عنوان پڑھ کر ہو سکتا ہے کہ آپ حیران ہوں کہ بھلا کوئی
تحریر نادیدہ اور کوئی تقریر ناگفتہ کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن سچ پوچھئے تو
کاغذ پر سجے ہوئے خوبصورت حروف اورالفاظ کی تراش خراش کی اس وقت تک کوئی
اہمیت نہیں ہوتی جب تک کوئی تحریر صفحۂ قرطاس سے نکل کر صفحۂ دل پر منقش نہ
ہو جائے۔ یہی معاملہ گفتگو اور تقریر و خطابات کا بھی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ
علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھی آپ کی تشنگی کو نہ بجھا سکے اور یہ بھی
ممکن ہے کہ چند قطروں سے ہی آپ سیراب ہو جائیں۔ آپ نے اکثر اخبارات و رسائل
میں، تعلیمی اداروں کی دیواروں پر، گھروں میں، ڈائریوں میں ’’اقوال زریں‘‘
پڑھیں ہوگے۔ کچھ اقوال ایسے ہوتے ہیں جو زندگی میں انقلابی تبدیلیاں لانے
کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن ہم انہیں پڑھتے ہیں، دل سے یا زبان سے واہ کہتے
ہیں، بہت ہوا تو انہیں اپنے پاس محفوظ کر لیتے ہیں۔۔۔اور بس۔ ایسا ہی کچھ
معاملہ گفتگو اور تقریر و خطابات کا ہے۔ کچھ لوگ اچھا بولنے کی صلاحیت
رکھتے ہیں۔ انہیں گفتگو کا فن آتا ہے لیکن ان کی گفتگو ’’فن‘‘ سے آگے کی
منزل طے نہیں کر پاتی۔ اس کے برعکس کچھ ایسی بھی باکمال شخصیتیں ہوتی ہیں
جو بغیر الفاظ خرچ کیے یا کم سے کم لفظوں میں اپنا پیغام پہنچانے کی صلاحیت
رکھتی ہیں۔ ایسی شخصیتیں آپ کو صوفیائے کرام کے یہاں مل جائیں گی۔ فقیروں
اور درویشوں کے یہاں مل جائیں گی۔ ایسی شخصیتیں ایسی نفوس میں پوشیدہ ہو
سکتی ہیں جو نفوس بظاہر بہت معمولی نظر آتی ہیں۔ یہ وہ نفوس ہیں جو خاموشی
کی زبان سے بہت کچھ کہنے اور دل میں اترنے کا فن جانتی ہیں۔
جب ہم سیرتِ رسول ﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلو م ہوتا کہ آپ ﷺ کم گوئی کو
پسند کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ اور صوفیائے عظامؒ نے کبھی علم کی دھونس جمانے
یا خطابت کا جادو جگانے کی دانستہ کوشش نہیں کی۔ انہوں نے کردار کے ذریعہ
لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور جب لوگ ان کے کردار سے متاثر ہو کر قریب
آئے تو انہیں زیورِ علم و عمل سے اس طرح آراستہ کیاکہ پھر ان کے ذریعہ سے
ہزاروں اور لاکھوں افراد علم و عمل کی دولت سے مالامال ہوئے۔
ہمارا معاملہ بہت مختلف ہو چکا ہے۔ ہمارے چاروں طرف علم کا ٹھاٹھیں مارتا
سمندر موجود ہے لیکن ہم تشنگی کا شکار ہیں۔ ہمارے چاروں طرف تھیوری ہی
تھیوری (Theory) پھیلی ہوئی ہے۔ کتابیں ہیں، رسائل ہیں، انٹرنیٹ ہے، سوشل
میڈیا ہے۔ صبح اٹھتے ہی ہمارا موبائل اقوال زریں سے بھرا ملتا ہے۔ لیکن ان
سب کے باوجود کہیں کوئی خلا سا محسوس ہوتا ہے۔ وہ خلا کیا ہے؟ ہمارے پاس
پریکٹکل(Practical)نمونہ کمیاب ہے۔ ہم جو پڑھتے ہیں، سنتے ہیں ،وہ دیکھ
نہیں پاتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم اندرونی طور پر انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کتب و رسائل میں پڑھ کر، سوشل میڈیا وغیرہ پر دیکھ کر شخصیت کے جو خدو خال
ہم اپنے ذہن میں تیار کرتے ہیں ، وہ ہمیشہ قائم نہیں رکھ پاتے۔ جس شخصیت سے
