مخلوط نظامِ تعلیم


مرد و عورت کا ایک ہی ادارے میں آزادانہ ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنا مخلوط تعلیم کہلاتا ہے.. یہ طریقہ تعلیم مغرب میں کئی صدیوں سے رائج ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں بھی رواج پاتا جارہا ہے.. ہمارے اعلی تعلیمی اداروں میں اس وقت تقریباً کلی طور پر یہی نظامِ تعلیم لاگو ہے اور بہت سے نجی کالج اور سکول بھی اس کی پیروی کر رہے ہیں.. یہ نظامِ تعلیم گزشتہ کئی عشروں سے ہمارے ہاں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے اور اس کے حامی اور مخالف اپنے نقطہ نظر کو درست ثابت کرنے کےلیے کئی دلائل دیتے ہیں.. یقیناً جہاں اس کے بہت سے فوائد ہیں وہاں کئی نقصانات بھی ہیں.. آئیے ہم باری باری ان فوائد اور نقصانات پر بحث کرتے ہیں

تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں اسلام کی تعلیمات واضح اور دوٹوک ہیں.. حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے

"تعلیم حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے"

یعنی اس بات سے انکار تو ممکن ہی نہیں ہے کہ اسلام نے مرد کے ساتھ ساتھ عورت کےلیے بھی تعلیم حاصل کرنا لازمی قرار دیا ہے اور اسلامی معاشرے پر یہ فرض کردیا ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم کےلیے ہر ممکن سہولیات کا بندوبست کرے تاکہ وہ آزادانہ اپنی تعلیم حاصل کرسکیں اور معاشرے کی ترقی اور فلاح میں اپنا حصہ ڈال سکیں.. عورتوں کو تعلیم دینا معاشرے کی تربیت کےلیے بھی انتہائی ضروری ہے.. ایک پڑھی لکھی عورت ایک پورے خاندان کو سنوارنے کا باعث بنتی ہے اور اس کی تعلیم کئی نسلوں کی آبیاری کا باعث بنتی ہے.. یہی وجہ ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا

"ایک عورت کو تعلیم دینا ایک پورے خاندان کو تعلیم دینا ہے"

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کو تعلیم کس طرح دی جائے اور کیا مخلوط نظامِ تعلیم اس مقصد کےلیے ایک مناسب نظام ہے؟.. مخلوط نظامِ تعلیم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے دونوں جنسوں کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے اور مخلوط نظامِ تعلیم میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ دوسروں کی نسبت زیادہ پر اعتماد ہوتے ہیں.. دراصل جب تک مرد عورت کو اکٹھے مل بیٹھنے نہ دیا جائے تب تک وہ ایک دوسرے کے متعلق بہت سی غلط آراء رکھتے ہیں اور احساسِ کمتری کا شکار ہوتے رہتے ہیں مگر جب انہیں ایک ساتھ ایک ہی کمرہ جماعت میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے تو وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں جس سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں, احساسِ کمتری زائل ہوتا ہے اور اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے.. اس طرح ایک باہمی اعتماد کی فضا پیدا ہوتی ہے جو کسی بھی معاشرے کی ترقی کےلیے انتہائی ضروری ہے..

"اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری نوجوان نسل ترقی کا ہراول دستہ بنے تو اسے جنسی امتیاز سے بالاتر ذہنی و فکری آزادی فراہم کرو"

سیگمنٹ فرائیڈ


اس دور میں طلبا و طالبات ذہنی ناپختگی کا شکار ہوتے ہیں اور اب جبکہ انٹرنیٹ ‘ موبائل جیسی ٹیکنالوجی مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ منفی اثرات بھی مرتب کر چکی ہے اس سے ذہنی ناپختگی اور ہیجان میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں مخلوط تعلیم طلبا اور طالبات کو غلط راہ پر چلنے میں آسانیاں فراہم کرتی ہے اور تعلیمی مقاصد اور اس کے فوائد پیچھے رہ جاتے ہیں۔ معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہوتا ہے۔

