تعلیمی اداروں میں اسلام مخالف نصاب کا بڑھتا ہوا رجحان

تہذیبی و ثقافتی ورثے کی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقلی کا عمل تعلیم کہلاتا ہے لیکن پاکستان کے تعلیمی اداروں بالخصوص نجی تعلیم اداروں میں تیزی سے بڑھتا ہوا اسلام اور نظریہ پاکستان مخلاف نصابی رجحان تعلیم کی اس تعریف کے بلکل برعکس ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلیں خوددشمنوں کے نقش قدم چومیں گیں۔

نصاب کے معنی ہے ایسا ہموار راستہ جس پر چل کر فرد اپنی منزلِ مقصود تک پہنچتا ہے۔جبکہ تعلیم کی اصطلاح میں کسی بھی تعلیمی ادارے کی تمام تر تعلیمی سرگرمیوں کے مجموعے کا نام تعلیمی نصاب ہوتا ہے۔کسی بھی تعلیمی ادارے کی کابیابی اور ناکامی کا سارا دارومدار اس کے نصاب پر ہوتا ہے۔نصاب جتنازیادہ جدید،آسان ،لائقِ عمل، نفسیاتی،نظریاتی،سماجی،تہذیبی و ثقافتی اصولوں اور ضروریات کے مطابق ہوگا اتنا ہی موثر،قابلِ عمل اور دوررس نتائج کا حامل ہوگا۔اس کے برعکس اگر نصاب سازی کے بنیادی اصولوں کے مخالف نصاب کو ترتیب دیا جائے تو ایسا نصاب ناقابلِ عمل اور ناکام ہوگا۔
ملکِ پاکستان میں حالیہ دنوں ایک خبر میڈیا کی زینت بنی کہ پنجاب کریکیولم بورڈ نے صوبۂ پنجاب کے پرائیوٹ اداروں میں رائج سو سے زائد کتابوں اور 31 پبلشرزپر پابندی عائد کردی۔ان میں عالمی سطح کےنامور پبلشرز جن کی کتابیں بڑے نامور تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں شامل ہیں۔پابندی عائد کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ایم۔ڈی بورڈ جناب رائے ناصر صاحب نے کہا کہ ان کتابوں میں اسلامی نظریات،نظریۂ پاکستان اور اخلاقیات کے خلاف مواد شامل تھا جو کہ پاکستانی قوانین کے صریحاً خلاف ہے اور بغیر اجازت لئے یہ نصاب ترتیب دیا گیا تھا۔اس کے علاوہ بھی کئی کتابیں ہیں جن کی جانچ پڑتال جاری ہے۔
نصاب سازی کا ایک اہم جز (Content organizing) مواد کی ترتیب یا تنظیم کہلاتا ہے یعنی جو کچھ بھی پڑھانا ہے اسے ترتیب دینا۔سوال یہاں پر یہ ہے کہ نصاب سازی کے اس قدر اہم جز یعنی مواد کی ترتیب میں اتنا بڑا دھوکاکس کی غفلت سے ہوا؟اور کیا اس سنگین جرم کو غیر ذمہ داری یا غفلت کہنا درست ہوگا؟لازماً یہ غفلت نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش اورمنصوبہ بندی ہے جوکے عرصہ دراز سے اسلام دشمن قوتیں اسلام اور پاکستان کے خلاف ہمارے درمیان موجودد غداروں کے ساتھ مل کرانجام دے رہی ہیں اور ان کا اصل ہدف ہماری آنے والی نسلوں کو اسلام اور نظریہ پاکستان کی اصل روح سے منحرف کرنا ہے۔تاکہ آنے والی نسلیں جن کے ہاتھ میں پاکستان کی باگ ڈور ہے ان کواپنے مقاصد کے تحت استعمال کیا جائے اور بیرونی جنگ کے بغیر ہی اندر سے مملکت کی بنیاد کو کھوکھلا کیا جائے۔ماہرینِ تعلیم کے مطابق تعلیم تہذیبی ورثے،معلومات اور اقدار کی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقلی کا نام ہے۔تعلیم کی اس تعریف کو موجودہ صورتحال میں پرکھا جائے تو یہاں پر اس تعریف کے منافی عمل نظر آرہا ہے،تہذیبی ورثے،معلومات اور اقدار کومنتقلی سے روکا جارہا ہے اور پاکستانی نسلوں سے اس کا تہذیبی و ثقافتی ورثہ چھیننے کی ناپاک سازش ہورہی ہے۔
اس سلسلے میں پاکستان کے بے شمار محبِ وطن اپنی آواز عرصۂ دراز سے اٹھا رہے ہیں مختلف تحریرات،کا لمز، کتابیں،آرٹیکلز اور ٹی وی پروگرامز کے ذریعے اس حساس مسئلے کی نشاندہی کی جاچکی ہے علاوہ ازیں اس مسئلے پر راقم کا ذاتی تحقیقاتی مقالہ ’’پاکستانی تعلیمی اداروں میں اسلامی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کا فقدان اور منفی رجحان ‘‘ کے عنوان سے Academia.edu اورInternet Archive پر دستیاب ہے جس میں ایک جامع انداز میں اس مسئلے کے محرکات کی تلاش اور حل کی جانب سفارشات مرتب کی گئی ہیں،پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف ان کتابوں پر پابندی سے مسئلے کا سدِ باب ہوجائے گا؟ یا ایسے تمام عناصر جو ملکی و مذہبی تشخص کے لئے سمِ قاتل کا کرار ادا کر رہے ہیں ان کو قرار واقعی سزا دینے کا وقت اب آن پہنچا ہے۔

 

Fahad Yasir
About the Author: Fahad Yasir Read More Articles by Fahad Yasir: 5 Articles with 8205 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.