وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے تحریک
انصاف کے منشور میں ملک میں علامہ اقبالؒ کے خواب اور قائد اعظم کے اسلامی
وژن کے مطابق نظام حکومت اور یکساں نظام تعلیم رائج کرنے کا وعدہ کیاتھا۔
یکساں نظام تعلیم عمران خان کا ایک ایسا کارنامہ ہو گا جسے تاریخ میں سنہری
الفاظ سے لکھا جائے گا۔ اس کو پاکستان کے عوام دل وجان سے پسند کریں گے۔
ہاں اگر وہ اسلام کے خمیر،پاکستان کی قومیں امنگوں اور اسلامی روایات اور
قومی زبان اُردو میڈم میں ہو۔ ورنہ اس کا بھی حشر وہی ہو گا جو امریکا کی
ہدایات پر پاکستان میں روش خیال معاشرہ قائم کرنے والاے ڈکٹیٹر پرویزمشرف
کے دور میں۲۰۰۶ء میں جرمنی کی مالی اورعملی مدد سے بننے والے نظام تعلیم کے
نصاب کا ہوا تھا۔
سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا ہوا ہے کہ ملک میں اُردو زبان رائج کی جائے۔
ظاہر اس کے تحت نظام تعلیم بھی اُردو میڈم میں ہونا چاہیے ۔اُردود کی
نفاذکے لیے وزیر اعظم صاحب نے پہلے حکمرانوں کی طرح ایک کمیٹی قائم کی ہوئی
ہے۔ نہ جانے اس کا کوئی اجلاس بھی ہوا کہ نہیں؟ یا پہلی حکومتوں کی طرح یہ
بھی کمیٹی کمیٹی والا کھیل ہی ہے۔عمران خان کے منشور میں بیان کی گئیں ان
سب چیزوں کو ملک کے عوام ۷۲ سال سے ترس رہے ہیں۔ مگرابھی تک مدینے کی
اسلامی ریاست کے لیے کوئی بھی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ سودکا نظام جو اﷲ اور
رسولؐ کے خلاف جنگ ہے، ویسے کا ویسا ہی چل رہا ہے۔ ملک میں انگریزی قانون
کو ختم کر اس کی جگہ اسلای نظام ِعدل کے تحت کی قاضی کورٹس قائم نہیں کیں۔
کرپٹ لوگوں کے مقدمے زور شور سے چل رہے ہے۔ مگر انگریزی قانون کے تحت ابھی
تک ان سے ایک پائی بھی وصول نہیں کی۔ عمران خان صاحب نے یکساں نظام تعلیم
کے لیے اپنے وزیر تعلیم کو لگا یا۔انہوں نے یکساں نظام تعلیم کا حتمی مسودہ
تیار کیا ہے۔ اس میں عوامی امنگوں کے خلاف اُردو کوایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔
پتہ چلا ہے کہ یہ یکساں نظام تعلیم بھی آقاؤں کی زبان انگریزی میں ہی ہے۔
حکومتی ذمہ داروں نے بنیادی طور ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا۲۰۰۶ء کا تیار کردہ
مسودہ لے لیا ہے۔ یہ مسودہ جرمنی کی ایک ایجنسی جی آئی ذیڈ(GIZ) کے
مالی،علمی اور عملی تعاون سے تیار کیا گیا تھا۔تیار کرنے والی ایک پاکستانی
خاتون تھی۔ وہ محترمہ اپنی این جی او کے پلیٹ فارم سے یکساں نصاب کی تیاری
میں اب بھی موجود تھی۔۲۰۰۶ء میں بھی قومی اور اسلامی حلقے اس نصاب کے ناقد
تھے۔ ایک ماہر تعلیم پروفیسر کے مطابق اب صرف یہ کیا گیا ہے کہ ۲۰۰۶ء کے
کریکولم کو ویلیوز ایجوکیشن کے نام اسے ایک سیکولر لبرل نظریاتی اساس فراہم
کر دی ہے۔اس کو بنانے والی ٹیم کی چالاکی یہ ہے کہ ابتدائی مسودے میں
ہیومنزم کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔جس کی ذیلی اقدارگراس کٹنگ
تھیم(grass cutting themes)کے طور پر پورے نصاب میں پھیلائی گئی ہے۔اس نصاب
میں ایسی تعلیم ہے کہ ایک طالب علم کے لیے ساری زندگی اسلامی تعلیمات کے
تحت گزرنانا ممکن ہے۔
اے کاش کہ ۵ سال سے ۱۶ سال کی عمر تک قرآن وحدیث کی روشنی میں اسلام کی وہ
تمام تعلیمات مہیا کی جاتیں۔ لیکن (اے بسا آرزوکہ خاک شدہ)بہت سی آرزوئیں
خاک میں مل گئیں۔جرنل نالج اور معاشرتی علوم بھی مکمل طور پر سیکولر ہیں۔
ان میں اسلام کے نام سے بھی اجتناب کیا گیا ہے۔ بلکہ سیکولر،لبرل اور
ہیومنسٹ نظریہ حیات کے آئینہ دار ہیں۔ یہ صرف پوش اسکولوں کے لیے نصاب
ہے۔سوالیہ نشان ہے کہ یہ نصاب سرکاری اسکولوں، دینی مدارس اور گلی محلے میں
