زور سے بند کیا کہ رضیہ
دہل گئی۔ بولی دارو ڈرا کیوں رہی ہو___کھانا رکھو اور جاو!
دارو خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اسکے ماتھے پر اوپر سے نیچے کو سلوٹیں صاف
نظر آ رہی تھیں۔ رضیہ جب پیچھے مڑی تو دارو کو دیکھ کر ڈر گئی"اب تجھے کیا
ہوا ہے" دارو نے اٹھ کر کان پکڑ لیا۔ تیرے لیے اپنی جوانی ،خوشیاں اور محبت
سب قربان کردیں۔ مگر تونے مجھے غلط ثابت کردیا______پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
رجی تو نے مجھے غلط ثابت کر دیا۔تونے مجھے دھوکا دیا۔ رضیہ اپنا کان چھڑوا
کر اسکے قدموں میں بیٹھ گئی۔ دارو تجھے کس نے کہا رجی نے تجھے دھوکا
دیا_____رجی کی ماں ہے تو____ ماں! دارو نے اسے خود سے دور کردیا رہنے دو۔
اٹھ کر میز کی طرف چلی گئی۔ رضیہ"میری ماں مجھے چھوڑ گئی باپ پاگل
ہوگیا۔۔۔۔مجھ سے صرف اس لئے نفرت کرنے لگا، تو مجھے یہاں لائی مجھے پڑھایا
لکھایا مجھے میرے قدموں پر کھڑا کر دیا۔ دارو تم میری وہ ماں ہو جس نے مجھے
جینا سیکھایا تجھے دھوکا دینے سوچ بھی نہیں سکتی۔
پرس اسکی طرف کرتے ہوئے چلو سوچ نہیں سکتی دے تو دیا۔ رضیہ نے اپنا پرس
پکڑا شکر ہے یہ مل گیا۔ تیز تیز بولتے ہوئے چیزیں ٹٹولنے لگی"شکر ہے فون
بھی ہے اور سارے ڈاکومنٹ بھی اللہ تیرا لاکھ شکر " دارو کی طرف دیکھتے ہوئے
کس نے دیا؟
دارو نے بے رخی کا اظہار کرتے ہوئے "جس کے ساتھ رات گزار کر آئی ہو"
رجی"سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کیا مطلب کس کے ساتھ؟" دارو وہی سہیلی جس کی بہن
کی شادی پر کل رات تم گئی تھی" رضیہ نے منہ موڑ کر ماتھے پر ہاتھ رکھا "کون
آیا۔۔۔۔پرس کیسے واپس کر گئے؟ دارو"انسپکٹر داود آیا تھا گارڈز ست کہہ کر
گیا ہے مس رجی یہ پرس بھول گئیں تھیں ۔میں یہ انہیں واپس کرنے آیا ہوں" وہ
کمرے سے چلی گئی۔ دارو دارو اسکے پیچھے جانے کی کوشش کی مگر دارو نے دروازہ
بند کر دیا۔رضیہ کو خیال آیا اسکا پرس تو گاڑی سے بھاگتے ہوئے زمین پر گر
گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کسی نے تھانے میں دے دیا ہو۔ ابھی جا کر دارو سب بتا
دیتی ہوں۔۔۔۔وہ جلدی سے نکلی اور کچن کی طرف گئی"ہیں کہاں ہے۔۔۔۔یہ دارو
کہان چلی گئی؟ فریج سے نکال کر پانی پیا اور سوچنے لگی " ہاں زرینہ آنٹی کی
طرف لے جاتی ہوں" نہیں اگر دارو کو میری کڈنیپنگ کا پتا چلا تو وہ مجھے جاب
پر نہیں جانے دے گی۔ یکدم پچھے سے اس پر کچھ گرنے لگا جب وہ مڑی تو جوس
اسکے منہ پر گرنے لگا۔ ایک لمحے میں رضیہ جوس سے لتھ پتھ تھی۔ آنکھیں صاف
کیں۔ ثناء کی بغل میں 1 لیٹر والا جوس کا خالی ڈبہ دیکھتے ہی آگ بگولہ
ہوگئی نثاء" رجی سوری" اس نے ہاتھ میں پکڑی فرنچ فرائیز والی پلیٹ واپس
شیلف پر رکھ دی "موٹی تجھے تو میں بتاتی ہوں" اسکی گردن پکڑ لی ثناء نے
اپنے ایک ہاتھ سے اسکے دونوں بازو ایک ہاتھ میں پکڑے، کندھے کے اوپر سے اسے
کلاوے میں لیتے ہوئے "دیکھو چھوٹے بچے بڑوں سے پنگا نہیں لیتے" ٹشو سے اسکے
چہرے کو صاف کرنے لگی۔ رضیہ نے اپنا چہرہ اسکے ہاتھ سے دور ہٹا لیا۔ پوری
قوت سے اپنے ہاتھ چھڑوانے لگی۔ جب نہیں چھڑوا پائی تو زور سے اپنا پاوں
اسکے پاوں پر مارا ثناء کی چیخ نکل گئی مگر اس نے رضیہ کا ہاتھ نہیں
چھوڑا۔رضیہ نے اس کے بازو پر کاٹا تو وہ اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط نہ رکھ
سکی اس نے رضیہ کو چھوڑ کر اپنا بازو پکڑ لیا۔ رضیہ تھوڑا پیچھے ہٹی اسکے
کانوں کو چھوتے چھوٹے چھوٹے گھنگریالے بال پکڑے زور سے کھینچ کر" موٹی کالی
اگر آئندہ مجھ سے پنگا لیا تو اس سے بھی برا ہوگا۔ثناء کی آنکھ سے آنسو
ٹپکا اسنے کچھ کہہ بنا اپنا منہ دوسری طرف کر لیا۔ رضیہ تھوڑی ڈھیلی پڑ گئی
اسنے ثناء کے بال چھوڑ دیئے۔اتنے میں وارڈن آگئی" کیا تماشہ ہے یہ" رضیہ
اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔
____
|