دنیامیں سات عجائبات مشہورہیں ان سات عجوبوں پر
غورکیاجائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے یہ اس بات کا بھی اعلان ہے کہ آج کی حیرت
انگیزترقی،چاندکی تسخیر اور جدید علوم کے باوجود میں زمانہ قدیم کے لوگ ہم
سے زیادہ ذہین اور تہذیب یافتہ تھے عجائبات ِ عالم میں سے ایک ارٹیمس کا
معبد ہے۔ یہ جس شہر افسس میں موجودہے وہ صدیوں تک بہت سی جنگوں، بربادیوں،
بغاوتوں اور وباوں کا مقابلہ کرنے کے بعد بالآخر سنسان ہو چکا ہے۔ یہ ترکی
کے صوبے ازمیر میں واقع شہر سلچوک سے تقریبا تین کلومیٹر کے فاصلے پر آباد
ہوا کرتا تھا۔ تاریخ میں ایک خطہ اناطولیہ کے نام سے جانا جاتا تھا، جو اب
موجودہ ترکی کا حصہ ہے۔ اس کے مغربی ساحل کا مرکزی حصہ آیونا کہلاتا تھا۔
یہاں دو طرح کے یونانی آبادکاروں، آیونی اور اٹیک نے دسویں صدی قبل مسیح
میں ایک شہر تعمیر کیا۔ یہ شہر ایک اور قدیم شہر اور سلطنت ازروا کے
دارالحکومت کے مقام پر آبادکیا گیا تھا شہر کے قریب مشہور ارٹیمس کے معبد
کی تکمیل 550 ق م میں ہوئی مگر یہ حملہ آوروں کی زد میں رہا۔ شہر کو شہرت
عطا کرنے والی دیگر عمارتوں میں لائبریری سیلسوس اور 25 ہزار شائقین کی
گنجائش والا ایک تھیٹر ہے۔ مسیحیت کی بعض اہم شخصیات نے یہاں قیام کیا اور
بہت سے مشہور فلسفیوں اور شاعروں نے یہاں جنم لیا۔ افسس کی کھدائی سے پتا
چلتا ہے کہ شہر کے مقام اور اس کے اردگرد انسانوں نے بہت پہلے آباد ہونا
شروع کر دیا تھا۔ اس کے اردگرد آبادی آخری حجری دور (قریبا چھ ہزار ق م)میں
ہو گئی تھی۔ حالیہ برسوں میں ہونے والی کھدائیوں میں کانسی کے عہد کے اوائل
کی آبادیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ حِتی اناطولیہ کے قدیم لوگ تھے۔ ارزوا کا
دارالحکومت اپاسا یا اباسا تھا۔ بعض سکالرز کا خیال ہے کہ یہی نام بعدازاں
افسس بنا۔ 1500-1400 ق م کا دور، جسے میسینین دور کہتے ہیں،یونانیوں کے
عروج کادور کہاجاسکتاہے۔ آیونی تیرہویں اور چودہویں صدی قبل مسیح میں
ایشیائے کوچک میں آباد ہوئے۔ اپاسا اور افسس ملتے جلتے ہیں، اور امکان یہی
ہے کہ پرانے شہر کے مقام پر یا اس کے آس پاس نیا شہر آباد کیا گیا۔شہروں کے
آباد ہونے کے اسباب قصے کہانیوں اور دیومالائی داستانوں کی شکل میں بھی اتم
موجود ہیں۔ ایک قدیم داستان میں کہاگیاہے کہ افسس کی بنیاد ایتھنز کے
انڈروکلوس نامی شہزادے نے رکھی جسے اپنے باپ بادشاہ کوڈروس کی موت کے بعد
اپنا ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ انڈروکلوس نے شہر کے بیشتر قدیم لوگوں کو نکال
باہر کیا۔وہ ایک کامیاب جنگجو تھا۔ وہ آیونا کے 12 شہروں کو یکجا کرکے ان
کا اشتراک قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے دور میں لوگ انتہائی خوشحال تھے
اپنے اتحادیوں کی مدد کرنے کے دوران وہ مغربی اناطولیہ کے کارین لوگوں کے
خلاف جنگ میں مارا گیالیکن چند یونانی مورخین نے لکھا کہ اس شہر کی بنیاد
ایمازونز کی ملکہ افوس نے رکھی۔ 650 ق م کے لگ بھگ افسس پر کمیری حملہ آور
ہوئے۔ یہ خانہ بدوش انڈویورپی لوگ تھے۔ جب انہیں نکال باہر کیا گیا تو یکے
بعد دیگرے کئی جابر حاکم شہر پر مسلط ہو گئے۔ عوامی سرکشی کے بعد شہر کا
انتظام ایک کونسل کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے تحت شہر ایک بار پھر پھلے
پھولنے اور خوشحال ہونے لگا۔ اس دوران بہت سی تاریخی شخصیات پیدا ہوئیں جن
میں شاعر کیلینوس اور ہپوناکس، فلسفی ہیراکلیٹس اور عظیم مصور پرہاسیوس اور
طبیب سورانس اور روفس شامل ہیں۔ 560 ق م کے لگ بھگ افسس کو لیدائی بادشاہ
کرویسس نے فتح کیا۔ لیدائی بھی مغربی اناطولیہ کے رہنے والے تھے۔ اگرچہ وہ
ایک سخت گیر حاکم تھا لیکن اس نے شہر کے باسیوں سے اچھا سلوک کیا۔ اس کے
بعد کرویسس کی قیادت میں لیدائیوں نے فارس پر حملہ کر دیا۔ آیونیوں نے
کوروش اعظم کی امن کی پیش کش قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے بجائے
لیدائیوں کے ساتھ ہو لیے۔ جب فارسیوں نے کرویسس کو شکست دے ڈالی تو آیونیوں
نے امن کی پیش کش کر دی، لیکن کوروش اعظم نے ان کے ہتھیار ڈالنے اور سلطنت
میں ضم کرنے پر اصرار کیا۔ انہیں 547 ق م میں شکست ہوئی اور ایشیائے کوچک
کے وہ شہر جو یونانیوں کے تھے، ہخامنشی سلطنت کا حصہ بن گئے۔ شہر خوشحالی
کی جانب گامزن رہا لیکن جب فارس کے کمبوجیہ دوم اور دارا نے ٹیکسوں میں
اضافہ کر دیا تو افسس کے رہنے والوں نے فارسیوں کے خلاف جنگِ افسس (498 ق
م)میں حصہ لیا۔ یہ آیونیوں کی مشترکہ بغاوت تھی۔ اس واقعے نے یونانیوں اور
فارسیوں کے درمیان جنگوں کے سلسلے کا آغاز کر دیا۔ 479 ق م میں آیونی
ایتھنز والوں کے ساتھ مل کرفارسیوں کوایشیائے کوچک کے ساحلوں سے نکال باہر
کرنے میں کامیاب ہو گئے۔تاہم بعدازاں اس پر پھر فارس کا قبضہ ہو گیا۔ جب
334 ق م میں سکندر اعظم نے کارزارِ گرانیک میں فارس کی سپاہ کو شکست دی تو
ایشیائے کوچک کے یونانی شہروں کو آزادی نصیب ہوئی۔ فارس نواز ظالم حاکم
سیرپاکس اور اس کے خاندان کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔افسس میں
داخلے پر سکندراعظم کا شاندار استقبال کیا گیا۔ جب سکندراعظم نے دیکھا کہ
ارٹیمس کے معبدکی تکمیل کا کچھ کام ابھی باقی ہے تو اس نے مالی مدد کرنے
اور اس کی پیشانی پر اپنا نام کندہ کرنے کی تجویز دی، مگر مقامی لوگوں نے
بوجوہ اسے قبول نہ کیا۔ سکندر کی موت کے بعد شہر اس کے جرنیلوں کے ہاتھ
آیا۔ اس کی بندرگاہ کو دریائے کیسٹر نے بھرنا شروع کر دیا تھا۔ کم گہرے
