دو مسافر ایک ساتھ سفر کر رہے
تھے، گھومتے گھومتے یہ لوگ شہر خراسان میں پہنچ گئے۔ ان دونوں ساتھیوں میں
ایک نہایت نحیف ولاغر تھا اور وقت وقت سے کھانا کھاتا تھا۔ اور دوسرا نہایت
تندرست و توانا تھا اور صبح سے شام تک کچھ نہ کچھ کھاتا رہتا تھا۔
اتفاق سے خراسان کی پولیس نے ان دونوں کو مشتبہ حالت میں دیکھ کر گرفتار
کرلیا، اور حوالات میں بند کردیا۔
جب تین دن کے بعد حوالات کا دروازہ کھلا تو یہ دیکھ کر سب حیرت زدہ رہ گئے
کہ وہ دبلا پتلا لاغر آدمی زندہ سلامت ہے اور ہنستا کودتا ہوا حوالات سے
باہر آرہا ہے جب کہ موٹا تازہ پہلوان مرا پڑا ہے۔
معلوم ہوا کہ موٹا تازہ آدمی زیادہ کھانے والا تھا؛ اس لیے مصیبت برداشت نہ
کرسکا اور مرگیا۔ اور لاغر آدمی کو تو صبر کی عادت تھی اس لیے اس نے صبر
کیا اور سلامتی کے ساتھ قید سے نجات پائی۔
پیارے بچوں!صبر سے بڑی کوئی دولت نہیں،جس کے اندر صبر کا مادہ ہوتا ہے وہ
بڑی سے بڑی مصیبت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرلیتا ہے۔دیکھو ہمارے پیارے
آقا صلی اللہ علیہ وسلم صبر کا کیا مقام بیان فرمایا ہے : ’’صبر سے زیادہ
بہتر اور اس سے بڑھ کر کبھی کسی کو کوئی نعمت نہیں ملی‘‘۔
مَا أُعْطِيَ أحَدٌ عَطَائً ہُوَ خَیْرٌ وَ أوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ
(صحیح بخاری: ۶؍۱۵۵حدیث: ۱۵۸۵) |