داستانِ زندگی - قسط نمبر :- فرسٹ

ہلکی ہلکی بارش شروع تھی. اور تیز ہوا چل رہی تھی . ہوا کا ایک جھونکا عمل کے چہرے پے لگا .تو عمل کی آنکھ کھلی ۔

کھلے بال ، پیاری پیاری آنکھیں ، چہرے پے ہلکی مسکراہٹ ، سادگی میں بھی قیامت کی ادا رکھتی تھی ۔عمل کی نظر گڑھی پے پڑھی. تو اسی لمحے اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوگئی۔

صبح کے 8 بج رہے تھے. اور وہ آج پھر لیٹ ہو گئی تھی کالج کے لئے ۔عمل آج پھر خیر نہیں اپنے دل میں کہتے ہوئے کوم فور ٹیبل ہٹاتے ہوئے تیار ہونے لگی ۔۔۔!!

ناشتہ کرنے لگی تو اس کی نظر ماما پے پڑھی. جو کچن سے اس کے پاس آرہی تھی ۔آج پھر مجھے جلدی نہیں اٹھایا عمل چائے کا کپ ٹیبل پے رکھتی ہوئی ماما سے شکایات کرنے لگی ۔

بیٹا کون کہتا ہے کہ رات کو اتنی دیر تک پڑھا کرو .پھر صبح اٹھ نہ سکو ۔فلک مالک کرسی پر بیٹھتے ہوئے عمل کو مسکرا کے جواب دینے لگی ۔

جس پر عمل ناراض سی شکل بناتے ہوئے ۔ماما کو گال پے پیار کر کے کالج جانے لگی ۔

فلک مالک اور مالک شاہ کی تین بٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔بڑی بیٹی مناہل تھی۔ جس کو پیار سے ماہی کہتے تھے۔ اس کی اپنے کزن احمد کے ساتھ منگنی ہوئی تھی ۔ اس کے بعد فہد تھا جو باہر ملک میں جاب کرتا تھا ۔ پاک میں نہیں تھا ۔ پھر عمل تھی ۔ اور پھر انم ۔لیکن عمل شروع سے ہی بہت معصوم تھی اور بہت خاموش طبیت کی مالک تھی۔ اسلئے سب اسے بہت پیار کرتے تھے ۔مالک شاہ کی وفات کے بعد فلک مالک پہلے سے بھی زیادہ اپنے بچوں کا خیال رکھتی تھی ۔

تیز بارش سٹارٹ تھی کہ حیدر عمل کے کالج کے باہر کڑھے ہو کے عمل کا انتظار کر رہا تھا۔
آج پھر وین نہیں آئیگی ۔۔۔۔عمل حیدر کو دیکھ کے پوچھنے لگی ۔ہاں جی حیدر اس کا بیگ لیکے گڑھی میں رکھتے ہوئے مسکرا کے اسے جواب دینے لگا ۔

آبھی تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کے حیدر نے ایک ریسٹورنٹ کے سامنے گاڑھی روکھی ۔
عمل بغیر کچھ بولے گاڑھی سے اترنے لگی ۔اسے پتہ تھا کے بارش میں حیدر کو بھوک لگتی ہے ۔

حیدر عمل کے ماموں شفیق اور اسکی ممانی شگفتہ کا بیٹا تھا ۔فلک مالک کے گھر حیدر بہت آتا جاتا تھا ۔اور ان کے باہر کے سارے کام بھی یہی کرتا تھا ۔

ابھی پیزا کا انتظار ہی کر رہے تھے کے ایک خوبصورت لڑکی وہاں آگئی حیدر کے سامنے کڑھی ہو کے غصے کی نظروں سے عمل کو دیکھنے لگی ۔حیدر نے اسے سائیڈ پے لیں جا کے نا جانے کیا کہاں کے وہ وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔!!

ہادی یہ ۔۔۔۔۔؟؟
عمل ابھی پوچھنے ہی لگی تھی کہ اتنے میں ویٹر پیزا لایا ۔
چلو پیزا کھاؤ حیدر بات کو گماتے ہوئے پیزا کھانے لگا ۔۔۔عمل اسے شکی نظرو سے دیکھی جا رہی تھی ۔۔۔!!

یار دوست ہے ۔۔۔حیدر پانی پیتے ہوئے عمل کو بتانے لگا ۔
اوہ اچھا پر بہت خوبصورت ہے آپ کہو تو میں ممانی سے بات کروں ۔اسے شادی کرا دیتے ہیں آپ کی ۔۔۔!!

ارے پاگل تھوڑی ہوں. جو اس سے شادی کرونگا ۔حیدر اس کی بچوں والی بات سن کے مسکرا کے جواب دینے لگا ۔

تو پھر اس سے دوستی کیوں عمل حیران نظرو سے آب بھی اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔؟؟؟

اچھا عمل میری ایک بات کا جواب دو ۔زندگی میں انسان سب سے زیادہ پیار کس سے کرتا ہے ۔۔سب سے زیادہ پروا کس کی کرتا ہے؟؟؟ حیدر ایک لمبھی آہ بڑھ کے آب عمل سے پوچھنے لگا ۔۔۔۔!!

اپنی فیملی سے ۔۔جس پر عمل نے سوچیں بغیر بلکل سہی جواب دیا ۔۔۔۔۔!!