پانیوں نے مچھروں کی تعداد اور ملیریا کی بیماری میں اضافہ کر دیا جس سے
شہریوں کی بہت سی ہلاکتیں ہوئیں۔ حاکم اور سکندر کے جرنیل لیسیماکوس نے
لوگوں کو ارٹیمس کے معبد کے گرد قدیم آبادی سے دو کلومیٹر دور بسنے پر
مجبور کر دیا۔ نئی آبادی کو ارسینوئی کا نام دے دیا جو دراصل حاکم کی دوسری
بیوی کا نام تھا۔ اس کی موت کے بعد شہر کا نام دوبارہ افسس رکھ دیا گیا۔اس
کے بعد شہر سلوقی سلطنت کے ہاتھ آیالیکن پھر مصری فرعون بطلیموس سوم نے اس
پر قبضہ کر لیا اور 263 سے 197 قبل مسیح تک اس پر حکمرانی کی۔سلوقی اسے
واپس لینے میں کامیاب تو ہوئے مگر جلد یہ رومی جمہوریہ کے تحت آگیا جس نے
اس پر محصولات کا بہت زیادہ بوجھ لاد دیا۔ اس لئے جب پونٹس کے بادشاہ
متھریڈیٹس کا جرنیل یہاں پہنچا تو اسے خوش آمدید کہا گیا۔اسی شہر سے
متھریڈیٹس نے رومی شہریوں کے قتل کا حکم جاری کیا جس کے نتیجے میں ایشیا ء
میں 80 ہزار رومی شہریوں کا قتل عام کیا گیا۔ 86 قبل مسیح میں شہر دوبارہ
رومیوں کے پاس چلا گیا۔ جب 263 میں شمالی یورپ کے گوتھوں نے اسے تباہ کیا
تو شہر کے زوال کا آغاز ہو گیا۔ البتہ قسطنطین اعظم نے اس میں خاطر خواہ
تعمیرات کرائیں۔ 614 ء میں ایک خوفناک زلزلے نے شہر کے خدو خال تبدیل کرکے
رکھ دئیے جس سے اس کی کاروباری اہمیت خاصی کم ہو چکی تھی کیونکہ اس کی
بندرگاہ دریائی مٹی کے سبب ناکارہ ہوتی جا رہی تھی جس سے تجارت پر اثر پڑ
رہا تھا جس کی وجہ سے لوگ یہاں سے نقل مکانی کرتے چلے گئے۔ 655-54 ء میں
حضرت امیر معاویہؓ کی افواج نے اس علاقے کو فتح کرکے اسلامی سلطنت کا حصہ
بنا دیا جس سے یہاں کی تہذیب زوال پذیرہوگئی۔ 1090 ء میں سلجوقی ترک اس کے
حاکم بنے لیکن اس وقت تک یہ پرشکوہ شہر ایک قصبہ بن چکا تھا۔بعدازاں یہ
سلطنتِ عثمانیہ میں شامل ہوا اور آخر کار موجودہ ترکی کا حصہ بنا۔یہ شہر 50
کے لگ بھگ ابتدائی مسیحیت کا اہم مرکز تھا۔یہاں سیلسوس کی لائبریری میں
کبھی ہزاروں مخطوطے ہوا کرتے تھے۔ یہاں دورِ قدیم کا سب سے بڑا تھیٹر بھی
تھا جس میں 25 ہزار شائقین کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ یہاں بہت سی عمارتیں
ایسی ہیں جو ماضی کی عظمت کو بیان کرتی ہیں۔ پندرہویں صدی عیسوی میں بے
آباد ہوئے اس شہر کے کھنڈرات سے ایک ہنستے بستے شہر کو تصور کی آنکھ سے
دیکھا جا سکتا ہے۔ سچ ہے وقت ایک سا نہیں رہتا تغیربڑی سے بڑی سلطنتوں کا
حلیہ بگاڑکررکھ دیتاہے اس شہر نے بہت سے عروج و زوال کا نظارہ کیا آج یہ
شہر دنیا کی قدیم تہذیبوں کا نوحہ سنارہاہے افسس نامی شہر میں قدیم و جدید
کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے دنیا کی ہر تہذیب کو فناہوناہے صرف اﷲ کی
حکمرانی دائمی ہے لیکن انسان کی سمجھ میں یہ بات آج تک نہیں آئی۔
|