قابل عمل تجویز دنداں شکن

ڈاکٹر نبیل چودھری
علم اور ادب کے بغیر معاشرے کھوکھلے ہوتے ہیں ۔اور مذہب سے لگاؤ کے بغیر سوسائٹی ناکام سوسائٹی ہوتی ہے۔

اور ہمارے پیارے نبی اکرم حضرت محمد خاتم النبیین ﷺ کا فرمان ہے اگر طاعون آ جائے تو تم اس جگہ کو نہ چھوڑو جس میں وہ وباء آئی ہے اور اگر آپ وہاں نہیں ہو تو نہ جاؤ۔یہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کا فرمان ہے اس کے بعد جب کبھی کوئی بھی مصیبت آئے تو ہماری روایات میں شامل ہے کہ قوم اجتماعی دعا کرتی ہے حکمران جب اﷲ سے مانگیں تو پھر اﷲ کرم بھی کر دیتا ہے ۔پاکستان کے معروف دانشور ضیاء شاہد نے تین بار اپنے کالموں میں اس بات پر زور دیا کہ عمران خان اﷲ سے مانگیں ایک دن اجتماعی دعا کا اہتمام کرائیں ۔صرف کرونا ہی نہیں عمران خان کو اس وقت بہت سی بلاؤں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔جو اچھی چیزیں دین نے ہمیں سکھائی ہیں ان پر عمل کئے بغیر بات نہیں بنے گی۔کیا وجہ ہے کہ عمران خان کی نیت بھی ٹھیک ہے وہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح لٹیرا بھی نہیں ہے اس نے کوئی سرے محل نہیں بنایا اور نہ ہی اس کے کوئی فلیٹس یا جائداد باہر کے ملکوں میں ۔مخالفین جو الزام بھی لگائیں لیکن دنیا جانتی ہے عمران خان پر بے ایمانی کا الزام نہین لگایا جا سکتا۔پھر کیا وجہ ہے کہ کہ پاکستان کے ذہین ترین ایماندار وزیر اعظم کی کشتی ہر وقت بھنور میں رہتی ہے۔سیانے کہتے ہیں جب بلائیں آپ کا پیچھا کریں تو صدقہ دیا کریں ۔کیونکہ خاتم النبیین ﷺ کا فرمان ہے کہ صدقہ بلا کو ٹالتا ہے۔کسی زمانے میں بارش نہیں ہوتی تھی لوگ نماز استسقاء پڑھتے تھے اور ہم نے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا لیکن بزرگوں سے سنا ہے کہ دوران نماز بارش ہو جایا کرتی تھی۔کیا ہمارا ایمان کمزور ہے یا ہم ان چیزوں پر سرے سے ایمان نہیں رکھتے کہ ایک رب ہے جو مشکلات کو ٹال دیتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں ضیاء شاہد کی بات میں وزن ہے۔میں نے خبریں میں ان کے کالم دیکھے ہیں پہلے صفحے پر بھی ان کی تحریری چھپی جس میں مشورہ دیا گیا کہ جناب وزیر اعظم دنیا بھر سے مانگ لیا اب اﷲ سے رجوع کریں ۔ ایک وقت تھا وزیر اعظم سینئر ایڈیٹرز سے ملاقات کیا کرتے تھے ان کی رائے لیا کرتے تھے ۔میں اس طرح کی ملاقات کی بات نہیں کر رہا جو فردوس عاشق اعوان کو لے ڈوبی جس میں بکاؤ لوگوں نے وزیر اعظم کی سر عام توہین کی۔یہ وہ لوگ تھے جو سر شام ٹی وی کی سکرینوں پر بیٹھ کر مجمع لگایا کرتے ہیں خود لاکھوں کی تنخواہ سمیٹتے ہیں کئی تو کروڑ بھی لیتے ہیں اور یہ بات کرتے ہیں مزدور کے فاقوں کی لیکن اس روز ایسا لگا کہ یہ لوگ پیڈ کنٹنٹ پڑھ رہے ہیں ۔اس کی جگہ اگر سینئر ایڈیٹرز ہوتے میری رائے میں ضیاء شاہد عارف نظامی الطاف حسین قریشی اور ان جیسے لوگ تو دل کی گرہیں کھلتی ۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ماضی کی حکومتوں نے میڈیا کا منہ بند کر رکھا تھا ۔میاں نواز شریف تو اس سلسلے میں خاصے معروف تھے کہا جاتا ہے لفافہ سیاست کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی تھی ہمیں تو نوجوان نسل کا نمائیندہ جانئے لیکن سنتے پڑھتے تو ہم ہیں ناں۔میڈیا کی طاقت اب بھی ہے پرنٹ میڈیا کو ناکام سمجھنے والے احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں ۔الیکٹرانک کی اپنی ویلیو لیکن آج بھی پالیسی ساز لوگ پرنٹ میڈیا کو اہمیت دیتے ہیں لوگ ذہن سازی کے لئے کالم پڑھتے ہیں ۔کالم نویسوں کی اپنی ایک طاقت ہے۔اور اس طاقت کا احساس شائد ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو نہیں ہے۔ہم چھوٹے تھے تو ایک بار احمد فراز جدہ آئے ان سے کسی نے پوچھا میرے بچے اردو نہیں پڑھتے کیا کروں ان کا مشورہ تھا ان کے بیڈ کے ساتھ اردو کتاب رکھ دیجئے سچ پوچھیں یہ بات بڑی وزن دار تھی اب تو احمد فراز کے بیٹے شبلی فراز وزیر اطلاعات و نشریات ہیں ان کے دور میں ہونا تو یہ چاہئے کہ پاکستان کے چوٹی کے شعراء ادیب کالم نویس وزیر اعظم ہاؤس میں آتے جاتے نظر آئیں ۔پاکستان کے صدر عارف علوی گرچہ ہماری طرح ڈینٹسٹ ہیں لیکن علم و ادب سے گہراتعلق ہے ۔میں سمجھتا تھا کہ وہ اہل زباں ہیں ان کے ہاں رونقیں لگے گیں لیکن وہاں بھی خاموشی سی خاموشی ہے۔ہم نے بچپن میں پروفیسر عنائت علی خان ڈاکٹر پیر زادہ قاسم احمد فراز انور مسعود شبنم رومانی امجد اسلام امجد عطاء الحق قاسمی ناصر زیدی شہزاد احمد دیکھے ان کے مشاعرے سنے۔جدہ علم و ادب کا گہواراہ تھا ۔ہمارے استاد محترم ڈاکٹر منور ہاشمی جو سعدی ء زمان ہیں ،جناب نسیم سحر مختار علی جو ملتان میں ہیں اور کمال کے خطاط ہیں۔علم اور ادب کے بغیر معاشرے کھوکھلے ہوتے ہیں ۔اور مذہب سے لگاؤ کے بغیر سوسائٹی ناکام سوسائٹی ہوتی ہے۔

