خالد کا تعلق ایک کھاتے پیتے
گھرانے سے تھا۔لیکن اس کا چچا بہت ہی کنجوس تھا، اور تنگی کی زندگی جیتا
تھا؛ کیوں کہ وہ دولت نہ اپنے اوپر صرف کرتا تھا اور نہ کسی اور ہی کو دیتا
تھا۔بس یہی وہ بات تھی جس کے باعث لوگ اسے پسند نہیں کرتے تھے اور نہ کوئی
عزت دیتے تھے۔
اس کی کوشش ہوتی تھی کہ جو کچھ اس کے پاس ہو اسے اشرفیوں میں تبدیل کرا لے
؛کیوں کہ وہ اشرفیوں کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھنا پسند کرتا تھا۔ایک دن
اس نے وہ ساری اشرفیاں اپنے باغ میں دفن کردیں۔ اب ہر روز وہ باغ میں جاتا،
اشرفیوں کو زمین سے نکالتا ، ایک ایک کر کے انھیں گنتا اور پھر واپس وہیں
زمین میں گاڑ دیتا تھا۔
ایک دن جب وہ باغ میں گیا تو اسے اشرفیاں نہیں ملیں، یقیناً کسی نے چوری کر
لی ہوں گی۔اب وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا، اور سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ
کیا کرے۔
جب خالد کو اس حادثہ کی خبر ہوئی تو وہ اپنے کنجوس چچا سے ملنے کے لیے گیا
اور کہا :جو پیسے چلے گئے چلے گئے ، ان پر آنسو بہانے سے کوئی فائدہ
نہیں۔وہ آپ کے نہیں تھے۔اگر وہ آپ کے ہوتے تو آپ انھیں باغ میں لے جاکر
کبھی زیر زمین دفن نہیں کرتے بلکہ اپنے مفید کاموں میں اسے استعمال کرتے،
اس سے لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتے اور عوام وخواص میں عزت کماتے۔
پیارے بچوں!کنجوسی کتنی بری چیز ہے اس کا اندازہ اس سے لگاؤ کہ حضور اقدس
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اللہ کی پناہ چاہی ہے۔نیز آپ صلی اللہ علیہ
وسلم فرماتے ہیں :
’’کنجوس اللہ سے دور ہوتا ہے، جنت سے دور ہوتا ہے، لوگوں سے دور ہوتا ہے
(اور) جہنم سے قریب ہوتا ہے‘‘۔
البَخِیلُ بَعِیدٌ مِنَ اللّٰہِ بَعِیدٌ مِنَ الجَنَّۃِ بَعِیدٌ مِنَ
النَّاسِ قَرِیبٌ مِنَ النَّارِ
(سنن ترمذی:۷؍۲۲۲ حدیث: ۱۸۸۴) |