کھلے پرائیویٹ اسکولوں میں کیسے نافذ ہو گا۔کیا حکومت اس کے لیے کوئی سہولت
مہیا کرے گی؟کیا اس نصاب کے لیے استادوں کو تیارکرلیا گیا ہے؟یہ بھی کہا
گیا ہے کہ نصاب میں شمولیتی تعلیم کا خیال رکھا گیا ہے۔پتہ نہیں کس طرح
اسپیشل بچوں کی بصری، سمعی یا دیگر مشکلات انتظام کیا گیا ہے؟اس قومی سطح
کے نصاب کی تیاری میں پسندیدہ افراد سے فیڈ بیک لی گئی۔ پتہ چلا ہے کہ
فروری۲۰۲۰ء میں ایک تین روزہ ورکشاب کی گئی۔اس میں صوبوں سے نصاب ودرسی کتب
کے اداروں کے بعض اہل کار بلائے گئے۔ مگر ان کی سفارشات کو مسودے میں شریک
نہیں کیا گیا۔ حتمی مسودہ قوم کے سامنے ابھی تک نہیں رکھا گیا۔جس مسودہ پر
بات کی جارہی ہے وہ ایک پروفیسر صاحب نے اپنے طور پر حاصل کیا ہے۔ اسی ماہر
تعلیم پروفیسر کے مطابق یہ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی حکومت میں تیار کیا
گیا۲۰۰۶ء کا متنازہ نصاب ہے جسے بھونڈے طریقے سے ریویو کر کے اس میں
ویلیوزایجوکیشن کا متنازعہ عنصر ڈال کر اسے مذید متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔
اسے اسلام مخالف آغا خان یونیورسٹی ،برطانیہ کی واٹر ایڈ، امریکا کے کمیشن
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے مقامی ایجنٹوں، بیکن ہاؤس کے نام نہاد ماہرین،
کیمبرج کے ماہرین اور بعض دیگر سیکولر این جی اوز کی شمولیت سے یہ کام سر
انجام دیا گیا۔ ان ہی پروفیسرصاحب کے مطابق حد ہے کہ قومی اداروں یعنی انٹر
نیشنل اسلامک یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،
پشاور یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ایجوکیشن، سندھ یونیورسٹی اور کراچی
یونیورسٹی کے ادراہ ہائے تعلیم و تحقیق اور شعبہ ہائے ایجوکیشن کے ٹاپ کلاس
ماہرین میں سے کسی کو شامل نہیں کیا گیا۔ صوبوں کے نصابات و درسی کتب کے
اداروں کے تجربہ کار ماہرین کو نظر انداز کیا گیا۔ پرائیویٹ سیکٹر کے بہت
اعلی درجہ کے سکول چینز کے علاوہ تعلیم کے شعبہ میں مہارت رکھنے والی محب
وطن اور محب اسلام تنظیموں کو مکمل طور پر نظر انداز کیاگیا۔ صرف سیکولر
اور لبرل عناصر کو لیا گیا۔ ہاں صرف اسلامیات کے کچھ نصاب کے لیے دینی
مدارس کی تنظیمات کے کچھ نمایدے شامل تھے۔یہ نصاب متفقہ یکساں نظام تعلیم
نہیں کہا جا سکتا۔ یہ نصاب انگلش میں ہے جو اُستادوں اور والدین کی سمجھ ہی
نہیں آئے گا۔
عمران خان وزیر اعظم پاکستان سے درخواست ہے کہ چھپ چھا کر یکساں قومی نصاب
نہیں بناکر تا۔ اس میں اسلامی ذہن رکھنے والے قوم کے ماہرین تعلیم کی راے
شامل کرنا ہوتی ہے۔ صرف سیکولر حضرات اور بیرونی قوتوں کو خوش رکھنے کا
اہتمام کیا گیا۔ کون ایسے نصاب کو مانے گا جو مدینہ کی اسلای ریاست کی سوچ
کے خلاف ہو ۔اور جس سے صرف اسلام مخالف قوتیں ہی خوش ہوں ۔ ڈکٹیٹرمشرف
پرویز نے بیرونی آقاؤں کی اشیر آباد جو نصاب بنایا تھا جسے موجودہ نصاب میں
بھی رکھا گیا ہے۔ پاکستان کو روشن خیال بنانے والے مشرف نے اسلامی اور قومی
امنگوں کے خلاف پہلے سے موجودنصاب سے اسلامی دفعات نکالیں تھیں۔ ۲۰۰۶ء میں
بیرونی آقاؤں کی خوش نودی کے لیے ایک غیر اسلامی نصاب تعلیم تیار کرایا
تھا۔ اُس کا انجام دنیا نے دیکھا۔آج وہ بگوڑا بناپھرتاہے۔ پاکستان واپس
نہیں آسکتا۔ اس لیے آپ سے گذارش ہے کہ اس سیکولر اور ہیومنزم کی تھیم پر
بنایا گیا نام نہادیکساں نصاب کو منسوخ کیا جائے۔ اوراسے اسلام کی روح
،قومی ضرورتوں، پاکستان کی قومی زبان اُردو اور مدینے کی ریاست کی امنگوں
کے مطابق بنایا جائے۔ ورنہ آپ کی مخالف لا بی اِسے آپ کے خلاف استعمال کرے
گی ۔
|