جناب وزیر اعظم کے لئے ان گنت مسائل ہیں ان کے اپنے ہی کافی مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں ۔۔پتہ نہیں لوگوں نے انہیں آسان کیوں لے لیا ہے۔میڈیا ہو سیاست دان یا کوئی اور ایک دم منہ پھٹ لوگ ان پر برس پڑتے ہیں ۔ہم کب کہتے ہیں کہ وہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح سختی برتیں یہاں جمہوریت کے دعوے داروں نے سندھ میں اس صحافی کی جان لے لی جس نے بلاول ٹرین مارچ کے خلاف منہ کھولا ۔ادھر کسی کو ڈر ہی نہیں کہ وقت کے حاکم کی بھی کوئی عزت ہے۔بہر حال یہ انداز حکمرانی ان کا اپنا ہے ۔جناب وزیر اعظم نرم دلی ضرور کیجئے لیکن حد سے زیادہ نرم دلی حکمرانوں کو راس نہیں آتی ۔جھوٹ کذب کی اسلام میں سخت سزائیں ہیں جو جھوٹ بولے اس کو سزا ملنی چاہئے یہ کہاں کی حکمرانی ہے کہ ایک چینل ایک بہتان جڑ دیتا ہے اور دوسرے روز معافی مانگ کر چپ کر جاتا ہے۔پیمرا کس لئے ہے دے نہ کوئی جھوٹی خبر باہر کے ملکوں میں لوگ اربوں روپے ہرجانہ وصول کرتے ہیں ۔یہاں جھوٹ مکر اور فریب سے حکومتیں کرنے والے لندن میں جا کر مزے کرتے ہیں کراچی الیکٹرک کے بارے میں دنیا کے بڑے اخبار نے نواز شریف پر الزام لگایا ہے ۔پی ٹی آئی نے کبھی اس پر منہ نہیں کھولا ایک حلیم عادل شیخ بولتے ہیں ۔کسی کو معلوم تک نہیں کہ ابراج گروپ در اصل انڈین ہندووں کا ہے انہوں نے آپ کی کے الیکٹرک کو دبئی کے ابراج گروپ کے نام سے خرید رکھا ہے۔اس ملک کی شوگر ملوں میں را کے ایجینٹ بغیر ویزہ کے آتے ہیں بھارت کا بڑا بزنس ٹائیکون بغیر ویزے کے مری آیا یہاں وہ شادی بیاہ کی رسموں میں شریک ہوتے رہے لیکن جھوٹ کی اس دنیا نے ان لوگوں کے گناہ کو چھپا کے رکھ دیا ہے۔