اوکے اور پھر تمھیں کیا لگتا ہے ۔۔۔میں ایسی لڑکی سے شادی کرونگا ۔جو اپنی فیملی سے پیار نا کرتی ہو ۔اگر وہ اپنی فیملی سے پیار کرتی ۔کیا وہ مجھے پک دیتی کیا وہ مجھ سے فون پے باتیں کرتی یا کیا وہ مجھ سے ملتی ۔جو لڑکی فیملی کا ٹرسٹ تھوڑ سکتی ہے میں کیسے مان جاؤں کے وہ میرا ٹرسٹ نہیں تھوڑیگی ۔جو فیملی کی نہ ہوئی وہ میری کیسے ہوگی ؟

اس کی بات سن کے عمل ایک لمحے کے لئے بلکل کھو سی گئی اس کی باتوں میں ۔۔۔۔

پیزا ختم ہو گیا گھر چلے آب ۔۔۔عمل کو کہی کچھ سوچتے ہوئے دیکھ کر حیدر عمل سے مخاطب ہوا ۔۔۔

تو عمل نے سر کے اشارے سے ہاں کہتے ہوئے اٹھنے لگی ۔۔۔۔۔

آپی چائے آگر بن گئی ہے تو جلدی سے باہر لیکے جائے ججو جی انتظار کر رہے ہیں ۔

انعم شرارت کرتے ہوئے ماہی کو تنگ کرنے لگی ۔

آج ماہی کی شادی کی ڈیٹ فکس ہونی تھی اسلئے آج وہ کچھ شرما رہی تھی ۔سب کو چائے دینے کے بعد ماہی احمد کو چائے دینے لگی تو ماہی کے ہاتھ کمپنے لگے ۔آگر احمد دوسرے ہاتھ سے کپ نہ پکڑتا تو آج چائے اس پے گر جانی تھی ۔

بارش کے بعد آبھی بھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ۔
رات کے دس بج رہے تھے ۔کے عمل کے موبائل پے مریم کی کال آگئی ۔۔۔عمل بک کو بند کر کے مریم کی کال آٹینڈ کرنے لگی ۔ تو مریم کو روتے ہوئے دیکھ کے عمل گھبرا گئی

کیا ہوا مریم ۔۔۔؟؟؟؟؟

میرے گھر والے میری شادی میرے کزن زین سے کر رہے ہیں ۔جب کے تم جانتی ہو میں حارس کو پسند کرتی ہوں ۔کچھ دیر رونے کہ بعد مریم اسے بتانے لگی ۔

اس کی بات سن کے عمل اسے پیار سے سمجھا نے لگی ۔

کبھی کبھی ہماری بہت زیادہ چاہت دوسرے انسان کے لیئے گھٹن بن جاتی ہے ہم جب کسی کو خود سے بڑھ کر چاہنے لگتے ہیں ہر وقت اسی کو سوچتے رہتے ہیں اور ہر وقت اسی کو میسر ہوتے ہیں تو ہم اپنی وقعت کھو دیتے ہیں کیونکہ محبت کا مان رکھنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی اس لیئے کسی کو اتنی اہمیت بھی نہ دیں کہ اپنی کوئی اہمیت ہی نہ رہے ہمارا ہر وقت لوگوں کو میسر ہونا ہمیں خاص سے عام کر دیتا ہے۔

"رابطے اتنے ہی رکھو جتنے تکلیف نہ دیں"

پر عمل میں۔۔۔؟؟ بات مکمل کئے بغیر مریم چپ ہو گئی ۔۔۔۔؟؟

میری جان سنو ۔۔۔!! عمل آب اسے پہلے سے بھی زیادہ نرم لہجے سے سمجھانے لگی ۔

جب تُم اْسے قبول نہیں کرو گے، جِس کا رُخ تُمھاری طرف ھے....اور بھاگ اُس کی طرف رھے ہو، جِس کی پُشت تُمھاری طرف ھے..."تھکن تو ہوگی ہی"! یاد رکھو جو تُمھاری طرف آتا ھے وہ بھیجا گیا ھے، اور جو تُم سے دور جائے وہ تُم سے ہٹایا گیا ھے...بس تُم اُسکو قبول نہیں کر پاتے...

چلو بکی بات کالج میں ہوگی ماہی کو روم میں آتے ہوئے دیکھ کے عمل فون بند کرنے لگی ۔
شاید وہ ماہی کے سامنے یہ بات نہیں کرنا چاہتی تھی ۔

مریم بھی آب پہلے سے اچھا محسوس کر رہی تھی ۔عمل کی باتوں سے اسے بہت حوصلہ ملا ۔

مریم عمل کی کالج کی دوست تھی۔پر مریم بہت لا پروا سی لڑکی تھی۔ ہر کسی پے جلدی ٹرسٹ کرنا ۔ہر کسی کے ساتھ فری ہونا ۔حارس آرمی میں تھا مریم سے اس کا رابطہ تھا ۔مریم بے حد بیوقوف تھی اس کی ہر بات پے یکین کرتی تھی ۔اور ایسے لوگوں کو پھر زندگی بہت سبق دیتی ہے ۔۔۔۔!!

( استاد سبق دیکھیں امتحان لیتا ہے اور زندگی امتحان لیکے سبق دیتی ہے )

Aiman Shah Bangash
About the Author: Aiman Shah Bangash Read More Articles by Aiman Shah Bangash: 4 Articles with 7956 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.