پانی رب جلیل کی عظیم نعمت ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور
ممکن نہیں۔اسی اہمیت کے پیش نظر پرانے وقتوں میں کسی بھی جگہ انسانی آباد
کاری سے پہلے وہاں آبی وسائل کی دستیابی کا جائزہ لیا جاتا تھا یہی وجہ ہے
کہ دنیا کے اکثر قدیم علاقے دریاؤں کے کنارے پر پائے جاتے ہیں۔ لاہور بھی
دنیا کی ان تاریخی آبادیوں میں شامل ہے ۔ شہر کی بیرونی دیوار دریائے راوی
کے ساتھ منسلک تھی اور آبی ضروریات کا انحصار راوی کے پانی اور زیر زمین
کنوؤں پر تھا۔قدیم شہر لاہور میں کنویں کی کھدائی کے دوران20سے 25فٹ گہرائی
تک پینے کا صاف پانی باآسانی میسر ہو جاتا تھا ، یہ ماضی قریب کا قصہ نہیں
بلکہ ان بھلے وقتوں کی داستان ہے جب برطانوی سامراج کے خونی یونین جیک نے
ہماری سر زمین پر اپنے ظالمانہ پنجے نہیں گاڑے تھے۔ پھر انگریزی تسلط میں
ہمارے غلامانہ ذہن ترقی کے اس خوشنما دھوکے میں مبتلا ہوگئے جس نےہمارے
قدرتی وسائل کو آلودہ اور کم یاب کر دیا۔
دنیا کی عارضی اور ناپائدار زندگی کے لیے تزک و اہتمام مسلمان کا شعار نہیں
تھا لیکن ہم نے اپنی عمارتوں کو بلند اور گزرگاہوں کو دیرپا کرنے کی غرض سے
سیمنٹ اور کنکریٹ کا کثیر استعمال کیا ۔پہلے پہل بارش اور عام استعمال شدہ
پانی مٹی میں جذب ہو کر زیرزمین پانی کی سطح کو گرنے نہیں دیتا تھا لیکن
پھر تعمیراتی صنعت میں جدت اور زمین کی پختگی سے بارش کا پانی نالوں میں
بہہ کر آلودہ ہونے لگا۔اب صورت حال یہ ہے کہ ہمارا پانی کا بجٹ مسلسل خسارے
میں ہے، یعنی ہم زمین سے جتنا پانی وصول کررہے ہیں اسی مقدار میں زمین کو
لوٹانے کی بجائے گندے پانی میں ملا کر ضائع کررہے ہیں۔
لاہور میں صاف پانی کا ایک بڑا ذریعہ دریائے راوی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا
بہاؤ تھا۔دریا کی گہرائی تک قدرتی پانی کی روانی اور رساؤ کے اثر سے شہر
میں دور دور تک زیر زمین پانی مناسب سطح تک موجود رہتا تھا۔ لیکن 60کی
دہائی میں ہمارے حکمرانوں نے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کرکے دریائے راوی پر
بھارتی حق تسلیم کر لیا، جس کے بعد بھارت نے راوی پر ڈیم بنا کر پانی روک
لیا ۔ تمام صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری تھی کہ راوی میں فراہمی ٔ آب کے
متبادل انتظامات کامیاب کیے جاتے لیکن ظلم در ظلم یہ کہ شادباغ سے مانگا
منڈی تک راوی میں 18 گندے نالے گرادیے گئے ۔اگر ان نالوں کے پانی کو واٹر
ٹریٹمنٹ سے گزار کر دریا میں ڈالا جاتا تو دریا کا پانی اتنا زہریلا نہ
ہوتا جتنا کہ اب ہے لیکن کسی ایک نالے پر بھی واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کی
زحمت کسی حکومت نے نہیں کی ۔اس سے نہ صرف زیر زمین پانی انتہائی گدلا ہو
گیا بلکہ اس زہریلے مادے کی آبپاشی سے اگنے والی سبزیاں بھی کینسر اور دیگر
بیماریوں کا باعث بن رہی ہیں۔
73 سالہ ملکی تاریخ میں پانی کا مسئلہ ہر حکومت کی توجہ کا منتظر رہا لیکن
ہمیشہ غفلت سے کام لیا گیا۔حکومتی لاپرواہی کا عالم یہ ہے کہ عوام کے عمومی
استعمال کی مقدار سے کہیں زیادہ پانی ہر سال دریاؤں کے ذریعے سمندر برد کر
