حکیم صفدر علی وارثی : صاحب جلوائے وارث

حکیم صفدر علی وارثی صفا بہرائچ کے مشہور و معروف حکیم تھے اور حضرت حاجی وارث علی شاہب کے مرید اور پہلے سوانح نگار تھے۔

ہندو نیپال سرحد پرکوہستان ہمالیہ کی مینوسوادوادی میں آباد ایک چھوٹا سا ضلع بہرائچ علاقہ اودھ کا ایک تاریخی علاقہ ہے جسے سلطان الشہدا فی الہند حضرت سید سالار مسعود غازی ؒکا جائے شہادت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ بہرائچ زمانہ قدیم سے علم کا مرکز رہا ہے ۔دریائے گھاگھرا کے کنارے صوبہ اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ سے۱۲۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع بہرائچ صوبہ و خطہ اودھ کا تاریخی ضلع اور شہر ہے۔ضلع بہرائچ کو اگر جغرافیائی نقط نظر سے دیکھا جائے تو یہ اتر پردیش کا ایک ایسا ضلع ہے جو نیپال کی سرحد پر اور ہمالیہ کی گود میں بسا ہوا ہے۔ویسے تو یہ ضلع ترقیاتی نقطئہ ونظر سے کافی پسماندہ ہے لیکن قدرتی دولت سے مالامال بھی ہے ۔بہرائچ کی تاریخ میں کیا اہمیت ہے ،یہ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سابق ناظم ندوۃ العلما ء لکھنؤ کے ان الفاظ سے سمجھی جا سکتی ہیں جو انہوں نے۱۷اور۱۸؍ اپریل ۱۹۸۲ء میں منعقد ہوئی پانچویں صوبائی دینی تعلیمی کانفرنس بہرائچ میں خطبئہ صدارت میں کہی تھیں۔ جو یہاں نقل ہے:
’’انسانی فیصلہ کی طاقت اور کرامت کی ایسی مثالیں ہیں ،جن کا باور کرنا مشکل ہے،اس کی ایک شہادت آپ کا شہر(بہرائچ) پیش کرتا ہے کہ خدا کا ایک بندہ(سید سالار مسعود غازیؒ)غزنی افغانستان سے رفقاء کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ساتھ اس ملک میں جو ایک تحتی برا عظم ہے،داخل ہوتا ہے،وہ توحید کا پیغام پہنچانے اور انسانوں کو انسانیت کا سبق سکھانے کے لئے سر ہتھیلی پر رکھ کر آئے ،عقل کا فیصلہ صریحاً اس کے خلاف تھا،کوئی آدمی صحیح الحواس ہونے کے ساتھ اس کی ہمت نہیں کر سکتا تھا کہ اتنے لمبے چوڑے ملک میں ساتھیو ں کی اتنی تھوڑی تعداد کے ساتھ قدم رکھے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب سفر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل و حرکت کی یہ آسانیاں نہیں تھیں،لیکن وہ اس دور دراز مقام سے منزلوں پر منزلیں طے کرتا ہوا ،راستہ میں اپنے سفر کی نشانیاں چھوڑتا ہوا اس خطہ میں آکر اپنے کام کو ختم کر دیتا ہے یا اس سے اس کام کو ختم کر ا دیا جاتا ہے۔آج وہ یہاں آسود ئہ خاک ہے،ایک فر د کے فیصلہ کی طاقت کا یہ ایسا روشن ثبوت ہے جس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی۔‘‘
