آن لائن کلاسز: بچوں کو دن میں کتنی دیر سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ استعمال کرنے چاہئیں

image
 
میرے بچے کو اینٹی گلیئر چشمہ لگانا چاہیے یا نہیں؟
میرے بچے کی آنکھوں میں لالی اور جلن رہتی ہے۔
آج کل بچے کو سر درد ہے۔
 
یہ چند ایسی باتیں ہیں جن کا ان دنوں زیادہ تر والدین کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بچوں کی آن لائن کلاسز کی وجہ سے موبائل اور لیپ ٹاپ کا استعمال بڑھ گیا ہے اور بچے سکرین پر زیادہ وقت گزار رہے ہیں۔ اس سے ان کی جسمانی اور دماغی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
 
انڈین دارالحکومت دہلی کی رہائشی شرمیلا کی بیٹی آیوشی چھٹی جماعت میں پڑھتی ہیں۔
 
آن لائن کلاسز شروع ہونے کے بعد ان کی بیٹی صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھی رہتی تھی۔ اس کی وجہ سے آیوشی کو کندھے، پیٹھ اور آنکھوں میں تکلیف ہونے لگی ہے۔
 
شرمیلا کہتی ہیں: 'جس فون اور لیپ ٹاپ پر ہم بچوں کو روکتے تھے، اب انھیں خود ہی دینا پڑ رہا ہے۔ میری بیٹی کی تین یا چار کلاسز ہیں۔ وہ کلاس کے دوران کرسی پر بیٹھ جاتی تھی۔ اس کے بعد بستر پر لیٹ کر یا بیٹھ کر وہ لیپ ٹاپ چلاتی ہے۔ جب کلاس ختم ہوجاتی ہے تو لیپ ٹاپ پر ہی کچھ دیکھنے لگتی ہے۔ اس سے جون میں میری بیٹی کی کمر، کندھوں اور آنکھوں میں درد اور تھکاوٹ رہنے لگی تھی۔ پھر مجھے اس کے معمول میں تبدیلی لانا پڑی۔
 
image
 
حکومت بھی سنجیدہ ہوئی ہے؟
انسانی وسائل اور ترقی (ایچ آر ڈی) کی وزارت نے بچوں پر ڈیجیٹل پڑھائی کے جسمانی اور ذہنی اثرات کو دیکھتے ہوئے 'پراگاتا' نامی ڈیجیٹل تعلیم سے متعلق ہدایات جاری کی ہیں۔
 
اس میں آن لائن کلاسز کی تعداد اور وقت کو محدود کرنے کی تجاویز ہیں۔
 
پری پرائمری - والدین کے ساتھ بات چیت اور رہنمائی کے لیے 30 منٹ کا سیشن۔
پہلی سے آٹھویں جماعت - ہر دن 30 سے 45 منٹ کی دو کلاسز۔
نویں سے بارہویں - ہر دن 30 سے 45 منٹ کی چار کلاسز۔
 
اس میں بچوں کے لیے جسمانی سرگرمی اور انٹرنیٹ کے استعمال سے متعلق مشورے بھی دیئے گئے ہیں۔ نیز ان نئے حالات میں والدین کے لیے ایڈجسٹ کرنے کے طریقے بھی تجویز کیے گئے ہیں۔
 
وقتاً فوقتاً وقفہ لینے، آف لائن گیمز کھیلنے اور والدین کی نگرانی میں کلاسز لینے کی تجویز دی گئی ہے۔
 
بچوں کے سکرین ٹائم میں اضافے کے بارے میں تشویش کا اظہار پہلے بھی کیا گیا ہے۔ لیکن اب وزارت کی ہدایت کے سبب اس پر بحث میں اضافہ ہوا ہے۔
 