ہم غائبانہ طور پر متاثر ہوئے بیٹھے ہیں ،ملاقات اور معاملات کے بعد عقیدت
و احترام کو وہ بت ٹوٹ کر پاش پاش ہو جاتا ہے۔اس کے بعد جب اُس شخصیت کے
الفاظ تحریر یا تقریر کی صورت میں ہماری بصارتوں یا سماعتوں سے ٹکراتے ہیں
تو اپنی معنویت اور تاثیر کھو بیٹھتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے کہا
تھا
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
نگاہوں سے بھیجا ہوا پیغام سیدھے دل تک پہنچتا ہے۔اس کے لیے پاکیزہ جذبۂ
عشق کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدا سے عشق۔بندۂ خدا سے عشق۔جس کو یہ دولت مل گئی
سمجھئے اسے ’’دولتِ تاثیر‘‘ مل گئی۔اسے اپنی بات منوانے کے لیے تراشے ہوئے
الفاظ اور دلائل کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لوگ خود ہی اس طلسم کے
اسیر ہو جاتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ جس کے پاس ’’دولتِ عشق‘‘ ہے اس کے
پاس ’’حسنِ دلیل‘‘ نہ ہو۔ وہ اگر کہنے پر آ جائے تو الفاظ اور دلائل اس کے
سامنے سجدہ ریز ہو جائیں۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا رومؒ کسی مجمع سے خطاب
کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ایک شخص نے اعتراض کر دیا کہ مولانا آپ اپنے پسند
کے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں اور ہفتوں ، مہینوں کی تیاری کے بعد اس موضوع
پر تقریر فرماتے ہیں۔ یہ تو کوئی کمال کی بات نہیں ہے۔ ایسے تو کوئی بھی
کرسکتا ہے۔ مولانا رومؒ نے پہلے تو عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں
نے کب اپنے کمالات کا دعویٰ کیا؟ لیکن وہ شخص بضد ہو گیا کہ آج آپ میرے
دئیے ہوئے موضوع پر خطاب فرمائیں گے۔ پھر اُس شخص نے اپنی طرف سے مجمع میں
اعلان کر دیا کہ آج مولانا سورۂ والضحیٰ کی تفسیر بیان فرمائیں گے۔ اسے یہ
گمان تھا کہ آج مولانا بے عزت ہو جائیں گے لیکن مولانا کے چہرے پر کوئی
حرفِ شکایت نہ آیا۔ وہ تھوڑی دیر تک مسکراتے رہے۔ پھر جب انہوں نے والضحیٰ
کی تفسیر بیان کرنے کی شروع کی تو صرف والضحیٰ کے پہلے حرف ’’واؤ‘‘ پر
مسلسل چھ گھنٹہ بولتے رہے۔ یہاں تک کہ وہی شخص جو آپ کو بے عزت کرنا چاہتا
تھا آپ کے قدموں میں گڑ پڑا اور کہنے لگا کہ واﷲ آپ عظیم ہیں۔میں نے آپ کے
حسد میں ایسی حرکت کی۔ مجھے معاف فرما دیجیے۔
آج ہمارے چاروں طرف خوب صورت الفاظ بکھرے پڑے ہیں۔ لیکن یہ الفاظ ہماری
بصارتوں اور سماعتوں سے آگے کی منزل طے نہیں کر پاتے۔ کیوں کہ ہمارے الفاظ
’’جذبۂ عشق‘‘ سے خالی ہیں۔ ہم ’بے زبان تکلم‘ اور ’بے صدا ترسیل‘ کا فن
بھول چکے ہیں۔جس کی بدولت خموشی گفتگو اور بے زبانی زبان بن جاتی ہے
وہ بے زبان تکلم، وہ بے صدا ترسیل
خموش رہ کے بھی سب کچھ کہا کہا سا ہے
اگر آج بھی ہم اپنے قلم کو ’’جذبۂ عشق‘‘ کی روشنائی اور اپنی گفتگو کو
’’لہجۂ عشق‘‘ کی چاشنی عطا کر دیں تو یقینا ہماری تحریر بھی بااثر ہوگی اور
گفتگو بھی۔ بہت ممکن ہے کہ بہت سارے معاملات میں ہمیں تحریر و تقریر کا
سہارا ہی نہ لینا پڑے، ہمارا کردار، ہمارے الفاظ بن جائیں اورعرفان کی اُس
منزل تک پہنچ جائیں جہاں نادیدہ تحریریں اور ناگفتہ تقریریں اپنا جادو
چلاتی ہیں۔
|