پاکستان میں حکومتی سرپرستی میں مندر تعمیر کرنا.... اس
کے بارے میں دو رائے ہیں. ایک یہ کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں
آیا مگر یہاں کے آیئن اور دستور میں واضح لکھا گیا ہے کہ یہاں اقلیتوں کو
مذہبی آذادی حاصل ہو گی. اس لئے مندر کا بننا یا بنانا اچنبھے کی بات نہیں.
کیونکہ ریاست کا امیر سب کا امیر ہے اور رعایا کے حقوق کی حفاظت اس کی ذمہ
داری ہے. ہمارے قومی پرچم کا سفید رنگ بھی اقلیتوں کے وجود کو تسلیم کرتا
ہے اور انھیں آزاری کے ساتھ رہنے کی ضمانت دیتا ہے. اس لئے اس بات پر تنقید
بظاہر نظریہ پاکستان سے اختلاف ہے.
دوسری رائے یہ کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ریاست کا موجودہ امیر اسے
ریاست مدینہ بنانے کی بات کرتا ہے. تو پھر ایسے میں ریاست ہی کی طرف سے
مندر کی تعمیر، ذومعنی بات لگتی ہے. اسلام نے غیر مسلموں کو حقوق دئیے ہیں
اور ان حقوق کی حفاظت کی بھی تلقین کی ہے مگر کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ
ان کے مذہب کو پروان چڑھایا جائے. نبی کریم کی حیات مبارکہ میں بھی مشرک
پوجا کرتے تھے. آپ نے انھیں دعوت اسلام تو دی مگر کبھی مذہبی دل آزاری نہیں
کی.
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ان دو متضاد رائے میں بٹا ہوا ہے لیکن کوئی بھی
تنقید یا تقلید ان باتوں کو بنا کر نہیں کر رہا بلکہ سیاسی وابستگی کی
بنیاد پر تنقید یا تقلید کی جا رہی ہے. حالانکہ ماضی میں دوسری جماعتوں نے
بھی ایسے ہی کام کئے ہیں. حال ہی میں وزیراعلیٰ سندھ کی اور اس سے پہلے
چئیرمین پی پی پی کی کرشنا جی کے مندر میں ہندوؤں کی مذہبی رسومات میں شرکت
کی تصویریں وائرل ہو چکی ہیں. ن لیگی رہنما خود بھی ان کے گردوارہ میں
ماتھا ٹیکتے پائے گئے ہیں.
اگر غور کریں تو یہ کام مندر کی تعمیر سے زیادہ خطرناک ہے کہ آپ مسلمان
ہوتے ہوئے پوجا پاٹھ اور ہندوانہ رسومات کا پرچار کرنا شروع کر دیں. آپ کو
مذہب اور ملک کا آئین اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کا کہتا ہے نہ کہ یہ کہ آپ
خود اس رنگ میں ڈھل جائیں.
تنقید یا تقلید ضرور کیجیے مگر منطق کے ساتھ.... کیونکہ اس جہاں میں آپ کو
کسی سیاسی پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے جزا یا سزا نہیں ملنی.
|