آذاں جو دے گئی کفر کو رعشۂ سیماب

(Raja Muhammad Attique Afsar, Peshawar)


راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات قرطبہ یونیورسٹی پشاور
03005930098, [email protected]

وطن عزیز سمیت تمام عالم میں کرونا وباء نے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کر رکھا ہے ۔ جگہ جگہ لاک ڈاؤن کی حالت ہے ۔ چہار جانب ہو کا عالم ہے ۔ غیر مرئی مخلوق نے تمام عالم انسان کو خوف میں مبتلاء کر رکھا ہے ۔ مساجد سمیت دیگر عبادت گاہیں بے رونق ہو گئی ہیں ۔ اس خوف کے عالم میں کبھی کبھی گھروں کی چھتوں سے آذان کی آواز بلند ہوتی ہے تو دل و دماغ اس حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں کہ یہ وہ نغمہ ہے جو ممولے کو شاہین سے لڑجانے کا حوصلہ فراہم کرتا ہے ۔ اس کے الفاظ و معانی سمجھ لیے جائیں تو یہ پیغام انقلاب ہے ۔ یہ نغمہ وہ تخت الٹا دیتا ہے جنکے پائے لوگوں کے ضمیروں پہ ٹکا کر انہیں محکوم بنایا جاتا ہے ۔ یہ وہ نغمہ ہے جو شبستان وجود کو رعشہ سیماب دے کر طلوع سحر کا باعث بنتا ہے ۔ یہی وہ نغمہ زندگی ہے جسے سن کر انسان ہر بلاء اور آفت سے لڑنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے ۔گھر گھر سے بلند ہوتی آذان پیغام زندگی دیتی ہے ۔
کوچہ و بازار میں گونجتی آذان سن کر دل و دماغ ماضی کا سفر طے کرتے ہوئے اس دلدوز واقعے تک پہنچ جاتے ہیں جب وادی کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کی خاموش فضاء میں اﷲ اکبر اﷲ اکبر (اﷲ سب سے بڑا ہے ) کی دلربا صدا بلند ہوئی تو ساتھ ہی ڈوگرہ فوج کی جانب سے گولی کی تڑتڑاہٹ بلند ہوئی ۔ سنسناتی ہوئی گولی نے مؤذن کو اسی رب کی جانب روانہ کر دیا جس کی کبریائی کا ڈنکا اس نے بجایا تھا۔یہ ۱۳ جولائی۱۹۳۱ کا ایک عام سادن تھا لیکن اس دن سورج سری نگر میں ایک نئی تاریخ لے کرطلوع ہوا ۔ چشم ِفلک نے اس روز وہ منظر دیکھا جو اس سے پہلے شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ سری نگر کی مرکزی جیل کے سامنے لوگوں کا ہجوم ہے ۔ یہ سب لوگ کسی خبر کے منتظر ہیں ۔ انتظار کی گھڑیاں طویل سے طویل ہوتی چلی جا رہی ہیں اور اسی انتظار میں سورج بھی مائل بہ زوال ہو گیا ۔ نماز ِ ظہر کا وقت ہوا تو تمام افراد نے ادائیگی نماز کے لیے جیل کے باہر ہی جماعت کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک نوجوان اذان دینے کے لیے آگے بڑھا اور قبلہ رخ ہو کر اذان شروع کی جو اس کی شہادت کا باعث بنی۔ اذان کی آواز تو تمام ہی مساجد کے میناروں سے دن میں پانچ وقت بلندکی جاتی ہے مگر ان کی جزا ء یہ تو نہیں ہوتی پھر اس اذاں میں کیا تھا جو موت ہی اس کی سزا ٹھہری ۔ اصل میں یہ اذاں کسی روایتی ملّا نے نہیں بلکہ بیدار مغز مجاہد نے دی تھی جو الفاظ میں تو اسی طرح تھی مگر ملا کی اذاں سے مختلف تھی اور طاغوت و جبروت کو یہ اذاں پسند نہیں ۔
