تحریر: ابنِ ریاض
انسان کی فطرت میں اﷲ تعالٰی نے ایک عجب قسم کی بے چینی، بے قراری اور نا
آسودگی رکھی ہوئی ہے۔یہ کسی حال میں بھی قانع نہیں ہوتا۔ اس کو من و سلوٰی
دیا جائے تو کچھ ہی عرصے بعد اسے پیاز آلو اور دیگر سبزیاں یاد آنے لگتی
ہیں۔انسان اپنے بیوی بچوں، کام اوردیگر دھندوں میں ایک حد تک مصروف رہتا ہے
اور اس کے بعد اسے اس چیز سے فرار چاہیے ہوتا ہے۔تنہائی اور اپنی ذات و
کائنات پر غور و فکر بھی انسان کی فطرت میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیاوی دھندوں
کی چکاچوند اور دلکشی کے باوجود انسان کبھی نہ کبھی ان سے عارضی فرار چاہتا
ہے تاکہ دوبارہ دلجمعی سے کام کر سکے۔یہی وجہ ہے کہ نوکری میں ہفتہ وار
چھٹی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے طالب علموں کو ایک جماعت سے دوسری جماعت کے
درمیان چند روز کا وقفہ دیا جاتا ہے۔اسی بناء پر خواتین کہتی ہیں کہ آج
کھانا باہر سے منگوایا جائے۔ ضرورت سے زیادہ کسی بھی شعبے کے ساتھ منسلک
رہنا جسمانی و دماغی صحت کے لئے مضر ہے۔چنانچہ ڈاکٹر اپنے مریضوں کو اکثر
کہتے پائے گئے ہیں کہ 'آپ کام میں وقفہ دیں اور کچھ روزآرام کریں یا کسی
صحت افزا مقام کی سیر کر آئیں'۔ یہ آج کا معاملہ نہیں ہے انبیاء علیہ سلام
کی زندگیاں دیکھیں تو وہ بھی دنیاوی جھمیلوں سے تعلق منقطع کرکیکچھ وقت
ویرانوں میں گزارا کرتے تھے۔ خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم غارِ حرا
تشریف لے جایا کرتے تھے۔گئے وقتوں میں لوگ شہروں سے دور جنگلوں بیابانوں
میں جھونپڑیوں اور کٹیاؤں میں رہا کرتے تھے۔ وہیں عبادت کرتے تھے اور ہم
جیسے لوگ دنیاوی ناکامیوں وپریشانیوں سے تنگ آ کر یا دنیا والوں سے ناراض
ہو کر اٹوانٹی کھٹوانٹی لئے پڑے رہتے تھے تاوقتیکہ جن سے وہ ناراض ہیں وہ
انھیں منانے آئیں۔ منت سماجت کر کے اور آئندہ ناراض نہ کرنے کا وعدہ کر کے
انھیں دوبارہ اسی دنیاوی سمندر میں دھکا دے دیں۔وحید مراد سے فمآ سالگرہ کی
شوٹنگ کے دوران شمیم آراء نے پوچھا تھا کہ اگر فلم ناکام ہو گئی تو کیا ہو
گا ؟ وحید مراد نے جواب دیا کہ 'میں تو 'دھابے جی' پر ایک کٹیا بنا کر رہنا
شروع کر دوں گا'۔ وحید مراد کو توجھونپڑی بنانے کی ضرورت پیش نہیں آئی تاہم
آخری ایام میں وہ بھی تنہائی کا شکار ضرور ہوئے تھے۔علاوہ ازیں ہمارے
پسندیدہ ترین مصنف و شاعر انشاء جی بھی غمِ دنیا سے گھبرا کر ویرانوں میں
جانیکا سوچا ضرور کرتے تھے۔
جب دیکھ لیا ہرشخص یہاں ہرجائی ہے
اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے
اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے
سب مایا ہے
موجودہ دورمیں ویرانے ہی ختم ہو گئے ہیں۔ اگر کوئی اکا دکا ویرانہ ہے بھی
تو اس پر کسی کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے۔ سو کٹیا انسان کہاں بنائے؟ بنا
بھی لے گا تو کہیں کے ڈی اے والے تو کہیں ایل ڈی اے والے اٹھا کر اندر کروا
دیں گے بلکہ ساری تجاوزات و قبضوں کا ذمہ دار اس کو ٹھہرائیں گے۔ نمازیں
بخشوانے والوں کو روزے گلے پڑ جائیں گے۔علاوہ ازیں اگر کوئی جگہ بچی ہے تو
