رَمزی ایک شریر بچہ تھا اور اسے
ہمیشہ شرارت کی سوجھی رہتی تھی۔ اس کا باپ کسی میدان میں کام کررہا تھا۔ایک
دن وہ اپنے باپ کا کھانا لے کر چلا۔ چوٹی کے اوپر چٹان کے پیچھے اسے ایک
سایہ نظر آیا، اس نے سمجھا ہو نہ ہو اوپر کوئی بچہ ضرور ہوگا جس کا وہ سایہ
پڑ رہا ہے۔اس نے زور سے چیخ لگائی: ہے!!!!۔چوٹی کے اوپر سے بھی ایک آواز
آئی: ہے!!!!۔
رمزی کو پتا نہیں تھا کہ یہ صدائے بازگشت ہے اور میری اپنی ہی آواز پہاڑ سے
ٹکرا کر واپس آرہی ہے۔ اس نے سمجھا کہ وہ بچہ چوٹی کے اوپر ہے جہاں سے وہ
میرا مذاق اُڑا رہا ہے۔اس نے غصہ میں لال پیلا ہو کر کہا : ’’گھبراؤ نہیں
بس میرے آنے کا انتظار کرو، دیکھو میں اوپر آکر کیا کرتا ہوں‘‘۔
اوپر سے آواز آئی :’’گھبراؤو نہیں بس میرے آنے کا انتظار کرو، دیکھو میں
اوپر آکر کیا کرتا ہوں‘‘۔
اب تو رمزی غصے میں بے قابو ہونے لگا تھا اور پورا زور لگا کر کہا :
اے بزدل! ہمت ہے تو باہر نکلو اور آکر مجھ سے مقابلہ کرو۔
جب بالکل یہی جواب اس کے کانوں میں پڑا تو وہ بے تاب ہوکر چوٹی پر چڑھنے
لگا، تھوڑی ہی دیر میں تھک کر چور ہوگیا،مگر اسے وہاں کوئی نظر نہیں آیا۔اس
نے سمجھا ہو نہ ہو دوسرا بچہ کہیں اور جاکر چھپ گیا ہوگا، وہ چٹان کے اوپر
چڑھ گیا اور چاروں طرف آواز لگا نے لگا اور دل ہی دل میں سوچ رہا ہے کہ اگر
وہ بچہ مل گیا تو میں اس کا برا حال کردوں گا۔مگر وہ بزدل بچہ رمزی کے
سامنے آنے کی ہمت نہ کرسکا۔
بہت دیر کے بعد رمزی کو اپنے باپ کی یاد آئی کہ اب تک تو بھوک سے اس کا برا
حال ہوگیا ہوگا ۔وہ سیدھا اپنے باپ کے پاس پہنچا اور اس نے سارا قصہ اپنے
باپ کو کہہ سنایا۔اس نے باپ نے اسے ایک محاورہ سنایا :
وہ شخص جو اپنی من چاہی دوسروں کو سنانا چاہتا ہے،
اسے وہ کچھ سننا پڑتا ہے جسے وہ سننا نہیں چاہتا۔
پیارے بچوں! اگر رمزی کوہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یاد
آتی تو وہ اپنے آپ پر اس طرح بے جا ظلم نہ کرتا : ’’جو شخص اللہ اور روزِ
آخرت پر ایمان رکھتاہے تو اسے چاہیے کہ وہ زبان سے اچھی بات نکالے یا پھر
خاموش رہے‘‘۔
مَنْ کَانَ یُؤمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَومِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أوْ
لِیَصْمُتْ
(صحیح بخاری: ۱۸؍۴۳۷حدیثـ:۵۵۵۹) |