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور
رب سے ملاقات کا یہ نرالہ انداز دیکھ کر ایک اور جوان آگے بڑھا اوروہیں سے اذاں کےمنقطع سلسلے کو دوبارہ شروع کیا جہاں اس کے پیش رو نے چھوڑا تھا ۔ پھر تکبیر کی صدا بلند ہوئی اور ساتھ ہی ایک گولی کی آواز آئی اور یہ شخص بھی فردوس کے بالاخانوں کی طرف عازم سفر ہو گیا ۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت ِ آشنائی
دوسرے شخص کو بھی رب سے ملاقات کرتے دیکھا تو تیسرا جوان آگے بڑھا اور آذان کے منقطع سلسلے کو آگے بڑھایا اور فضا ء میں اشھد ان لا الٰہ الا اﷲ کی آواز بلند ہوئی جواب میں ایک اور گولی آئی اور اس شاہد کو شہیدکے رتبے پہ فائز کر گئی ۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مؤمن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ ڈوگرہ فوج اس اذاں سے مشتعل ہو گئی ہے حالانکہ مشتعل ہونے کے لیے آذان تو کوئی خاص وجہ نہیں تھی ۔ لیکن درحقیقت وجہ یہی اذاں تھی ۔یہ وہ نغمہ ہے جو تخت و تاج ہلا دیتا ہے ۔ یہ تو اعلان ہے کہ اﷲ کے بندو ! بندوں کی غلامی سے نکل کر اﷲ کی بندگی میں آجاؤ اسی میں فلاح ہے ۔جب یہ نغمہ کان کے راستے سے دل میں اتر جائے تو انسانی ضمیر جاگ اٹھتا ہے ۔ زندہ و بیدار ضمیر فرد کسی کا غلام بنانا ناممکن ہو جاتا ہے وہ صرف ایک خدا کی غلامی میں آجا تا ہے۔وہ محلوق خدا کی بندگیوں سے آزاد ہو کر صرف اﷲ کی بندگی میں پناہ گزین ہوجاتا ہے ۔ یہی بات تو خود کو خدا سمجھنے والے عاقبت نااندیش ظالموں کو پسند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابولہب و ابو جہل ایک صادق و امیں ہستی ﷺ کی زبان سے لاالہ الااﷲ کا جملہ سن کر اس کے جانی دشمن ہو جاتے ہیں جبکہ بلال حبشی اسی کلمے کو دل میں اتار کر سیدنا بلال ؓ ہو جاتے ہیں ۔جب یہ نغمہ جبر کے ایوانوں میں گونجتا ہے تو اسے اپنے تخت کے پایوں میں ارتعاش محسوس ہوتا ہے وہ بھرپورقوت سے اس نغمے کی صدا کو دبانے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ سب کچھ یہاں بھی ہو رہا تھا ۔ ہم سب مسجدوں میں ، خانقاہوں میں اور اپنی خلوت کی عبادتگاہوں میں لا الٰہ الا اﷲ کا وِرد تو کرتے ہیں لیکن مزہ تو تب ہے جب اس کا اظہار کسی طاغوت کے سامنے کیا جائے ۔ اسی لیے تو جابر کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کو افضل جہاد قرار دیا گیا ہے ۔
ہے کہ اندر بج رہا سازِسخن
نعرہ ٔ لا پیش نمرود جبر