ایسی صورتحال میں ہم جانتے ہیں کہ سکرین ٹائم کو محدود کرنا کیوں ضروری ہے اور آن لائن کلاسز کے دوران کون سی دوسری چیزوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
 
image
 
سکرین ٹائم کیا ہوتا ہے؟
سکرین ٹائم سے مراد موبائل، ٹی وی، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس جیسے گیجٹ کا 24 گھنٹے کے دوران استعمال کہ بچہ ان پر اس عرصے میں کتنے گھنٹے گزارتا ہے۔
 
امیریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹریکس نے بچوں کے سکرین ٹائم کے حوالے سے کچھ رہنما اصول جاری کیے ہیں جس کے مطابق:
 
18 ماہ سے کم عمر کے بچوں کو سکرین استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
 
والدین کو چاہیے کہ وہ 18 سے 24 ماہ کے بچے کو اعلیٰ معیار کے پروگرام دکھائیں۔
 
دو سے پانچ سال تک کے بچوں کو ایک گھنٹے سے زیادہ سکرین استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
 
چھ سال یا اس سے زیادہ عمر کے بچوں کے پاس سکرین دیکھنے کا محدود وقت ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچے کے پاس سونے، جسمانی سرگرمی اور دیگر اہم کاموں کے لیے کافی وقت ہے۔
 
تاہم اس وقت صورتحال مختلف ہے۔ کلاسز کے علاوہ، بچے اسائنمنٹ، تحقیق اور تفریح کے لیے موبائل اور لیپ ٹاپ کا استعمال بھی کر رہے ہیں۔ اس سے ان کے سکرین ٹائم میں اور بہت اضافہ ہوا ہے۔
 
image
 
بچوں پر سکرین ٹائم کے اثرات
دہلی سے ملحق گڑگاؤں کے فورٹیس ہسپتال میں شعبہ چشم کی ڈائریکٹر ڈاکٹر انیتا سیٹھی کا کہنا ہے کہ آج کل بہت سے والدین ان سے اینٹی گلیئر عینک اور آنکھوں کی پریشانیوں کے بارے میں صلاح لے رہے ہیں۔
 
ایسی صورتحال میں سکرین کا وقت کم کرنا ایک اچھا فیصلہ ہے۔ زیادہ سکرین دیکھنا بچوں میں بہت سی پریشانیوں کا سبب بنتا ہے، مثلا:
 
کبھی کبھی سر درد
ٹی وی یا لیپ ٹاپ کی سکرین کے قریب جانا یا آنکھیں چھوٹی کرکے دیکھنا
آنکھوں میں سرخی
سوکھے پن سے آنکھوں میں جلن
آنکھوں میں جلن
نظر کی کمزوری۔ پہلے سے جنھیں عینک لگی ہے ان کا نمبر بڑھ سکتا ہے
 
image
 
لیکن ڈاکٹر انیتا کے مطابق اس کے ساتھ کچھ دوسری چیزوں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ اسی صورت سکرین ٹائم کو کم کرنے کا فائدہ ہوگا۔ یہ چیزیں ہیں:
 
بیٹھنے کی پوزیشن - لیپ ٹاپ یا فون لیٹ کر نہ دیکھیں، کرسی اور ٹیبل استعمال کریں۔ لیپ ٹاپ یا فون آپ کی آنکھوں کی سطح پر ہونا چاہیے۔ سکرین کو 33 سینٹی میٹر کے فاصلے پر رکھیں۔ موبائل اور لیپ ٹاپ سکرینوں کے اثر میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ دونوں کو سٹینڈ پر رکھیں تاکہ آنکھوں کی بلندی پر رہیں۔
 
روشنی - کئی بار بچے صرف تاریک کمرے میں لیپ ٹاپ یا فون کی روشنی میں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے میں یہ یقینی بنائیں کہ کمرے میں کافی روشنی ہو۔
 
وقفے لیتے رہیں - بڑے بچوں کو کلاسز کے علاوہ بھی تعلیم کے لیے موبائل اور لیپ ٹاپ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال میں چھوٹے اور بڑے سارے بچے بیچ میں وقفہ لیتے رہیں۔ پلکیں جھپکائیں اور دور کچھ تلاش کریں۔ اس سے آنکھوں کے پٹھوں کو راحت ملتی ہے۔
 
