پولیس کی جعلی کارروائیاں اور نئے سی پی او کا عزم

 سٹی پولیس کے نئے سربراہ رائے بابر سعید اچھی شہرت کے مالک آفیسر ہیں جنہوں نے سی پی او کاچارج سنبھالتے ہی ماتحت افسران پر واضح کر دیا ہے کہ پولیس کی جعلی کارروائیاں انکے لئے قطعی ناقابل قبول ہیں اور یہ کہ وارداتوں کی ایف آئی آرکا فوری ا ندراج یقینی بنایا جائے، نئے سی پی او کے بارے میں حکومتی اور اپوزیشن راہنماؤں کی رائے اچھی اور ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہے اور مجموعی طور پر شہر کے تمام سٹیک ہولڈرز نے ان کو تہہ دل سے خوش آمدید کہا ہے، انہوں نے ذمہ داری سنبھالنے کے فوری بعد منشیات کے بڑے ڈیلرزاور رسہ گیروں کی گرفتاری کا بھی حکم دیا ہے جو کہ خوش آئند ہے عام طور پر اعلیٰ افسران کرائم ریٹ میں کمی دکھانے کے لئے ایف آئی آرز کے کم سے کم اندراج کا حکم دیتے ہیں جسکے نتیجے میں عوام اپنے ساتھ ہونے والی وارداتوں کی ایف آئی آردرج کرانے کے لئے چکر لگا ہے کہ انہیں اس با ت کا احساس ہے کہ پولیس میں کہاں کہاں خرابی موجود ہے ، درحقیقت اصلاح کا عمل ہی اعتراف سے شروع ہوتا ہے پولیس کے بارے ایک سینئر آفیسر کے اس اعتراف پر انہیں سراہا جانا چاہئے کہ وہ ایک ایسے روایتی پولیس آفیسر نہیں جو ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر چلتے ہوئے پولیس کی خامیوں پر پردہ ڈالنے اور ماتحت افسران کے بے جا دفاع میں ہی اپنا سارا وقت صرف کردیں ، ایسا نہیں ہے کہ انکے پیش رو افسران کو علم نہ ہو کہ پولیس پر عوام کا اعتماد نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں تاہم بہت کم افسران ایسے ہیں جو اسکا برملا اعتراف کرنے کی جرات رکھتے ہیں ،رائے بابر سعید نے پولیس کی جعلی کارروائیوں کو تسلیم نہ کرنے کا کہہ کر اس مرض کے خاتمے کی طرف پہلا قدم بڑھا دیا ہے جس نے پورے معاشرے میں پولیس کا امیج خراب کیا ہوا ہے ، پولیس کی جعلی کارکردگی میں دکھائے جانے والے اکثر ملزمان کی شناخت علاقے کے ان ٹاؤٹوں کے ذریعے کی گئی ہوتی ہے جو جعلی مدعی بن کر غریب اور کمزور گھرانوں کے ان نوجوانوں کوجیلوں میں بھیج کر کوٹہ پورا کر رہے ہیں غریب نوجوانوں اور کمسن لڑکوں میں اکثریت بے روزگار اور آوارہ گردوں کی ہوتی ہے جو دیر رات راہ چلتے یا کہیں بیٹھے ہوئے دھر لئے جاتے ہیں اور بعد میں ڈکیت بنا کر پیش کئے جاتے ہیں ،بعض مزدور بھی فیکٹریوں اور کارخانوں میں آتے جاتے پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جنہیں پولیس کے ٹاؤٹ اور جھوٹے مدعی جعلی پہچان کرکے ڈاکو قرار دے دیتے ہیں یوں پولیس کارکردگی کے نام پر اچھے بھلے نوجوانوں کی زندگیاں خراب کرنے کا کام ایک مدت سے کرتی چلی آرہی ہے جیلیں ایسے بے گناہ نوجوانوں سے بھری پڑی ہیں جن کے گھر والے ڈھنگ کا وکیل کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے ان میں کئی نوجوان جیلوں میں سزائیں بھگتنے کے دوران جرائم کی تربیت حاصل کر کے اصلی اور پکے مجرم بن کر باہر آتے ہیں تھانوں کی حالت پر انہی کالموں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی عام آدمی تھانوں میں قدم رکھتے ہوئے گبھراتا ہے اور چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے سفارشیں ڈھونڈتا پھرتا ہے ، موٹر سائیکل کاغذات کی چیکنگ کے نام پر عوام کی تذلیل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ، سی پی اورائے بابر سعید ایس ایچ اوز کو پابندکریں کہ ناکوں پر عوام الناس کو بلا وجہ تنگ کرنے کی نوبت نہ آئے ، سی پی او چاہیں تو بھیس بدل کر تھانوں کی اصل حالت خود ملاحظہ کر سکتے ہیں جہاں آج بھی عوام سے سیدھے منہ بات تک کرنے کا کوئی رواج نہیں، منشیات فروشی کی سر پرستی انہی تھانوں سے ہوتی ہے دوسرے لفظوں میں تھانوں کو جرائم کی سرپرستی کے مراکز کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا منشیات فروشوں ،رسہ گیروں اور تھانوں کے عملے کے درمیان رابطوں کو چیک کرنے کے لئے انکے موبائل فون ڈیٹا کا ہر ماہ موازنہ کیا جائے تو ساری صورتحال سامنے آجائے گی ، اسکے لئے ایک سپیشل انویسٹی گیشن سیل کے قیام کی ضرورت ہے جسکی نگرانی براہ راست خود سی پی او کریں فی الحال تو تفتیش کا نظام انتہائی ناقص اور فرسودہ ہے جو جرائم کے خاتمے اورمیرٹ پر تفتیش کے تقاضوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے،تھانوں سے ٹاؤٹ ازم کا خاتمہ بھی ترجیحات کا حصہ بنایا جائے ،معاشرے کے ایسے تمام افراد جو خود منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوں انکے تھانوں میں چکر پہ چکر بند کرائے جائیں افسوس کہ یہاں الٹی گنگابہہ رہی ہے سول لاائن سرکل میں جرائم کی رپورٹنگ کرنے پر کئی میڈیا نمائندگان پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے جو کہ خلاف قانون ہے،پولیس میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بننے کی بجائے اپنی منجی تلے ڈانگ پھیرنے کی زحمت گوارا کرلے تو منفی رپورٹنگ کا سلسلہ کم ہو سکتا ہے شہر میں پولیس نے عیدی اکٹھی کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے اس سے زیادہ کچھ کہنے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ سی پی او خود ہی کافی سمجھدار انسان معلوم ہوتے ہیں۔
 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 76518 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.