یہ لوگ سری نگر جیل کے سامنے ایک مقدمے کی کاروائی سننے کے لیے جمع تھے ۔ان کا مطالبہ تھا کہ مقدمے کی کاروائی کھلے عام کی جائے اور انہیں فیصلے سے آگاہ کیا جائے ۔ مقدمے کا مرکزی کردار صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والا عبد القدیر نامی شخص تھا ۔یہ ایک انگریز کے ہاں ملازم تھا جو سری نگر میں رہتا تھا۔ اس سے زیادہ اس شخص کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتیں ۔ عبد القدیر کشمیریوں کو ڈوگرہ حکومت کے خلاف ورغلانے کے جرم میں مقدمہ چلایا جا رہا تھا ۔زیر ِ گفتگو واقعے سے چند روز قبل ہی جموں کی جامع مسجد میں نمازِ عید کے خطبے کے دوران مولوی صاحب نے فرعون و موسیٰؑ کاقصہ شروع کر دیا۔فرعون کے جبر ناروا کے قصے سن کر مسجد کے باہر کھڑے ڈوگرہ فوجیوں کو یہ گمان ہوا کہ یہ تو ڈوگرہ سرکار کا ذکر ہو رہا ہے بس ہری سنگھ کی جگہ فرعون کا نام لے کر عوام کو مہاراجہ سرکار کے خلاف بغاوت پہ آمادہ کیا جا رہا ہے۔ قرآن پاک کا معجزہ دیکھیے کہ وہ ہر دور کے فرعون اور نمرود کو بے نقاب کرتا ہے ۔قرآن پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے تمثیلیں بیان کر دیں ہیں اور ان کا انجام بھی بتا دیا ہے ۔ فرعون اور نمرود ہر دور میں موجود ہوتے ہیں ان کے سامنے جب قرآن پاک کی یہ تماثیل بیان کی جائیں تو وہ بھی سمجھ جاتے ہیں کہ اصل مخاطب کون ہے ۔ڈوگرہ فوجی سیخ پا ہو کر مسجد میں داخل ہو گئے اور مولوی صاحب کو خطبہ بند کرنے کو کہا ۔ انکار کرنے پہ مولانا صاحب سمیت نمازیوں پہ تشدد کیا گیا اور قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی ۔ امتحان تو یہ ہوتا ہے کہ کون ابراہیم اور موسیٰ علیھماالسلام کے اسوہ کو اپناتا ہے اور کون محو تماشا ئے لبِ بام رہتا ہے ۔جو بھی مشکل کی گھڑی میں اس اسوہ کو اپنائے گا وہ کامیاب ہو جائے گا۔
قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کے خلاف پوری ریاست جموں وکشمیر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ۔ جگہ جگہ احتجاج اور مظاہرے ہونے لگے ۔ اسی طرح کے احتجاجی جلسے کے دوران یہ پٹھان عبدالقدیر اٹھا اور ایک جوشیلی تقریر کر ڈالی ۔ تقریر میں اس نے عوام کو مخاطب کر کے کہا کہ جب تک سامراج سے آزادی حاصل نہیں کر لیتے اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے ۔ یہ وہ تقریر تھی جس کی پاداش میں عبدالقدیر کو گرفتار کیا گیا اور اس پہ اشتعال انگیزی کا مقدمہ چلایا جا رہا تھا 13جولائی کو اس مقدمے کا فیصلہ سنایاجانا تھا اور یہ لوگ اس فیصلے کے منتظر تھے کہ نماز ظہر کا وقت ہو گیا ۔ عبد القدیر کو تین ماہ کی سزا ہوئی اور بعد از رہائی وہ تحریک آزادی ٔ کشمیر کو بنیاد فراہم کر کے خود تاریخ کی بھول بھلیّوں میں گم ہو گیا۔جب عبد القدیر پہ مقدمہ چل رہا تھا تو شاید اسے یہ معلوم بھی نہ ہو کہ اس کی خاطر کتنے دل ڈھڑک رہے ہیں ۔ اسکے دیے ہوئے بیداری کے درس نے کتنوں کو بیدار کر دیا تھا اور انہوں نے تاریخ کی وہ اذاں دے ڈالی تھی جس کے متعلق اقبال نے فرمایا تھا :
سنی نہ مصر و فلسطیں میں وہ اذاں میں نے
دیا تھا جس نے پہاڑوں کو رعشۂ سیماب
یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے ایک برس قبل خطبہ الہ آباد میں مسلمانوں کو ایک الگ ریاست خا خواب دکھایا تھا ۔ اور یہ اقبال ہی تھے کہ جنہوں نے کشمیریوں کو خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے کا درس دیا تھا ۔ اقبال کی شاعری نے جہاں ہندوستان کے دیگر علاقوں میں خون مسلم کو جوش دلایا وہیں کشمیر کے مسلمانوں کو بھی طوفانوں سے ٹکرا جانے کا درس دیا ۔اور یہی نہیں آزاد مسلم ریاست کی صورت میں جس مسجد کے قیام کا عزم انہوں نے کیا تھا اس مسجد کے لیے سب سے آگے بڑھ کر آذاں بھی دے ڈالی اور وہ بھی دنیا کی سب دے منفرد آذان۔
دنیا کی تاریخ کی انوکھی اذاں دی جا رہی تھی ایک کے بعد ایک جوان آگے بڑھتا اور کلمہ ٔ حق ادا کرتے ہوئے اپنی جان جان ِ آفریں کے سپرد کر دیتا۔ اذان کی تکمیل میں22افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے ۔ لیکن اپنی قوم کو اس اذاں کے ذریعے نئے مفا ہیم عطا کر گئے ۔ جب وہ تکبیر کہہ رہے تھے تو گویااعلان کر رہے تھے کہ کشمیر پہ اقتدار اعلیٰ کا حق صرف اﷲ کو حا صل ہے ، جب وہ شہادتیں ادا کر رہے تھے تو ببانگ دہل کہہ رہے تھے کہ اس سرزمیں پہ وہی نظام چلے کا جو اﷲ کے رسولﷺ کامل دین کی صورت میں ہم تک لائے ہیں ، جب وہ حی علی الصلاۃ کہتے تو گویا پکار رہے ہوتے تھے کہ بندوں کی غلامی چھوڑ کر رب العباد کی بندگی اختیار کرو ، جب حی علی الفلاح کی صدا بلند کرتے توکہہ رہے ہوتے تھے کہ کامیابی تو اس چلن میں ہے جس کی جانب ہم پکارتے ہیں ۔ ہم صدا لگاتے ہیں ہم تمہیں بلاتے ہیں آؤ ہمارے راستے پہ تم بھی کامیاب ہو جاؤ گے۔ بقول اقبال
عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
تاریخ کے اس عجیب واقعے نے حالات کا رخ ہی بدل ڈالا ۔ تحریک آزادی ٔ کشمیر کو ایک بنیاد فراہم ہو گئی۔ ان 22 افراد نے اپنی جانوں پہ کھیل کر آزادی کی ایک شمع فروزاں کی ۔ ان کی اذانِ حق پہ لاکھوں فرزندان توحید نے لببیک کہا ۔ اپنے گھر بار قربان کیے ،ہجرت کی ، اﷲ کی راہ میں جہاد کیا اور اب بھی اپنی تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہیں ، باطل کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور ظاغوت کا مقابلہ صبر اور پامردی سے کر رہے ہیں ۔ یہ تحریک مختلف مراحل طے کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے ۔ لاکھوں افراد جان کی قربانی دے چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے ۔ دنیا بھر میں مقیم کشمیری ان شہدا کو یاد کرتے ہیں اور 13جولائی کو یوم ِشہداء کشمیر منایا جاتا ہے ۔ آزادکشمیر میں تعطیل ہوتی ہے ۔ شہداء کی لازوال قربانیاں جن کے نتیجے میں آج ہم آزاد و خودمختار مملکت میں بیٹھے ہیں ہم سے یہ سوال کر رہی ہیں کہ ہم تو دین پہ کٹ مرے تھے کیا ہمارے بعد تم نے ہمارے مشن کو اپنی جان ،مال اور قویٰ کے ذریعے تقویت دی ؟