دیا جاتا ہے۔ اگر صرف یہی ضائع ہونے والا پانی ہی ڈیم بنا کر محفوظ کرلیا
جائے تو پانی کی قلت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔اگرچہ پاکستان کا شمار پانی
کی شدید قلت والے ممالک میں کیا جا رہا ہے لیکن پھر بھی اقوام متحدہ کے
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہمارا ملک پانی کی وافر آمد والے ممالک میں
17ویں نمبر پر ہے یعنی دنیا میں صرف 16ممالک ایسے ہیں جن کے پاس صاف پانی
کی مقدار پاکستان سے زیادہ ہے ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمارا اصل
مسئلہ پانی کی قلت نہیں بلکہ صاف پانی کا ضیاع ہے۔
صوبائی و وفاقی حکومتوں کی عدم توجہی نے شہر لاہور کے سرسبز مستقبل کو
مخدوش کر دیا ہے۔صاف پانی کی سطح جو قیام پاکستان کے بعد 60فٹ گہرائی میں
تھی اب تیزی سے نیچے کی طرف گرتے ہوئے 700فٹ تک جا پہنچی ہے جبکہ مزید
بورنگ سے زیرزمین پتھر پر موجود آرسینک نامی زہرکے پانی میں شامل ہونے کا
ڈر ہے۔یعنی زیرزمین صاف پانی کے زخائر اپنی انتہا تک پہنچ کر ختم ہونے کو
ہیں۔اب بھی حکومت نے اس مسئلہ پر غفلت سے کام لیا تو وہ وقت بہت دور نہیں
جب لاہور خشک ہوجائے گا ۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ حالات جوں کے توں رہے
تو لاہور کا زیر زمین پانی2025کے بعد مکمل طور پر ناقابل استعمال ہو جائے
گا۔اس مشکل سے بچنے کے لیے یہ تجویز زیر غور ہے کہ نہری پانی کو صاف کرکے
استعمال کے قابل بنایا جائے۔آلودہ پانی کو صاف کرنے کا رجحان دنیا بھر کے
ممالک میں بڑھ رہا ہے۔ مساجد میں وضو کے پانی کو زرعی آبیاری کے لیے
استعمال کرنے کا مشورہ بھی ہے بلکہ بعض جگہوں پر اس کا عملی تجربہ شروع کر
دیا گیا ہے۔
شہر بھر میں صاف پانی کا ضیاع روکنانہ صرف واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی کی
ذمہ داری ہے بلکہ ہر شہری کو اس میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا لازم ہے ۔
لاہور میں پانی کی شدید قلت والے علاقوں میں گلبرگ ، اچھرہ اورگردونوح سر
فہرست ہیں۔ان دو علاقوں کے بعد گرین ٹاؤن، ٹاؤن شپ ، گارڈن ٹاؤن اور مصطفی
آباد کے علاقے بھی صاف پانی کی کمی سے دوچار ہیں، جبکہ علامہ اقبال ٹاؤن ،
سمن آباد، انارکلی، راوی روڈ اور مزنگ میں بھی زیر زمین پانی کی سطح تیزی
سے گر رہی ہے۔
قلت آب کے دنیاوی وسائل کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ بطور مسلمان ہمارا
فرض ہے کہ رزق کی تلاش میں رازق سے تعلق کو بھی پیش نظر رکھیں۔ قرآن مجید
میں رب العالمین کا ارشاد ہے جو میرے ذِکر سے اعراض کرے گا میں اس کا رزق
تنگ کر دوں گا۔ اس اصول کی روشنی میں ہم اپنا محاسبہ کریں تو واضح ہو گا کہ
ہم نے اپنی بد اعمالی سے اﷲ کو ناراض کر دیا ہے۔وہ ایسا مہربان اور کریم رب
ہے جو ہمارے تھوڑے سے عمل کو زیادہ میں تبدیل کرکے جلدی راضی ہو جاتا ہے
لیکن ہم ہیں کہ تھوڑے سے عمل کو بھی اخلاص کے ساتھ سرانجام دینے سے قاصر
ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر زیادہ سے زیادہ استغفار
کرے۔ اﷲ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے تو نہ
صرف ہمارا انفرادی بلکہ اجتماعی رزق بھی کشادہ ہو گا۔ |