درس قرآن 61

سورۃ رحمٰن

علمائے تفسیر بالعموم اس سورۃ کو مکی قرار دیتے ہیں۔ اگر چہ بعض روایات میں حضرت عبداللہ بن عباس اور عکرمہ اور قتادہ سے یہ قول منقول ہے کہ یہ سورۃ مدنی ہے، لیکن اول تو انہی بزرگوں سے بعض روایات اس کے خلاف بھی منقول ہوئی ہیں، دوسرے اس کا مضمون مدنی سورتوں کی بہ نسبت مکی سورتوں سے زیادہ مشابہ ہے، بلکہ اپنے مضمون کے لحاظ سے یہ مکہ کے بھی ابتدائی دور کی معلوم ہوتی ہے۔ اور مزید براں متعدد معتبر روایات سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ یہ مکہ معظمہ ہی میں ہجرت سے کئی سال قبل نازل ہوئی تھی۔
سورئہ رحمن مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ الرحمن، ۴/۲۰۸)۔ اس سورت میں 3رکوع ،78آیتیں ،351کلمے اور 1636حروف ہیں ۔ (جلالین، سورۃ الرحمن، ص۴۴۳، خازن، تفسیر سورۃ الرحمن، ۴/۲۰۸، ملتقطاً)
وجہ تسمیہ:
اس سورت کا نام ’’سورۂ رحمن ‘‘ اس لئے رکھا گیا کہ ا س کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے اَسماء ِحُسنیٰ میں سے ایک اسم ’’اَلرَّحْمٰنُ‘‘ سے کی گئی ہے۔
مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’چند وجہ سے سورۂ رحمن کو قرآن کی دلہن،زینت فرمایا گیا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کاذکر ہے اور ذات و صفات پر اعتقاد ایمان کی زینت ہے۔اس سورت میں جنت کی حوروں ،ان کے حسن و جمال ،ان کے زیورات کا ذکر ہے (اور) یہ چیزیں جنت کی زینت ہیں ۔اس سورت میں آیت ِمبارکہ ’’فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ‘‘ 31 جگہ ارشاد ہواا س سے سورت کی زینت زیادہ ہوگئی۔( مرأۃ المناجیح، کتاب فضائل القرآن، الفصل الثالث، ۳/۲۸۱-۲۸۲، تحت الحدیث: ۲۰۷۴)
قارئین :آئیے یہ جانتے ہیں کہ اس سورۃ میں بندوں سے کس قسم کا خطاب کیا گیا ہے :
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت اور قدرت، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت اور قرآنِ مجید کے اللہ تعالیٰ کی وحی ہونے پر دلائل بیان کئے گئے ہیں ،نیز اس میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :
اس سورت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم نعمتوں جیسے قرآنِ پاک کو نازل کرنے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کی تعلیم دینے،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دنیا و آخرت کی تما م چیزوں کی تعلیم دینے کا ذکر فرمایا۔
اس کے بعد سورج، چاند،زمین پر اُگی ہوئی بیلوں ، درختوں ، آسمانوں ، زمینوں ،باغات میں پھلوں اور کھیتوں میں فصلوں کا ذکر فرمایا۔
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ابلیس کی پیدائش، میٹھے اور کھاری سمندروں اور ان سے موتیوں کے نکلنے کو بیان فرمایا گیا۔
اس جہاں کے فنا ہونے اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے باقی رہنے اورتمام مخلوق کے اللہ تعالیٰ کا محتاج ہونے کا ذکر فرمایا گیا۔
اس سورت کے آخر میں قیامت،جنت کی نعمتوں اور جہنم کی سختیوں اور ہَولْناکْیوں وغیرہ کا ذکر ہے۔
قارئین کرام:ہم نے اپنے مضامین میں اس بات کور وا رکھا ہے کہ معتبر اور مستند اہل تفسیر کے مفاہم سے مستفاذ کلام اور وضاحت آپ تک پہنچا سکیں ۔چنانچہ یہاں بھی ہم نے اردو ایک ایک معتبر تفسیر (صراط الجنان کو اپنا ماخذبنایا)
اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے :آمین

 

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542527 views i am scholar.serve the humainbeing... View More