(ابن ریاض )
یوں تو ہر ماہ کی یکم تاریخ سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل یا
استقامت کا اعلان ہوتا ہے۔ لیکن گذشتہ دو ماہ میں جو حکومت کی طرف سے ان
مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا جو اعلان ہوا تھا پٹرول مافیا اس پر شدید غصے
میں تھا۔ کیونکہ انھوں نے جو امپورٹ کیا تھا وہ ریٹ فروخت کے ریٹ سے زیادہ
تھا۔ جس پر ہر انھیں فی لیٹر پانچ سے دس روپے نقصان ہو رہا تھا۔ وہ کیسے یہ
نقصان برداشت کر سکتے تھے۔ انھیں تو جیبیں بھرنے کی لت پڑی ہوئی تھی۔ ہر دن
جب تک چالیس پچاس ہزار روپے نقد منافع کی صورت میں جیب میں نہ جائیں، انھیں
نیند کے لیے لیٹنے کو دل بھی نہیں کرتا تھا۔ لیکن دو ماہ تک ان کے بستر پر
کمر لگانے کا ارمان ارمان ہی رہا۔
انھوں نے ہر ممکن طریقے سے حکومت کو بلیک میل کیا۔ پٹرول کی کمی کرکے،
پٹرول کو من مرضی کے قیمتوں پر فروخت کرنا، پٹرول کو ہائی آکٹین کہہ کر
دگنی قیمت پر فروخت کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ عدالت نے ایف آئی اے کو اختیار
دیا کہ وہ تحقیقات کرے، وہ بھی بے سود رہی۔ اوگرا کے جرمانے بھی بے فائدہ
رہے، جو ابھی تک جمع بھی نہیں کرائے گئے۔ جب حکومت کے اپنے وزیروں اور
پارلیمنٹرین کے پٹرول پمپ ہوں یعنی حکومت ہی ان کی ہو تو پھر عوام پر جتنے
پٹرول کے بم گرائے جائیں، کم ہیں۔
پھر یوں ہوا کہ پٹرول پمپ والوں نے پارلیمنٹرینز کو بھی پٹرول دینے سے
انکار کر دیا۔ کیونکہ یمپوں پر پٹرول موجود ہی نہیں ہوتا تھا تو گاڑی کہاں
سے بھرتے۔ جب پارلیمنٹرینز کی ذاتی گاڑیوں میں بھی پٹرول سونے کے بھاؤ میں
پڑنے لگا تو انھوں نے اپنا اثر ڈالنا شروع کر دیا۔ کچھ پمپ کے مالکان پر
پارلیمینٹرینز کی طرف سے دباؤ، کچھ عام ارکان کی طرف سے دباؤ۔۔ تو دباؤ کام
کر گیا۔ اوپر سے پٹرولیم کمپنیوں نے بھی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا۔
دھمکیا ں تک دے دیں تھیں کہ وہ اپنا کاروبار پاکستان سے ختم کر دیں گی۔
لائسنس ختم کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قواعد و ضوابط کے مطابق بیس
دنوں کا سٹاک رکھنا ضروری ہے۔ ڈپو میں بھی اور پٹرول پمپ میں بھی۔ پمپ میں
پہلا سٹاک ختم نہ ہو کہ اگلا ٹینکر وہاں پہنچ جانا چاہیے۔
جب پٹرول کے نہ ہونے کی وجہ پمپ مالکان سے پوچھی گئی تو ان کے جوابات میں
ایک جواب یہ تھا کہ ان کو کمپنیاں ہی پٹرول مہیا نہیں کر رہی ہیں تو وہ کہا
ں سے عوام کو پٹرول دیں۔ انھوں نے تو ایک نہیں دو دو ٹینکروں کے پیسے تک
بھر دیے ہیں لیکن ان کی کمپنیوں کے بقول سٹوریج ڈپو خشک پڑے ہیں تو وہ کیسے
پٹرول پمپوں تک پہنچائیں۔ پمپ والوں نے کمپنیوں کو دی گئی رقم کی رسیدیں تک
دکھائیں۔ جب سٹوریج ڈپو پر چھاپے مارے گئے تو کئی ڈپوؤں پر پٹرول موجود تھا
اور وافر مقدار میں تھا۔ جب وہاں انچارج سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ
مالکان کی طرف سے اجازت نہیں ہے۔ کوئی بتائے کہ ہم بتائیں کیا۔
پٹرول مافیا پاکستان میں اس قدر طاقتور ہے کہ جب چاہے وہ پاکستان کی معیشت
کے ساتھ کھلواڑ کر سکتا ہے اور کرتا رہتا ہے۔ نئی کمپنیوں کو لائسنس ملتا
ہے تو وہ اس لائسنس کا فائدہ اٹھا کر فرنیس آئل درآمد کرنا شروع کر دیتی
ہیں کہ وہ زیادہ تر بجلی بنانے کے کام آتا ہے اور آئی پی پیز کو اس کی
ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے نئی کمپنیوں کو لائسنس لے کر یہ ایک آسان راستہ ملا
ہوا ہے۔ پرانی پانچ چھ کمپنیاں بشمول پی ایس او، شیل پاکستان، ٹوٹل پارکو،
ٹوٹل پارکو مارکیٹنگ(سابقہ شیوران/کالٹیکس) ، اٹک پٹرولیم میں صرف پی ایس
او حکومتی کمپنی ہے، اس نے کسی حد تک اس بحران میں اپنا کردار ادا کرنے کی
بھرپور کوشش کی ہے۔ جب کہ نئی کمپنیوں میں سے ایک دو نے اپنی اپنی استطاعت
کے مطابق تو نہیں، لیکن پھر بھی جہاں تک ان سے ممکن ہو سکا، پٹرول مہیا کیا۔
پٹرول مافیا ان کمپنیوں، ان کے مالکان پر ہی مشتمل ہے۔ لیکن اس میں پٹرول
پمپ بھی شامل ہیں۔ کیونکہ بدقسمتی سے انھوں نے پٹرول مثال کے طور پرستائیس
اٹھائیس تاریخ کو اسی روپے فی لیٹر خریدا اور اگلے ماہ کی یکم تاریخ سے
قیمتیں پانچ چھ روپے کم ہو گئیں تو ان کو فائدے کی بجائے نقصان ہوا۔ وہ
اپنا نقصان کس طرح برداشت کر سکتے تھے۔ انھوں نے دو طریقے اپنائے۔ ایک تو
عوام کو انکار کر دیا۔ دوسرا اکثر پٹرول پمپوں پر عام پٹرول کو ہائی آکٹین
کہہ کر فروخت کیا جاتا رہا۔ یوں ان کے نقصان کا بھی کسی حدتک ازالہ ہوا اور
عوام کو بھی ملتا رہا۔ لیکن کب تک یہ ہوتا۔ مافیا نے اپنا دباؤ ڈالا اور
ڈالتے گئے۔ اور پھر یوں ہوا کہ تاریخ میں قیمت میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا،
اس نے واقعی میں عوام کی چیخیں نکال دیں۔ ایک دم سے پچیس روپے فی لیٹر کا
اضافہ نہ صرف عوام کے ساتھ ظلم بلکہ عوام سے کیے گئے ایک اور وعدے سے یو
ٹرن لیا گیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ عوام کو ہر چیز سستی ملے گی۔ ہاں ایک
اور وعدے کا بھی یو ٹرن تھا۔ خان صاحب نے اعلان کیا تھا کہ کرپٹ سیاستدانوں
کو رلائیں گے۔ وہ تو نہ روئے لیکن عوام کے آنسو ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے
رہے۔
پٹرول سستا ہونے پر دیگر اشیا سستی نہ ہوئیں۔ الٹا ہر چیز کی قیمت کو پر
لگے اور بیس فیصد سے سو فیصد تک ان کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
آٹا گیارہ سو روپے فی بیس کلو بوری تک پہنچ گیا۔ چینی پچاسی روپے میں مل
رہی ہے۔ دالیں، گھی حتیٰ کہ ہر چیز کی قیمت بڑھی ہی ہے۔ اب یہ تحریر لکھتے
وقت ایک اور بم کی خبر ملی کہ ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا
گیا ہے۔ بے شک وہ اضافہ پانچ روپے فی کلو ہے، اور یہ اضافہ ایک ہفتے میں
دوسری بار ہوا ہے۔ لیکن قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے کے مصداق گھریلو سلینڈر
گیارہ کلو تک کا ہوتا ہے، اس میں پچپن روپے فی سلنڈر کا اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ
میں اس کو لانے لے جانے کا خرچہ بھی تو ہو گا۔ یہ قیمت حکومت کی متعین کردہ
ہے جب کہ دکاندار یا ڈیلر حضرات اس پانچ روپے کو دس سے بیس روپے تک لے کر
جائیں گے اور ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔یوں پٹرول اور ایل پی جی
کی قیمت کے بڑھنے سے دیگر اشیاء کی قیمتوں میں جو اضافہ ہو گا، اس کی روک
تھام کون کرے گا؟
ہر جگہ مافیا کی اجارہ داری ہے۔ عوام کے نصیب میں صرف ذلت و خواری ہے۔
حکومت کو لمبا لیٹنے کی بیماری ہے۔ کوئی بتائے کس کو کیا لاچاری ہے؟
********* |