سخت ٹھنڈی پڑ رہی تھی۔ اور حسن
بیکری سے کچھ روٹیاں خرید کر گھر واپس لوٹ رہا تھا۔اچانک اس کی نگاہ ایک
مسکین اور کمزور کتے پر پڑ گئی۔ وہ اتنا لاغر تھا کہ اس کی ساری پسلیاں ایک
ایک کر کے گنی جاسکتی تھیں۔
کتے کی نگاہ جب حسن کے جھولے میں پڑی روٹیوں پر پڑی تو وہ للچائی ہوئی
نگاہوں سے دیکھتا رہ گیا اور زبان چلانے لگا۔
یہ کیفیت دیکھ کر حسن کا دل رحم ومروّت سے بھر آیا،اس نے کتے پر ترس کھاتے
ہوئے اپنے آپ سے کہا: اگر میں ایک روٹی اس بھوکے کتے کو دے دیتا ہوں تو
میری ماں مجھ پر یقیناً ناراض ہوگی، مگر پھر اس نے فیصلہ کیا کہ چلو ذرا
دیر کے لیے ماں کی ڈانٹ سن لیں گے مگر اس کتے کا پیٹ تو بھر جائے گا۔ یہ
خیال آتے ہی اس نے جھولا زمین پر رکھا اور اس کے اندر سے روٹی نکال کر اسے
توڑ نے لگا تاکہ روٹی کے چھوٹے ٹکڑے کتا بآسانی کھاسکے۔
حسن کے پیچھے ایک دوسرا شخص بھی اتفاق سے بیکری ہی سے آرہا تھا اس نے حسن
کی باتیں سن لی تھیں تو اس نے چپکے سے ایک روٹی زمین پر پڑے حسن کے جھولے
میں ڈال دی ۔
کتے کو کھلا کر حسن نے اپنا جھولا اُٹھایا اور لے کر گھر پہنچا، لیکن اس
وقت اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ جھولے کے اندر پوری اتنی
ہی روٹیاں ہیں جتنی اس نے بیکری سے خریدی تھیں ۔
پیارے بچوں! کاش حسن کو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث معلوم
ہوتی تو اسے فیصلہ کرنے میں اتنی دیر نہ ہوتی اور وہ خوشی خوشی وہ کام کر
گزرتا ۔حدیث میں ہے :
’’صدقہ وخیرات کرنے سے کبھی مال میں کمی نہیں آتی‘‘۔
مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ
(صحیح مسلم: ۱۲؍۴۷۴حدیث: ۴۶۸۹) |