عجب تماشہ ھے اس دنیائے فانی میں یوں حالات جیسے ابھی سے
قیامت کا منظر پیش کر رھیں ھیں ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ھےنادان انسان اس
دنیا کو ھمیشگی زندگی سمجھ کر اس کے لیے سامان کر رھا ھے ہر طرف چیخ و پکار
ہونے کے بوجود عجب سا سناٹا دلوں کو ہولائے دیتا ہے دل ویران اور مردہ ھیں
دولت کی ہوس نے آنکھوں کی روشی کو وحشت میں بدل دیا ہے ویران آنکھوں اور
مردہ دل کے ساتھ دولت کے انبار لگا کے بظاھر نادان انسان اپنے لیے خوشیوں
کا سامان کر رھا ہے دولت کی ہوس نے انسان کی حسیات کو مردہ کر دیا ہے بھائ
بھائ کا دشمن ھے خونی رشتے ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ھیں سمات میں آواز
پڑتی ھے بھا ئ نے جائداد کے تنازئے پر بھائ کو قتل کر دیا کسی ناہنجار
اولاد نے دولت کے لیے باپ کو ابدی نیند سلا دیا مولانا رومی سے کسی نے
پوچھا زھر کیا ھے جواب دیا ۔ہر وہ چیز جو ھماری ضرورت سے زیادہ ھے زھر
ھےجیسےقوت،اقدار،دولت،بھوک،لالچ محبت،نفرت۔ ہائے یہ ناسمجھ انسان خود اپنے
لیے تباہی کا سامان کر رھا ھےیہ گردش ایام کو بھول کر خواب خرگوش میں ہے
کتنے ھی اہل سروت آئے کتنے ھی فلسفی بادشاہ اہل دانش اپنے قدموں کے نشان
چھوڑ کرابدی نیند سو گئےزرا انتظار کر اے انسان جب تو بھی آنے والی نسلوں
کے لیے قصہ پارینہ بن چکا ھو گا ۔کسی نے کیا خوب کہا ھے 👈بخت سے کوئ شکایت
نا افلاک سے ھے👈یھی کیا کم ھے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ھے۔
|