اینٹی گلیئر عینک - جو بچے زیادہ سکرین دیکھتے ہیں وہ اینٹی گلیئر شیشے استعمال کریں۔ لیکن یہ بالکل نہ سوچیں کہ اس شیشے کو استعمال کرنے کے بعد آپ سکرین کو جتنا چاہیں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تحفظ کا ایک طریقہ ہے لیکن سکرین کے محدود وقت کے ساتھ۔
 
ڈاکٹر انیتا کا کہنا ہے کہ اگر آپ بیٹھنے کے طریقے پر توجہ نہیں دیں گے تو کمر، گردن اور کندھوں میں درد ہوسکتا ہے۔ جسمانی سرگرمی کی کمی سے وزن میں اضافے ہو سکتا ہے۔
 
image
 
بچوں پر ذہنی اثرات
سکرین ٹائم میں اضافے کے ذہنی اثرات کے متعلق صفدر جنگ ہسپتال میں ماہر نفسیات ڈاکٹر پنکج کمار کا کہنا ہے 'تحقیق کے مطابق اگر بچے یا نو عمر چھ یا سات گھنٹے سے زیادہ سکرین پر رہیں تو ان پر نفسیاتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس سے خود پر قابو پانے، تجسس کا فقدان، جذباتی استحکام کا فقدان، توجہ مرکوز کرنے میں کمی اور آسانی سے دوست بنانے کے قابل نہ ہونا جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
 
'تاہم یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ وہ سکرین پر کیا دیکھ رہے ہیں، فلمیں، ویڈیوز، گیمز، سوشل میڈیا دیکھ رہے ہیں یا کچھ پڑھ رہے ہیں۔ ان کا اثر ایک بچے سے دوسرے بچے میں بھی مختلف ہوسکتا ہے۔'
 
موبائل اور لیپ ٹاپ کے زیادہ استعمال سے بچوں کی عادت بھی بدل رہی ہے۔ تعلیمی ویڈیو اور واٹس ایپ پر گفتگو میں ان کی سرگرمی بڑھ گئی ہے۔
 
شرمیلا کا کہنا ہے کہ 'ان کی بیٹی نے بغیر بتائے بچوں کے بہت سے یوٹیوب چینلز سبسکرائب کر لیے اور ویڈیو دیکھنا شروع کر دیا۔ اس نے ايئر فون کی ضد بھی کی جس کی وجہ سے اسے اونچا سننے کی عادت ہو گئی۔ لیکن پھر میں نے سپیکر پر بات سننے پر اصرار کیا۔ اس نے اپنا معمول تبدیل کیا اور یوگا اور سائیکلنگ شروع کی۔ نیز میں نے سکول میں ایک واٹس ایپ گروپ بنانے کی درخواست کی۔ ان سب سے آیوشی کو بہت فائدہ ہوا۔'
 
فون اور لیپ ٹاپ کی عادت کے بارے میں ڈاکٹر پنکج کمار کہتے ہیں کہ بعد میں یہ عادت ایک بہت بڑا مسئلہ بن سکتی ہے۔ جب سکول شروع ہوتے ہیں تو انھیں اپنی عادت بدلنی پڑسکتی ہے۔ عام طور پر بچے اور خاص طور پر ڈپریشن، معاشرتی اضطراب یا ہائپرایکٹو ڈس آرڈر میں مبتلا بچے سکرین کی طرف زیادہ راغب ہوتے ہیں۔ جو بچے معاشرتی اضطراب کا شکار ہیں وہ سوشل میڈیا پر لوگوں سے رابطہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہاں کوئی آپ کو نہیں دیکھ سکتا ہے۔
 
image
 
ان چیزوں کا خیال رکھیں
کمپیوٹر کو ایسی جگہ رکھو جہاں والدین دیکھ سکیں کہ بچہ کیا کر رہا ہے۔ کوشش کریں کہ بچہ ائرفون کے بجائے سپیکر استعمال کرے۔
 