آہ! مکتب کا جواں گرم خوں
ساحر افرنگ کا صید ز بوں



بر صغیر میں انگریزوں نے اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے جو نظام تعلیم نافذ کیا تھا وہ مکمل طور سے مغربی تہذیب کا آئینہ تھا اور اس کا خاص مقصد مسلمانوں کی نئی نسل کو مغربی تہذیب و تمدن کا نمونہ بنانا تھا اور وہ اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ہماری اکثریت ان کی اندھی تقلید کر رہی ہے جیسے انگریز تو خیر مادری لہجے میں انگریزی بولنے پر مجبور ہیں لیکن جاپانی،جرمن،اطالوی اور چینی اپنے فطری لہجے کو انگلستانی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتے ۔غلامی کے دور نے یہ احساسِ کمتری کی وراثت صرف ہمیں عطا کی ہے لہذا انگریزوں کے لہجے میں انگریزی بولنا ہمارے یہاں آدھی دنیا فتح کرنے کے مشابہ سمجھا جاتا ہے۔یہ تو چاول کا ایک نمونہ ہے ورنہ زندگی کے مختلف میدانوں میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔

ایک مدت سے ہمارے یہاں مخلوط تعلیمی نظام رائج ہے لیکن اس کے مضر پہلو سے اکثریت غافل ہے اور اس کو ناپسند کرنے والوں کو” قدامت پسند،دقیانوسی،رجعت پسند اور ملا“ کاخطاب دیا جاتا ہے۔

خرد کا نام جنوں رکھ لیا،جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

روس نے انقلاب کے بعد بیس سال تک مخلوط تعلیمی نظام کا تجربہ کرنے کے بعد یکسر اس کو مسترد کر دیا۔اسرائیل نے بعض درجے پر اس کو ترک کیا ہوا ہے اور مغربی ممالک میں بھی اچھی یونیورسٹیوں ،کالجوں اور اسکولوں میں مخلوط تعلیمی نظام نہیں ہے تو کیا یہ لوگ بھی تنگ نظر ’ملا‘ہیں؟؟

ترقی یافتہ ممالک میں بھی کئی ایسے ممالک ہیں جنہوں نے مخلوط تعلیمی نظام کو ہر منزل پر رائج نہیں کیا ہے،خاص کر ثانوی کلاسوں میںکیوں کہ اس وقت طلبہ وطالبات اپنی نشونما میں نفسیاتی لحاظ سے ایسے مرحلے میں ہوتے ہیں جہاں ذہنی و جذباتی پختگی کے بجائے ہیجانی کیفیت کا غلبہ ہوتا ہے ۔ابتدائی تعلیم میں بچے بچیاں اس سے لا علم ہوتے ہیں مگر اب تو ٹی وی،انٹرنیٹ اور موبائل نے ان کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔




آج ہمارے نوجوان مخلوط طرز تعلیم کی وجہ سے ایسے معاملات اورالجھنوں کا شکار ہیں جو ان کے بہتر مستقبل کے لئے مسلسل خطرے کا باعث ہے۔ البتہ اگر اداروں میں ایک اچھا ماحول فراہم کیا جائے جہاںمخلوط تعلیم باوجود بے راہ روی کے مواقع کم سے کم ہوں اور طلبا و طالبات مثبت Activitiesکی طرف مائل رہیں ان کا زیادہ تر وقت نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں گزرے۔ ان کے لباس ‘ گفتگو اور بیٹھنے اٹھنے کے انداز میں نکھار لایا جائے اور بے ہودگی سے حتی الامکان دور رکھنے کی کوشش کی جائے ذہنی اور اخلاقی تربیت ہی در اصل ان کی بہترین شخصی رہنمائی کی ضامن ہے۔ نوجوان طلبا و طالبات میں حدود کا ادراک بیدار کیا جائے اور ایک دوسرے کو عزت دینے ‘ احترام کرنے اور ایک دوسرے کے کام آنے کے حوالے سے ان کی مکمل رہنمائی کا اہتمام کیا جائے۔

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازاں
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت

 

Maira Ali
About the Author: Maira Ali Read More Articles by Maira Ali: 2 Articles with 10639 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.