آج کل پاکستان میں پب جی موبائل گیم پر پابندی کا
شوروغوغا ہو رہا ہے لوگوں کی جانب سے بچوں پر منفی اثرات کا تاثر دے کر اسے
بند کرنے کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے اور اس ضمن میں حکومت پاکستان کے ادارہ
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ) پی ٹی اے( نے چند دن پہلے پابندی کا
نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا تھا جسے بعد ازاں ایک شہری کی درخواست پر عدالتی
فیصلہ کے بعد معطل کر دیا گیا قارئین کرام پی ٹی اے پاکستان کا ایسا ادارہ
ہے جسے پاکستان میں موجود میڈیا کو کنٹرول کرنے کا اختیار حاصل ہے خواہ وہ
پرنٹ میڈیا ہو، الیکٹرونک میڈیا ہو یا خواہ کسی بھی شکل میں لوگوں کو تفریح
پہنچانے کا نظام ہو پی ٹی اے اس پر شکائت حاصل ہونے کی صورت میں کارروائی
کرنے کا ذمہ دار ہے مگر ایک بات کہ پی ٹی اے کے پاس کوئی ایسی ٹیم نہیں ہے
جو کہ شکائت کو میرٹ کی بنیاد پر حل کرے ۔ پب جی گیم کی اگر بات کی جائے تو
پب جی ساؤتھ کوریا کی ایک کمپنی ہے جو کہ گیم انڈسٹری میں ایک اچھی ساکھ
رکھتی ہے پب جی کمپیوٹر اور گیمنگ کنسول میں ساتھ ملین کاپیاں فروخت کر چکا
ہے اور موبائل ورژن میں تقریباََ چھ سو ملین ڈاؤن لوڈز ہو چکی ہیں جس سے یہ
بات واضع ہے کہ یہ گیم بین الاقوامی معیار پر پورا اترتی ہے وگرنہ یہ گیم
پاکستان میں آنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی اور اگر دوسری طرف بات کی جائے
پاکستان میں پب جی کی وجہ سے ہونے والی خود کشیوں کی توپب جی گیم کو جواز
بناتے ہوئے تین خودکشیاں منظر عام پر آئی ہیں جو کہ یقیناََ افسوس کی بات
ہے مگر ان خود کشیوں میں ان نوجوانوں کے والدین بھی برابر کے شریک ہیں
جنہوں نے صرف کمائی کو ترجیح بنایا ہوا ہے اور بچوں کی نگہداشت کی جانب
کوئی توجہ نہیں ہے پب جی کے علاوہ پاکستان میں سینکڑوں ایسی اپلیکیشنز ہیں
جو کہ نسلیں بگاڑ رہی ہیں جن میں سر فہرست ٹک ٹاک ہے اور یہ ایسی بیہودہ
ایپلی کیشن ہے جس نے پاکستان کی معاشرت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی بڑے بڑے
ناموں کو پوری دنیا میں بدنام کرر کے رکھ دیاہے مگر مجال ہے کہ کسی کا
دھیان اس جانب گیا ہو ٹک ٹاک کے علاوہ Likee,Streamkar, BigoLive,Lamour,
جیسی ان گنت اخلاقیات سے عاری ایپلیکیشنز موجود ہیں کہ شریف انسان اس کا
سوچ بھی نہیں سکتا ان ایپلیکیشنز پر رات دن میں فرق کئے بغیر بیہودہ ترین
براہ راست اجنبیوں کے ساتھ باتیں کرنے کی سہولت مفت میں دستیاب ہے ان
ایپلیکیشنز پر پابندی کون لگائے گا؟ کیا پی ٹی اے لوگوں کی جانب سے شکائت
کی صورت میں ہی کارروائی کرنے کا اختیار رکھتا ہے یا پھر یہ پی ٹی اے کے
ایس او پی میں یہ شامل ہی نہیں ہے کہ وہ خود سے کوئی غیر اخلاقی مواد یا
ایپلیکیشن دیکھیں تو اس کے خلاف کارروائی کریں ہم اگر تصویر کا دوسرا رُخ
دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ بھوک کے ہاتھوں تنگ ہزاروں افراد ہر سال خود کشی
کر لیتے ہیں ، کرکٹ کے میدان میں کھیلتے ہوئے کھلاڑیوں کو کھیلتا دیکھتے
کئی لوگ دل برداشتہ ہو کر قیمتی اشیاء کا نقصان کر بیٹھتے ہیں کئی افراد
جوئے کی مد میں اپنی ساری جمع پونجی ہار دیتے ہیں، کئی افراد رشتوں کے
ہاتھوں تنگ آ کر اپنی قیمتی جان کا ضیاع کر جاتے ہیں تو پھر کیوں مہنگائی
پر پابندی نہیں لگتی، کیوں کرکٹ پر پابندی نہیں لگتی، کیوں سفید خون والے
رشتوں پر پابندی نہیں لگتی صرف پب جی پر ہی پابندی کیوں؟ پابندی لگانی ہے
تو اخلاقیات سے گرے ٹی وی چینلز کے پروگراموں پر پابندی لگائیں جو کہ ہماری
موجودہ اور آنے والی نسلیں تباہ و برباد کر رہے ہیں، پابندی موبائل آپریٹر
کمپنیوں پر لگائیں جو رات کے اوقات میں ان لیمیٹیڈ انٹر نیٹ اور ٹاک ٹائم
کے پیکج دے کر نوجوانوں کو اپنے منشور سے دور کر رہے ہیں یوں آپ ایک پب جی
پر پابندی لگا کر باقی ماندہ ایپلیکیشنز کو کھلے عام فحاشی پھیلانے کی
اجازت نہیں دے سکتے کیونکہ پب جی جیسی گیموں سے نوجوان جنگی ماحول میں خود
کو محفوظ رکھنے کی جدتیں سیکھتے ہیں اور ڈیٹنگ اور چیٹنگ جیسی ایپلی کیشن
سے نوجوان کیا سیکھتے ہیں اس کا فیصلہ وہ والدین کریں جو پب جی کو بُرا
گردانتے ہیں۔
|