’’احمر! کہاں ہو بیٹا؟‘‘ ماما جان نے آواز دی۔ اور ہمارے ننھے گول مٹول احمرمیاں الماری کا ایک پٹ کھولے کرسی رکھ کر کھڑے تھے۔ نیا سفید کڑکڑاتا کرتا، چھوٹی سی جالی دار ٹوپی ، سیاہ چمکیلی واسکٹ اورننھی سی پشاوری چپل ۔ ماما جان نے کل ہی الماری میں احمر میاں کی عید کی چیزیں سنبھال کر رکھی تھیں۔
اسی لیے آج صبح سےاحمر میاں کو چین نہیں آرہا تھا۔ جیسے ہی ماما جان افطاری بنانے کچن میں گئیں تو وہ کمرے میں چلے آئے ۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنی چھوٹی سی جامنی کرسی کو آہستہ آہستہ گھسیٹ کرالماری کے سامنے لا کھڑا کیا۔ پھر جوتے اتار کر اوپر چڑھے۔ الماری کا ہینڈل گھمایا تو ہلکی سی چوں کے ساتھ ایک پٹ کھل گیا۔
پھر وہ کرسی گھسیٹ کر تھوڑا اور آگے ہو لیے ۔ اب وہ درمیانے والے شیلف کے بالکل سامنے تھے۔ بس پھر کیا تھا! کبھی احمر میاں تصور میں سفید کرتہ پہنے دادو جان سے عیدی لے رہے ہیں۔ کبھی جالی دار ٹوپی کو ہاتھوں میں تھامے خیالوں میں ابا جان کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے جارہے ہیں۔ کبھی پشاوری چپل کو بار بار چھو کر دیکھا جارہا ہے۔
یہ سب کاروائی احمر میاں نے اس وقت کی جب ماما جان اور آپا عصر کے بعد کچن میں مصروف ہو گئیں۔ بھیا دہی لینے چلے گئے۔ دادو تخت پر بیٹھ کر فروٹ کاٹنے لگیں اور دادا ابا پودوں کو پانی دینے چلے گئے۔
’’احمر!‘‘ ماما جان کی دوسری آواز پر احمر میاں گھبرا گئے۔ انہوں نے جلدی سے کرسی سے اترنے کی کوشش کی تو کرسی پھسل گئی اور احمر میاں دھڑا م کی آواز کے ساتھ نیچے جا گرے۔
’’ماما اوں اووووںں ماما ‘‘ احمر میاں کو سب بھول گیااور وہ لگے رونے اور چلانے۔
ماما جان دوڑی چلی آئیں۔ احمر میاں کو اٹھایا ۔ چوٹ سہلائی اور ان کو کچن میں لے گئیں۔ تھوڑی دیر بعد ماماجان کمرے میں آئیں تو الٹی ہوئی جامنی کرسی ، الماری کا کھلا ہوا پٹ اور احمر میاں کا باہر جھانکتا ہوا نیا سفید کرتہ دیکھ کر سارا معاملہ سمجھ گئیں ۔
افطاری اور کھانے کے بعد جب سب چائے پی رہے تھے تو احمر میاں نے نہایت اشتیاق سے پوچھا۔ ’’دادا ابا! عید کب آئے گی؟‘‘ یہ سوال سن کر دادا ابا انہیں روزوں کی گنتی سمجھانے لگے۔ اور ماما جان کو یکدم ہنسی آگئی۔ سب حیران ہوگئے!
احمر میا ں سمیت کوئی نہ سمجھ سکا لیکن اگر آپ کو ماما جان کی ہنسی کی وجہ سمجھ آئے تو دادو جان کو ضرور بتائیے گا جو بہت دیر تک خفگی سے یہی سوچتی رہی تھیں کہ بہو سٹھیا تو نہیں گئی!
|