بچے واضح ہدایات کو زیادہ سمجھتے ہیں، جیسے کہ انھیں کب اور کب تک لیپ ٹاپ یا موبائل ملے گا۔ سکول کے کام کے علاوہ، فیصلہ کریں کہ سب سے پہلے لیپ ٹاپ یا موبائل دیکھنے کے کیا اصول ہوں گے۔
 
بچوں کو جسمانی سرگرمیوں جیسے ورزش، سائیکل چلنا یا چلنا اور دوڑنے والے کھیل کھلائیں۔
 
بہت ساری ایپس بتاتی ہیں کہ موبائل میں کس ایپ پر کتنا وقت خرچ ہوا ہے۔ اس سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بچہ زیادہ تر کیا دیکھ رہا ہے۔
 
بچوں کی صحت اور سلیبس
اس وقت سکولوں کے سامنے دوہرے چیلنج ہیں۔ ایک طرف انھیں بچوں کو پڑھانا ہے اور دوسری طرف انھیں ان کی صحت کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ایسی صورتحال میں سکول ان رہنما خطوط کو نہایت فائدہ مند سمجھ رہے ہیں۔
 
دہلی کے جہانگیر پوری میں واقع 'کے بلاک' میں قائم گورنمنٹ گرلز سینیئر سیکنڈری سکول کی سربراہ بیلا جین کا کہنا ہے 'سکرین ٹائم کو کم کرنے کی ضرورت دو تین وجوہات کی بناء پر تھی۔'
 
image
 
'پہلی، انھیں والدین کے فون آ رہے تھے کہ بچے فون اور لیپ ٹاپ کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا گھر کے لوگوں سے گھلنا ملنا کم ہو گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ بہت سارے بچے ایسے بھی ہیں جن کے بہن بھائی بھی سکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن ان کے گھر میں صرف ایک موبائل ہے۔ اب کم کلاسز کی مدد سے تمام بچوں کو کلاسز میں زیادہ مواقع میسر آئیں گے۔'
 
بیلا جین کا کہنا ہے کہ اس سے اساتذہ کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ ان کی سکرین ٹائم اور مصروفیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر وہ کم کلاسز دیتے ہیں تو وہ کلاسز کو بہتر بنانے پر سوچ سکیں گے۔
 
گریٹر نوئیڈا ویسٹ میں واقع سروتم انٹرنیشنل سکول کی ڈائریکٹر اور پرنسپل ڈاکٹر پریانکا مہتا کا کہنا ہے کہ ان رہنما اصولوں سے وضاحت ہوئی ہے۔ پہلے ہر کام کرنے کی کوشش میں ضرورت سے زیادہ یا کم کام ہو پا رہے تھے۔
 
لیکن نصاب کو مکمل کرنے کے چیلنجز سے سکول کیسے نپٹا سکیں گے؟ اس کے جواب میں ڈاکٹر پرینکانے کہا: 'ہر ایک کو سمجھنا ہوگا کہ اس مشکل وقت میں تعلیم کو جاری رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ ضروری چیزیں ضائع نہ ہوں۔ ہم گھر سے سکول نہیں چلا رہے ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمیں کس عمر کے بچے کو پڑھانا ہے اور والدین کے پاس گھر میں کتنی سہولیات ہیں۔‘
 
انہوں نے بتایا: 'سی بی ایس ای سکول میں پانچویں جماعت تک کے نصاب نجی سکول اپنے طور پر بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ متبادل کیلنڈر پر بھی عمل کرنے کو کہا گیا ہے۔ قومی نصاب کے فریم ورک میں بتایا گیا ہے کہ بچے کو کتنا علم ہونا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ کسی ٹاپک سے متلق 10-12 صفحات پڑھائے جائيں۔ اساتذہ مضمون کو مختصر کر کے بیان کرسکتے ہیں۔ اساتذہ بھی ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔'
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: