یہ خوشخبری ہے کہ صوبوں اور وفاق نے طویل
مشاورت کے بعد یکساں تعلیمی نصاب کا ڈرافٹ تیار کر لیا ہے۔ وفاقی وزیر
تعلیم شفقت محمود کے زیر صدارت تیسری قومی نصابی کونسل کے اجلاس کے بعد جو
اعلامیہ جاری ہوا ہے، اس میں کہا گیا کہ یکساں قومی نصاب ہم سب کے دلوں کے
بہت قریب ہے۔ یہ طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ یکساں
قومی نصاب میں زبان کے مسئلے پر کوئی ابہام نہیں، جس زبان میں بچے کو بہتر
سمجھنے میں آسانی ہوگی، اساتذہ اسی زبان میں پڑھائیں گے۔ انگریزی کو غیر
ملکی زبان کے طور پر پڑھایا جائے گا۔ وفاقی حکومت ماڈل ٹیکسٹ بک تیار کرے
گی جو تمام صوبوں اور اکائیوں کے لیے بنچ مارک ہوگی۔ صوبے اضافی مواد بھی
متعارف کرا سکتے ہیں، تاہم یہ خیال رکھا جائے گاکہ بچوں پر اضافی بوجھ نہ
پڑے۔ یکساں نظام تعلیم کا بنیادی مقصد تعلیم کے حصول میں ناانصافیوں کا
خاتمہ اور تعلیم کے میدان میں طبقاتی خلیج کا سدباب کرنا ہے۔ تعلیمی
ادارینئی نسل کی تعلیم و تربیت اور ذہن وکردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے
ہیں۔ مستقبل کو روشن بناتے ہیں۔ان کا مقصدصرف کاروبار یا کمائی نہیں ہوتا۔
یہ دکانیں یا سٹورز نہیں ہوتے۔ اس لئے سکول کے انتخاب میں احتیاط لازمی
سمجھی جاتی ہے۔ جب نیا تعلیمی سال شروع ہو تا ہے ، والدین بچوں کے لئے
کتابیں، سٹیشنری، یونیفارم، سکول بیگز، جوتے وغیرہ خریدنے میں مصروف ہو
جاتے ہیں۔ کتب خانوں اور سٹیشنری کی دکانوں پر رش لگ جاتا ہے۔ تعلیم کسی
بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں انتہائی بنیادی اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔
بچے ہی قوموں کا مستقبل ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت اسی مقصد کے تحت کی جاتی
ہے۔ اس پر قومیں بہت توجہ بھی دیتی ہیں۔ لیکن آج کی تعلیم اور تعلیمی نظا م
تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہم پڑھے لکھے ان پڑھ پیدا کر رہے ہیں۔ ہم
انسان کو ایک اچھا و ذمہ دارشہری بنانے کے بجائے اسے کمائی کی مشین بنا رہے
ہیں۔ ہم تعلیم کو تجارتی مقصد کے تحت ہی دیکھتے ہیں۔ زیادہ تر یہی دیکھا
جاتا ہے کہ کمائی کس شعبہ میں زیادہ ہے۔ لاتعداد لوگ ایسے ہیں کہ جو پڑھے
لکھے بے روزگاروں کو دیکھ کر بچوں کو سکول جانے سے روک دیتے ہیں۔ یہ جواز
بیان کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں گریجویٹ، ماسٹرز ، ڈگریاں رکھتا ہے ۔ ڈگریاں
ہاتھ میں اٹھائے سڑکیں ماپ رہا ہے۔ نوکری نہیں ملی۔ اس لئے پڑھائی کا کوئی
فائدہ نہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ بچے کوحوش
سنبھالنے پر کسی ہنر یا کام پر لگا دیا جائے۔یہ اس طبقہ کا تعلیم سے اظہار
ناراضی ہے۔ غم و غصہ کا اظہار ہے۔تعلیمی نصاب یکساں نہ ہونے سیہر ایک کاا
پنا نصاب ہے۔ من مانی ہے۔ ہر گلی محلہ میں سکول کھلے ہیں۔ کوئی بھی ایک
کمرا لے کر سکول شروع کر دیتا ہے۔ ان سکولوں کی رجسٹریشن کیسے ہوتی ہے، اور
کیوں ہوتی ہے، کوئی نہیں جانتا۔رجسٹرڈ ادارے بھی بغیر چیک اینڈ بیلنس کے چل
رہے ہوتے ہیں۔نگرانی اور قواعد و ضوابط کے بغیر قوم کا مستقبل تباہ کرنے
والوں کو من مانی کی اجازت ملی ہوتی ہے۔ یا اس میں متعلقہ حکام بھی شریک
ہوتے ہیں۔ بار بار کی یقین دہانیوں ، وعدوں اور اعلانات کے باوجود ایک نصاب
تعلیم نہ بن سکا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے حکومتیں تعلیم وتربیت کو سنجیدہ ہی
نہیں لیتیں۔صرف این ٹی ایس یا کسی ٹیسٹنگ سروس کی خدمات سے نظام بہتر نہیں
ہو سکتا۔ ان سروسز کی معتبریت یا کریڈیبلٹی پر بھی سوال اٹھے ہیں۔ سرکاری
سکولوں کی بہتات ہے۔ لیکن پھر بھی نجی تعلیمی ادارے پھل پھول رہے ہیں۔ نجی
سیکٹر قابل قدر ہے، اگر یہ کاروبار سے اوپر اٹھ کر دیکھے۔یکساں تعلیمی نصاب
سے ذہنی انتشار اور خلفشار پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔کورونا وبا پھوٹ
پڑنے کے بعد سے بچوں کا تعلیمی کیریئر متاثر ہوا ہے۔ اب بعض تعلیمی ادارے
آن لائن تعلیم کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔ تا ہم اصلاحات کی کافی گنجائش ہے۔
غیر معیاری انٹرنیٹ سروسز نے آن لائن تعلیم پر سوالات اٹھائے ہیں۔
معیار تعلیم کا مطلب ہم صرف زیادہ یا کم نمبرات یا نتائج کے حساب سے لیتے
ہیں۔ رٹہ سسٹم ہے۔ درسی کتب اور نصاب مکمل نہیں کیا جاتا۔ چند سوال بچوں کو
رٹنے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔بچوں کو مضمون کو سمجھانے کی طرف توجہ نہیں دی
جاتی۔ہر گلی محلے میں آئے روز ایک کمرہ سکول کھل رہے ہیں۔سکولوں نے من پسند
نصاب مقرر کر رکھے ہیں۔ان کا مقصد جیسے صرف کمائی بن گیا ہے۔ معصوم بچوں پر
بھاری کتابیں لادھ دی جاتی ہیں۔ انہیں کتابوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا
ہے۔والدین کے پاس بچوں کے لئے وقت کی کمی ہے۔کتابی اورذہنی بوجھ سے بچے کی
نشو و نما رک جاتی ہے۔ اس کے پٹھیمتاثر ہوتے ہیں۔ ہڈیاں دب جاتی ہیں۔ قد
نہیں بڑھتا۔ شریانوں پر دباؤ سے خون کی گردش کم ہو جاتی ہے۔ زیادہ بوجھ خون
کی گردش روکنے کا باعث بنتا ہے۔ یہ جسمانی نقصان ہے۔ سب سے بڑا اور تباہ کن
نقصان زہنی ہے۔ کلاس ورک اور ہوم ورک سمجھنے کے بجائے رٹنے کی پریشانی۔ یہ
بچے کی نفسیات پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ وہ ہر وقت دباؤ اور ٹینشن کا شکار
رہتا ہے۔ اب تو کئی بچے اپنے ساتھ گھریلو ملازم لاتے ہیں۔ یا ان کے والدین
ان کا کتابوں بھرا بستہ لے کر چلتے ہیں۔ جو بچہ بچپن سے دوسروں پر انحصار
کا عادی ہویا اپنا بوجھ والدین پر لادھ کر چلنے پر مجبور ہو تو بڑا ہو کر
اس کی کیفیت کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔اپنا کام خود کرنے کی یہ
حوصلہ شکنی ہے۔بعض سکولوں کا کتب خانوں ،یونیفارم ڈیلرزاور سٹیشنرز کے ساتھ
جیسے ساز باز ہوتاہے۔یا یہ کمیشن لیتے ہیں۔یا تحائف کے لئے مک مکا ہوتا ہے۔
ایک کتاب کی بازار میں قیمت پچاس روپے ہے تو اس پر 20تا 60فی صد ڈسکاؤنٹ
ملتا ہے۔ زیادہ خریداری پر اس سے بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ پبلشرز کا یہی
طریقہ واردات ہے۔ وہ بھی من پسند قیمت لکھ دیتے ہیں۔ پھر جو وصول ہو ،
غنیمت ہے۔ یہ ساز باز اور بڑا گٹھ جوڑ ہے۔ کرپشن ہے۔ جو والدین نرسری کلاس
کے بچوں کی کتابیں پانچ پانچ ہزار میں خریدیں گے ۔ ان کی یونیفارم، لنچ،
ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیسے کریں گے۔ فیسیں بھی بھاری ہیں۔ کتابیں، سٹیشنری
کی آسمان کو چھوتی قیمتیں۔ یونیفارم کے منہ مانگے دام۔ یہ سب کاروبار ایک
مافیا کی شکل اختیار کر رہا ہے۔بعض ادارے ڈونیشن کے نام پر لوٹ مار کر رہے
ہیں۔ لیکن کوئی احتساب، پوچھنے والا نہیں۔ اس پر مضحکہ خیز بات یہ کہ سکول
کسی مخصوص کتب خانے یا یونیفارم دکان کے ساتھ سمجھوتہ کر کے والدین کو وہاں
من مانی قیمتادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جس استاد کا رزلٹ سرکاری سکول میں
صفر ہے وہی استاد اپنی اکیڈمی کھول کراچھا رزلٹ دیتا ہے۔ سرکاری سکول کا
استاد اپنا بچہ پرائیویٹ سکول میں داخل کرتا ہے۔ تمام سرکاری ملازمین پر ان
کے بچے سرکاری سکولوں میں داخل کرنے اور علاج سرکاری ہسپتالوں سے کرانے کی
پابندی ہوتو سرکاری سکولوں ، ہسپتالوں کا معیار بلند ہو سکتا ہے۔ اس سے
پہلے تعلیمی پالیسیپر خاص توجہ نہیں دی گئی۔عمران خان حکومتمیں شفقت محمود
سنجیدہ اور تعلیم یافتہ سمجھے جاتے ہیں۔ وہ اس پر توجہ دے سکتے ہیں ، دینی
تعلیم کو نصاب میں شامل کرنے سے بچوں کی اخلاقیات درست ہوں گی۔تعلیم وفاق
کے پاس رہیتو ملک بھر میں قومی تعلیمی پالیسی تشکیل پاسکے گی۔ سکولوں کی
رینکنگ کا نظام ہو۔انکریمنٹ ترقیابی کارکردگی سے مشروط ہوں، سرکاری تعلیمی
اداروں میں تعینات اساتذہ اپنے بچے پرائیویٹ اداروں کے بجائے اپنے ادارے
میں داخل کریں۔ بیوروکریٹس ، اعلیٰ عہدیدار اپنے بچے اپنے علاقے کے سرکاری
ادارے میں داخل کریں۔ تببہتری متوقع ہے۔ تعلیمی نصاب ایک ہو،تعلیم کے ساتھ
تربیت ہو، تو یکساں تعلیمی نصاب قومی سوچ پیدا کر سکے گا۔
|