گذشتہ چند برسوں کے دوران عوام الناس میں ایک مفروضہ بہت
عام ہؤا ہے کہ اگر طلاق کا حق عورت کے پاس ہوتا تو کوئی گھر سلامت نہیں
رہتا ۔ پتہ نہیں کس بنیاد پر کس مشاہدے کی بناء پر یہ غلط فہمی عام ہوئی
حقیقت حال تو اس کے بالکل برعکس ہے ۔ ہمارے سماج میں تو زیادہ تر بدترین
حالات اور انتہا درجے کی باہمی ناچاقی اور نااتفاقی کے باوجود شادیوں کو
مرتے دم تک گھسیٹا جاتا ہے اور طلاق کا تصور بھی نہیں کیا جاتا ، کہیں بچے
پیروں کی زنجیر بنتے ہیں تو کہیں ایک مخصوص کمزور اور مجبور طبقے کے ذہنوں
میں پایا جانے والا یہ تصور کہ آجکل تو کوئی کنواریوں کو نہیں پوچھتا تو
ایک مطلقہ کو کون بیاہنے آئے گا؟ اور یہ بات بہت حد تک درست بھی ہے ۔ اور
پسماندہ ناخواندہ دیہی طبقے میں تو اجڈ مرد بیوی کو تین تو کیا تیس مرتبہ
طلاق دے چکے ہوتے ہیں عورت پھر بھی گھر چھوڑ کر نہیں جاتی ۔ مرد اگر نکالتا
بھی ہے تو عورت کے گھر والے اسے سمجھا بجھا کر واپس چھوڑ جاتے ہیں کہ غصے
میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ جبکہ طلاق دی ہی غصے میں جاتی ہے پیار سے
کون دیتا ہے؟ پھر مرد بھی اپنے وقتی اشتعال کا اعتراف کر کے عورت کو دوبارہ
قبول کر لیتا ہے اور دونوں اپنی باقی کی ساری زندگی حرامکاری میں بسر کرتے
ہیں ۔
نیم متوسط طبقے میں بھی عام طور پر ایک عورت نبھاؤ کی کوئی صورت نہ ہونے کے
باوجود محض طلاق کا داغ اپنے اوپر لگنے سے بچنے کے لیے اپنی ہستی کو مٹا
ڈالتی ہے اور ایک نام نہاد بندھن کی بقا کے لیے اپنی جان لڑا دیتی ہے ۔ تو
پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اگر طلاق کا حق عورت کے پاس ہوتا تو کوئی
گھر سلامت نہیں رہتا ۔ نکاح نامے میں ایک شق عورت کو طلاق کا حق تفویض کیے
جانے کے بارے میں بھی ہوتی ہے مگر اس سمیت اور بھی بہت سی شقوں اور ان کے
مندرجات کو پڑھنے تک کی زحمت نہیں کی جاتی اور ان پر حرف غلط کی طرح خط
تنسیخ پھیر دیا جاتا ہے ۔ کیونکہ بحیثیت عمومی ہمارے معاشرے میں اس بات کا
کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا کہ عورت بھی کبھی مرد کو تین بول کہہ کے اسے
چلتا کرے ۔ ایک عام عورت مرد کے زیر کفالت اور اس کی فراہم کردہ رہائش میں
مقیم ہوتی ہے وہ اس لائق ہی کب ہوتی ہے کہ مرد کو طلاق کی دھمکیوں سے بلیک
میل کرے اور اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچنے کی کوشش کرے اسے اس بات سے
کوئی فرق نہیں پڑتا اگر طلاق کا حق اس کے پاس ہوتا بھی تو ۔ بےگھر ہمیشہ
عورت ہوتی ہے قدم ہمیشہ عورت ہی کے اکھڑتے ہیں سماجی تنہائی اور خود اپنوں
کی بےاعتنائی کا نشانہ اسی کو بننا پڑتا ہے اس لیے وہ اسی کھونٹے سے بندھے
رہنے کو ترجیح دیتی ہے ۔ ہاں اگر پھر بھی کوئی نا رہنا چاہے اور شادی کو
ختم کرنا چاہے تو خلع کے لیے عدالت کے دروازے کھلے ہیں جسے اپنا یہ حق
استعمال کرنا ہو تو وہ کر کے رہتی ہے طلاق کا حق نا ہونے کے باوجود ۔
رہی بات اپر اور ہائر کلاس کی تو وہاں عورت چونکہ معاشی لحاظ سے مستحکم
ہوتی ہے اور مرد کی کفالت کی محتاج نہیں ہوتی اور ان کے ہاں طلاق کو گالی
بھی نہیں سمجھا جاتا تو آپس میں نبھاؤ نہ ہونے ایکدوسرے سے اختلافات کی
صورت میں وقت ضائع کیے بغیر قربانیاں دینے کے شوق سے پرہیز رکھتے اپنی
راہیں الگ کر لی جاتی ہیں اور دونوں ہی کو عام طور پر نیا ہمسفر میسر آ
جاتا ہے ۔ تو کیوں نا اس بات کو مان لیا جائے کہ گھر سلامت رہنے کا تعلق
عورت کا طلاق کے حق سے محروم ہونے سے نہیں بلکہ اس کے معاشی لحاظ سے کمزور
ہونے سے تعلیم سے محروم ہونے سے اور کہیں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود مخصوص
قسم کے تصورات کی بالادستی اور کہیں اپنے میکے کی طرف سے مالی و کفالتی یا
اخلاقی سپورٹ نا پا سکنے کی امید سے ہوتا ہے ۔ لہٰذا اگر طلاق کا حق عورت
کے پاس ہوتا تو بھی وہ کیا تیر مار لیتی؟ |