وہ فدائی مجاہدین کے پاس ہے۔ ان کے ہتھیچڑھ جائے انسان تو انھوں نے اگلے
خود کش حملے پر بھیج کر اسے ہمیشہ کے لئے ویرانے میں بھیج دینا ہے۔آبادی کے
دن دوگنی رات چوگنی ترقی سے جنگل کوئی سلامت نہیں رہا بلکہ جانوروں نے بھی
چڑیا گھر میں ہی پناہیں ڈھونڈ لی ہیں۔موجودہ دور میں اگر آپ کو تنہائی
چاہیے تو کسی ویرانے یا جنگل میں جانے کی ضرورت نہیں۔اب آپ گھر میں ہی
تنہائی کا مزہ لے سکتے ہیں۔ اپنے گھر یا فلیٹ کوہی کٹیا تصور کیجیے کہ اب
انسان دور والوں سے جتنا قریب ہے، اپنوں اور قریب والوں سے اتنا ہی
دور۔محلے والوں اور ہمسایوں کو تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ گھر میں کون ہیاور
کون نہیں اور اپنے گھر والے بھی اپنا اپنا موبائل لے کر مختلف کونے سنبھال
لیتے ہیں۔سو کٹیا میں داخلے کے لئے کرنا بس اتنا ہے کہ فیس بک، واٹس ایپ یا
دوسری جو ایپلیکیشنز زیادہ استعمال کرتے ہیں ہم،ان کو کچھ دن کے لئے ڈی
ایکٹو کر دیا جائے۔ یہ ایپلیکیشنز بھی ایک طرح کا نشہ ہیں جو انسانی دماغ
میں سرایت کرتی رہتی ہیں اور کچھ وقت بعد ان سے جان چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔
جسمانی طور پر انسان سست ہو جاتا ہے اور چڑچڑاپن آ جاتا ہے۔انسان غائب
دماغی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اورلیپ ٹاپ کی سکرین سے نکلنے والی لہریں بھی
انسان کو تھکا وٹ کا شکار بنا دیتی ہیں۔ یہ بھی ایک طرح کا مرض ہے اور اس
کا علاج بھی یہی ہے کہ انسان خود کو اس کے وائرس یعنی ایپلیکیشنز سے دور کر
دے اور کچھ دن قرنطینہ میں گزارے۔ہم بھی کبھی کبھی اس وحشت کا شکار ہو جاتے
ہیں۔ یہ ہمارے انسان ہونے کا بھی ثبوت سمجھ لیجیے۔ یوں بھی پچھلے برسوں
ہمارے یہ دن پاکستان میں گزرے ہیں۔ اب ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ہمارا
ایک طرح سے کتھارسس ہو جاتا تھا مگر اس مرتبہ کرونا کے باعث پاکستان نہ جا
پائے۔ اس کے علاوہ بھی چار ماہ سے ہم نے جامعہ کی شکل نہیں دیکھی اور نہ ہی
شہر سے باہر کہیں جا پائے ہیں۔بس کبھی کبھار کسی پارک میں کچھ دیر کے لئے
چلے جاتے ہیں اور وہاں بھی زیادہ دیر نہیں رکتے کہ کہیں کوئی کرونا کا مریض
ہی قریب نہ ہو۔ بس فیس بک پر ہی زیادہ وقت گزرا۔ فیس بک ویسے ہی انسانی
اعصاب کا امتحان ہے۔ یوں بھی یہ ایک تفریح گاہ ہے۔ تفریحی مقام پر انسان
وقت گزارتا ضرور ہے مگر رہنے اپنے گھر ہی جاتا ہے۔آج کل ہم کر کیا رہے ہیں؟
کچھ خاص نہیں۔ کٹیا میں بیٹھ کر پچاس ساٹھ سال پرانے گانے سن رہے ہیں لیکن
پاکستانی گلوکاروں کے اور کبھی ایک کمرے میں پاؤں پسارے لیٹتے ہیں تو کبھی
دوسرے میں۔کچھ لکھنے کا بھی ارادہ ہے۔ سماجی سرگرمیاں یونہی محدود اب
تعطیلات ختم ہونے میں ایک ماہ باقی ہے۔ کرونا کے باعث کافی عرصہ گھر سے ہی
کام کیا اور چھٹیاں بھی یہیں گزریں۔ تحریریں بھی پچھلے دو سال کے مقابلے
میں اس مرتبہ زیادہ ہو گئیں۔کوشش ہے کہ بقیہ وقت فرصت سے خوب لطف اندوز ہوا
جائے۔ اس وقت کی ہمیں اس وقت کماحقہ قدر نہیں۔ یہ وقت جب گزر جائے گا تو
ہمیں یاد آئے گا۔
|