، ہمارے حکمرانوں سے سوال کر رہی ہیں کہ ہمارے خون کو نظر انداز کر کے ہمارے ہی دشمنوں سے دوستی کی پینگیں چے معنی دارد؟ اور میڈیا کے اہلکاروں سے یہ سوال کر رہی ہیں کہ ہم تو دین پہ کٹ مرے آپ کو ہماری قربانی کے کس گوشے پہ شک ہے کہ اس تحریک کارشتہ دین سے جوڑنے کے بجائے آج یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ جدوجہد دینی تھی یا سیکولر؟جس خطہ ٔ ارضی کو مسجد بنانے کے لیے ہم نے اذان دی تھی جب پاکستان کی صورت میں وہ مسجد معرض وجود میں آگئی تو قوم بحیثیت مجموعی رب کے آگے سربسجود ہونے سے گریزاں کیوں ہے ؟چھوٹے بڑے ، امیر غریب ، کالے گورے اور ہر قسم کی تقسیم کو ختم کر کے ایک صف میں کھڑے ہونے کے بجائے صوبائیت ، علاقائیت اور فرقہ واریت کی بنیاد پہ انتشار کیوں ہے؟ رب کی عطا کردہ زمیں پہ غیر اﷲ کا نظام کیوں ہے ؟اسلام کے نظام عدل ومساوات کے بجائے استبداد کا نظام ظلم اب تک کیوں برقرار ہے ؟ ہماری معیشت کی بنیاد اﷲ اور اس کے رسول سے اعلان جنگ کیوں کر رہی ہے ؟ہم نے تو غیر ریاستی شخص کی صدائے حق پہ لبیک کہا ، اسکی خاطر قربانی دینے سے نہیں ٹلے اور نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغرایک امت ہونے کاعملی مظاہرہ کیا مگر مملکت خداداد میں اپنے ہی شہریوں ، اپنے ہی مسلم بھائیوں کو غیروں کے ہاتھ فروخت کر کے قومی خرانہ بھرنے کی تجارت کیوں ہو رہی ہے ؟اپنے ہی ملک کے شہریوں پہ غیروں کے ہاتھوں بمباری پہ چپ کیوں سادھ لی گئی ہے؟ کشمیری عوام کی زخموں پہ مرہم رکھنے کے وقت محض تقریریں کر کے نمک پاشی کیوں کی جا رہی ہے ؟ بھارت نے آگے بڑھ کر کشمیر کی آئینی حیثیت بھی بدل ڈالی لیکن ہم تقریروں تک محدود کیوں ؟ شہداء کی روحیں ہم سے سوال کر رہی ہیں کہ ایک طویل عرصہ سے کشمیری عوام پہ ظلم ہوتا رہا اور ہم ساتھ کھڑے رہنے کی رٹ لگاتے رہے یہ کیسا ساتھ ہے کہ شہ رگ کو کٹتا دیکھتے رہے ؟ غرض ان کی اذاں فضا ؤں میں گونج رہی ہے اور ہمارے ضمیروں پہ مسلسل دستک دے رہی ہے کہ خدا را ہمارا لہو بھلا نہ دینا۔یوم شہداء کشمیر ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ ہمارے مشن کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچائے بنا آرام سے نہ بیٹھ جانا۔ تحریک آزادی کشمیر کو منطقی انجام تک پہنچائے بنا نہ چھوڑنا ، کسی مصلحت پسندی کا شکار نہ ہو جانا ۔ہم نے اذاں دے دی تم کروٹ بدل کر سو نہ جانا بلکہ اقوام عالم کی امامت کرنا ۔اﷲ تعالی ٰ ہمیں شہداء کے مشن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے۔ آمین۔
شہید تم سے یہ کہہ رہے ہیں
لہو ہمارا بھلا نہ دینا
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 83 Articles with 89100 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More