بہرائچ سلسلہ سہروردیہ کے مشہور بزرگ حضرت سید امیرماہ ؒبہرائچی صاحب کی جائے پیدائش اور جائے وفات ہے۔مشہور بزرگ اور مختلف سلسلوں سے وابسطہ حضرت صدر جہاں سید اجمل شاہ ؒبہرائچی کی جائے وفات اور انکے خلیفہ مجاز و شاگرد رشید مخدوم سید بڈھن شاہؒ بہرائچی کی جائے پیدائش اور وفات کا بھی ہے۔شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کےجد امجد حضرت شیخ فیروز شہید ؒ کا مزاردریا سرجو کے کنارے یہیں واقع ہے۔ان کا ذکر اخبارالاخیار میں قدر ے تفصیل سے موجود ہے۔ اس کے علاوہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں شہیدؒدہلوی کے خلیفہ خاص’’معلولات مظہریہ‘‘ اور’’ بشارات مظہریہ ‘‘کے مصنف حضرت شاہ نعیم اللہؒ بہرائچی اور حضرت شاہ غلام علی ؒدہلوی کے خلیفہ خاص مولانا شاہ بشارت اللہ ؒ بہرائچی کا بھی جائے پیدائش اور جائے وفات یہی شہر ہے۔جہاں آپ تمام لوگوں کے مزارات مرجع خاص و عام ہیں۔آج بھی شاہ نعیم اللہ بہرائچی کا خاندان اپنی سابقہ روایات کے ساتھ بہرائچ میں موجود ہے۔بہرائچ ہی وہ شہر ہے جہاں سے مولانا شاہ نور محمدؒرسڑاوی ثم بہرائچی نے اپنی اصلاحی تحریک چلائی اور جہاں’’ اکلیل پریس ‘‘قائم کرکیا اپنے پیر ومرشد شیخ الدّلائل علامہ محمد عبد الحق مہاجر مکیؒ کی کتاب’’ مدارک التنزیل المطبوع علی الاکلیل علی مدارک التنزیل‘‘ المعروف ’’تفسیر اکلیل‘‘ جو سات جلدوں میں ہے ،اس کو شائع کیاتھا۔آپ کی یادگار کے طور پرقائم شدہ جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم شمالی ہندوستان کے مدارس میں اپنا منفرد مقام رکھتا ہے۔
اسی پاکیزہ کڑی میں بانی سلسلہ وارثیہ حضرت حاجی وارث علی شاہ ؒ کے اولین سوانح نگار حکیم صفدر علی وارثی کا بھی اہم مقام تھا۔آپ حضرت حاجی وارث علی شاہ ؒ کےعزیزوں میں سے تھے۔آپ کو حاجی صاحب سے خلافت بھی حاصل تھی۔ حضرت حاجی صاحبؒ اکثر و بیشتر بہرائچ آیا کرتے تھے،حاجی صاحب ؒکا بہرائچ سے بہت ہی گہرا تعلق تھا۔آپ کے مریدین کی ایک بڑی تعداد بہرائچ میں پائی جاتی تھی۔ حضرت حاجی وارث علی شاہؒ بہرائچ آنے پر راقم کے قدیم آبائی مکان واقع چوک بازار بہرائچ میں قیام فرماتے تھے ۔اس کے علاوہ حکیم صفدر علی وارثی کے یہاں بھی قیام فرماتے تھے۔خانوادے وارثیہ کا بہرائچ سے بہت گہرا تعلق ہے۔حضرت حاجی وارث علی شاہؒ کی وفات کے بعد آپ کی درگاہ کے پہلے سجادہ نشین حضرت سید ابراہیم شاہؒ ہوئے۔سید ابراہیم شاہؒ کی وفات کے بعد دوسرے سجادہ نشین سید علی احمد شاہ عرف کلن میاں نواسہ حقیقی مولانا سید محمد ابراہیم شاہ ؒ ہوئے ۔ سید محمد ابراہیم شاہؒکی ایک صاحبزادی کا نام سیدہ رسول باندی تھا انکے صاحبزادے حکیم محمدعبدالمغنی ؒ۔ سجادہ نشینی کو ہوئے لڑائی جھگڑے کی وجہ سے اس گدی سے الگ ہو گئے اورحکیم عبد لمغنی کی والدہ نے دیوہ شریف ضلع بارہ بنکی سے ہجرت کرکے شہر بہرائچ میں سکونیت اخیتار کی۔مشہور حکیم محمد عبدالمغنی ؒصاحب مرحوم ،اپنے وقت کے مشہور تاجر اور حکیم تھے۔محمد عبدالمغنی ؒ کے صاحبزادےڈاکٹر مولوی سید محی الدین صاحب نقشبندیؒ خانوادہ حاجی وارث علی شاہ ؒکی نسل آج بھی شہر بہرائچ میں محلہ قاضی پورہ ، بڑی ہاٹ اور درگاہ شریف محلوں میں موجود ہیں۔ مشہور حکیم صفدر علی وارثی مہاجن صفاؔ نےاپنی کتاب ’’جلوائے وارث‘‘ میں حاجی وارث علی ؒ کے شجرہ نسب جو آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ کے جدمحترم حضرت عبد مناف سے شروع ہوتا ہے اور حضرت حاجی وارث علی شاہؒ کے سجادہ اول حضرت ابراہیم شاہ صاحب کی صاحبزادی رسول باندی کے صاحبزادے حکیم محمد عبد المغنیؒ تک آتا ہے۔حکیم مغنیؒصاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر مولوی محی الدین ؒصاحب تھے جو اپنے وقت کے مشہور تاجر تھے۔آپ ہمارے دادا حاجی نور احمد صاحب چونے والے کے عزیز دوست اور تجارت کے ساتھی تھے۔
حکیم صفدر علی وارثیؒ تخلص صفاؔ ؔ کی پیدائش ۰ ۸۴ء میں صوبہ اودھ کے ضلع بارہ بنکی کے موضع گدیا کے ایک زمیندار خاندان میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام شیخ سعادت علی تھا۔ حکیم صفدر علی وارثی مشہور صوفی بزرگ حاجی وارث علی شاہ ؒکے مرید اور خلیفہ تھے۔ حاجی وارث علی شاہ ؒنے آپ کو ’’حکیم مہاجن ‘‘ کا لقب دیا تھا۔آپ حکیم خاذق کے نام سے پورے ضلع بہرائچ میں مشہور تھے۔آپ نے حاجی وارث علی ؒکی حیات پر ایک کتاب’’ جلوائے وارث‘‘ کے نام سے لکھی تھی جو اب نایاب ہے، یہ کتاب جون ۱۹۳۱ء میں بہرائچ کے تاریخی مطبع ’’ اکلیل پریس بہرائچ ‘‘سے مولانا الحاج محمد احسان الحق(اولین مہتمم جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ) کے زیر اہتمام شائع ہوئی تھی جو ۲۷۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب درگاہ حضرت سید سالار مسعود غازیؒ کے کتب خانہ ’’سالار لائبریری‘‘میں موجود ہے۔حاجی وارث علیؒ صاحب کے حکم سے آپ ۱۹۱۰ء کی دہائی میں بارہ بنکی سے شہر بہرائچ کو منتقل ہوئے اور یہیں سکونت اختیار کی۔ حاجی وارث علی شاہ ؒ آپ کی زندگی میں کئی بار بہرائچ تشریف لائے اور آپ کے گھر پر قیام کیا۔شروع میں آپ کی طبابت نہیں چلی تو بد دل ہو کر نیپال میں طبابت کرنے کا ارداہ کیا اور اپنے والد سے اجازت حاصل کرنے کے لئے اپنے ایک ملازم کو خظ دے کروالد بزرگوار کے پاس گدیا (بارہ بنکی) روانہ کر دیا۔