سوچئے جناب وزیر اعظم ہم تو لڑیں گے اور آخری خون کے قطرے تک لڑیں گے اپنے قلم سے گفتار سے کردار سے لیکن کیا آپ نے بھی کبھی سوچا ہے کہ جس وقت مشکل تھی کوئی بندہ ساتھ نہ تھا تو وہ جو ساتھ تھے ان کا کیا حال ہے۔احسن رشید سلومی بخاری بھلے وقتوں میں اس دنیا سے چلے گئے۔آپ کے پاس ذہین و فطین لوگوں کی کوئی کمی نہین ادھار کے طبلچیوں سے سر اور لئے نہیں بندھ سکتی۔جب تک آپ کی اپنی ٹیم نہیں ہو گی آپ کو یہ مکر و ریا کے بیو پاری کبھی پاؤں نے نہیں رکھنے دیں گے اور اقتتدار کا فرش آپ کے لئے پھسلن ہو گا ۔آپ نے کتنے ٹیسٹ کر لئے افسوس تو یہ ہے کہ ایک بولتا ہے تو اس پر شور مچ جاتا ہے لگتا ایسا ہے کہ بولنے سے پہلے تولنے کا کوئی نظام نہیں ہے ۔آپ جمہوریت پسند ہیں لیکن لوگوں کا کہنا ہے آپ کچھ زیادہ ہی جمہوریٹ پسند ہیں ۔جو اپنی ٹیم کو کنٹرول میں نہیں رکھتے۔

ہم نے تو جان لڑا دینی ہے اس لئے کہ ہمیں علم ہے کہ آپ صاف ہیں آپ نے اس ملک کے وسائل کو اور وں کی طرح نہیں لوٹنا ۔ہمیں یہ بھی علم ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت گئی ہمیں آپ کے فیصلوں سے پتہ چلتا ہے آپ نے ۲۰۱۸ کے الیکشن میں جانے سے پہلے کے پی کے سے ۲۰ ممکنہ کرپٹ باہر کئے اور کے پی کے کا میدان مار لیا آپ اب بھی چادر جھاڑ کر اٹھ کھڑے ہوں گے اور کہیں گے لو سنبھال لو حکومت ہم چلتے ہیں آج بھی ٹویٹر کے سروے دیکھ لیں اسی فی صد سے زیادہ لوگ آپ کے ساتھ ہیں اکاؤنٹ کسی کا فیک ہو مگر ووٹ تو اصلی ہیں لوگ اب بھی آپ کو واحد بہترین لیڈر سمجھتے ہیں۔کیا خوب کہا جا رہا ہے کہ جناب عمران خان آپ پہلے ہمیں کہا کرتے تھے کہ گھبرانا نہیں لوگ اب کہہ رہے ہیں جناب وزیر اعظم گھبرانا نہیں ۔آٹا مافیا چینی مافیا اور اب پٹرول مافیا جو کچھ مرضی ہو جائے پاکستانی قوم اس بات پر قائم ہے کہ ہمارا عمران خان صاف نیت آدمی ہے قائد اعظم کے بعد اگر کسی کو بڑا قائد ملا ہے تو وہ عمران خان ہے

سنا ہے ایک اے پی سی ہو رہی ہے کتنے ہوں گے دس بیس چالیس سب اکٹھے ہو جائیں عمران خان کے گلے میں گھنٹی نہیں باندھی نہیں جا سکے گی۔میں لکھ کے دیتا ہوں اور ظاہر ہے میں لکھ رہا ہوں یہ کالم ہے کوئی دیوار نہیں کہ عمران خان کو آج کوئی گرا بھی لے وہ صدارتی انتحاب میں جیت کر آئے گا ۔اسے بڑے چیلینجز کا سامنا ہے اس کے لئے بیوروکریسی بھی جال بن رہی ہے لیکن میرا اﷲ اس کے ساتھ ہے ٹیکنالوجسٹوں کے بارے میں پتہ چلا ہے ایک اور انجینئر ان کے اوپر مسلط کر دیا گیا ہے کوئی امتیاز گیلانی نام کے شخص ہیں جن کے خلاف پاکستان کا یہ مظلوم طبقہ پہلے احتجاج کر چکا ہے۔شفقت محمود صاحب ان کی سنیں تو بات بنے گی ۔رجوع الی اﷲ لازم ہے میں ضیاء شاہد سے ضرور کہوں گا کہ آپ اسی طرح سمجھاتے رہئے انشاء وزیر اعظم
آپ کی سنیں گے
 

Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry
About the Author: Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry Read More Articles by Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry: 417 Articles with 282893 views I am almost 60 years of old but enrgetic Pakistani who wish to see Pakistan on top Naya Pakistan is my dream for that i am struggling for years with I.. View More