عبرتؔ بہرائچی صاحب لکھتے ہیں کہ خط میں غالباً خوردونوش کا سامان طلب کیا تھا،ملازم وہاں سے بغیر سامان صرف مکتوب کا جواب لے کر واپس آگیا ،اور خط حکیم صاحب کو لاکر دے دیا۔ حکیم صاحب نے ملازم سے دریافت کیا اور کوئی سامان نہیں لائے ،اس نے جواب دیاکہ آپ کے والد صاحب نے ایک خط دیا ہے ،فوراً خط کھولا تو خط میں یہ لکھا ہوا پایا’’جہاں چاہو وہاں جاؤ لیکن کوئی سامان نہیں ملے گا،اس سلسلہ میں میر اصرف یہی حکم ہے کہ جب نیپال میں داخل ہونا تو یہ کہناکہ ’’اے نیپال کے خدا! مجھے رزق عطا کر ،کیونکہ بہرائچ کے خدا رزق دینے سے قاصر ہے‘‘خط پڑھتے ہی حکیم صاحب سکتہ میں آگئے اور نیپال جانے کا ارادہ ترک کردیااور بہرائچ ہی میں طبابت کرنے کا پکا عزم و ارادہ کر لیا۔اس دن سے مریضوں کا تانتا بندھ گیا اور تا دم آخر یہ سلسلہ جاری و ساری رہا۔ حکیم صاحب نہایت غریب پرور ،خوش اخلاق،خوش اطوار،خوش نشیں اور نستعلیق گو تھے۔آپ کو لوگ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور چاہتے تھے۔
آپ کی حکمت کی خاص بات یہ تھی کہ آپ کی دوا کی قیمت ۲؍پیسے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔مریض کو شفا صرف ایک ہی خوراک میں ہو جاتی تھی۔آپ کا ایک واقعہ بہت دلچسپ ہے ایک بار ایک دہاتی مریض آپ کے مطب پر آیا اس کو دوا کا نسخہ لکھ دیا اور کہا کی دوا کو لے جا کراْبال لینا اور چھاں کر صبح اور شام پینا۔ لیکن وہ مریض بازار سے دوا لینے کے نسخہ ہی صبح اور شام چھاں کر پینے لگا اور دوبارہ جب حکیم صاحب کے پاس آیا تو نسخے کے تمام تکڑے دامن میں باندھ لایا اور حکیم صاحب سے کہا کہ بڑی مشکل سے بس اتنا بچا ہے۔ حکیم جی نے مریض سے کہا کی اب حال بتاؤ کیسا ہے تو اس مریض نے کہا کی روپیے میں بارہ آنے فائدہ ہے اور چار آنہ رہ گیا ہے۔ تب حکیم صاحب نے اس مریض کو دوسرا نسخہ دیا اور تاکید کی کی عبد الرحمن عطار کی دکان سے دوا لے لینا۔ تب اس مریض نے اس دوا کو استعمال کیا اور جو چار آنے بھر باقی تھا وہ بھی شفایابی اس مریض کو ہو گئی۔(یہ واقعہ آپ کے بھائی کے پسرزادے اور مشہور شاعر جناب اظہار ؔ وارثی مرحوم نے راقم کو بتایا تھا۔)
حکیم صفدر علی وارثی کا انتقال میں۱۲۲سال کی عمر۱۹۵۲ء میں شہر بہرائچ میں ہوا اور آپ کی تدفین محلہ براہمنی پورہ شہر بہرائچ میں واقع رہائش گاہ کےباہری کمرے میں ہوئی جہاں آپ مریضوں کو دیکھتے تھے اور لوگوں سے ملاقات کرتے تھے۔آپ شہربہرائچ کے مشہور شاعروں حکیم محمد اظہر وارثی اظہر ؔ بہرائچی کے چچاتھے اور اظہارؔوارثی صاحب کے چھوٹے دادا تھے۔

غزل در مدح تاریخ یکم صفر المظفر یعنی تاریخ وفات
حسرت آیات حضرت سلطان الاولیا حاجی وارث علی شاہؒ
نظارہ کرتا رہتاہوں ہر اک تاریخ پہلی کا
ثناخواں میں ہمیشہ رہتاہوں تاریخ پہلی کا

مرے شاہنشہ والا کی آمد ہوتی ہے ان دن
کہ جس دن چاند ہوتا ہے مری تاریخ پہلی کا
مرے آقا ہوے واصل خدا سے چاند جب نکلا صفر تھا دن جمعہ کا تھا سفر تاریخ پہلی کا

مہاجن ؔہوں میں آقا کا غلام آزاد ہوں ان کا
بنایا مہتمم مجھ کو اسی تاریخ پہلی کا

بنایا ہے مکاں کہتے جسے منزل ہی وارث کا

بچھا فرش مصفا منتظر تاریخ پہلی کا


سبھی یاںاصفیاء و اتقیاں تشریف لاتے ہیں

محمد مصطفیٰؐ اور اہل بیت اصحاب سب انکے
ہوں خادم پیشواؤں کا اسی تاریخ پہلی کا

قدم رنجہ ہیں فرماتے جو دن تاریخ پہلی کا


ثنا خوانی کو عالِم اور سب قوال آتے ہیں
ثنا خواں میں بھی ہو جاتا ہوں اس تاریخ پہلی کا

ثنا خوانی کے بعد اطعام کی تقسیم ہوتی ہے

محبت کا یہ ثمرہ ہے اسی تاریخ پہلی کا


ہوا فضل خدا مجھ پر مرا ایماں رہا قائم

کہ میری روح میں تذکرہ تاریخ پہلی کا

ہزاروں عید کو کر دوں میں اسپہ ہر لحظہ
سما جو دل میں میرے آ گیا تاریخ پہلی کا

صفاؔ تو جان و دل کر دے فدا تاریخ پہلی پر

کہ تیرے پیر کا ہے وصل اس تاریخ پہلی کا

٭٭٭
یہ سحر ہے کہ میں دیوانہ ہوں

شمع بے رویاں کا کیوں پروانہ ہوں

کچھ تو کہ اے عشق اب میں کیا کروں

جان دوں یا جگر کا خوں کروں

سر کو رکھ اپنے بہ پائے نازنیں

رہ رضائے دوست پر اے دل حزیں

رکھ قدم اپنا بہ تسلیم و رضا

چارہ اس میں کچھ نہیں ہے اے صفاؔ



نوحہ در فراق حضرت سلطان اولیا حاجی وارث علی شاہؒ
اے وارثِ جاں کدھر گیا تو
کیوں در فراق دے گیا تو

یاں چھوڑ کے مجھکو جو گیا تو
اللہ سے جاکے مل گیا تو

رفتی و مرا خبر نہ کردی
بر بیکسیم نظر نہ کر دی

وارث تری شان ہی جدائی
کیوں کر ہو فراق سے رہائی

وہ کون سی بستی ہے بسائی
جسجا نہیں ہوتی ہے رسائی

رفتی و مرا خبر نہ کردی
بر بیکسیم نظر نہ کر دی

کیوں مجھے طبیعت اپنی موڑی الفت جو ازل کی تھی وہ توڑی


منجھار میں ناؤ میری بوری
کیوں چھپ گئے مجھ چوری چوری

رفتی و مرا خبر نہ کردی
بر بیکسیم نظر نہ کر دی

ڈھونڈھا کروں آپ کو میں کب تک
پھرتا رہوں در بدر میں کب تک


در فرقت سہوں میں کب تک
روتا رہوں واثا میں کب تک

رفتی و مرا خبر نہ کردی
بر بیکسیم نظر نہ کر دی

بڑھتی رہے یوں ہی بیقراری
کرتا رہے یوں ہی آہ و غاری

وارثِ مِرے لو خبر ہماری
ہے تیر لگا جگر میں کاری

رفتی و مرا خبر نہ کردی
بر بیکسیم نظر نہ کر دی

صبر اے وارث مرے عطا کر
شاکر ہے صفاؔ تری رضا پر

صابر ہوا اپنے رہنما پر
فانی ہوا ذات مصطفیٰؐ پر

رفتی و مرا خبر نہ کردی

بر بیکسیم نظر نہ کر دی


٭٭٭

Juned Ahmad Noor
About the Author: Juned Ahmad Noor Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.