رمضان کے مبارک دن تھے ، اور
کریم افطار کی تیاری کرنے کے لیے بازار سے کچھ سودا سلف خریدنے جارہا
تھا۔جب دوکان پر پہنچا تو وہاں ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔جیسے جیسے افطار
کا وقت قریب آتا جارہا تھا لوگوں کی بے چینی کے ساتھ بھیڑ بھی بڑھتی جارہی
تھی۔
دوکان دار خود بھی مسلمان تھا، اس لیے لمبی قطار دیکھ کر وہ بھی فکرمند تھا
اور انھیں جلدی جلدی فارغ کرنے کی کوشش کررہا تھا۔جب کریم کی باری آئی
توافطار کا وقت بالکل سر پر آچکا تھا، اور دوکان دار اس وقت تک ذہنی طور پر
بالکل ہی تھک چکا تھا۔ کریم نے پچاس روپے کا سودا خریدا اور سو کی نوٹ
دوکاندار کو دی مگربجائے اس کے کہ کریم کو پچاس واپس ملتے دوکاندار نے اس
سے بہت زیادہ روپے کریم کو لوٹائے۔ پہلے تو کریم کو ہچکچاہٹ محسوس ہوئی
اوراس نے تعجب بھری نگاہوں سے دوکان دار کے چہرے پر دیکھا۔
دوکان دار نے پوچھا: کوئی بات تو نہیں ہے؟۔
کریم نفی میں جواب دیتا ہوا روپے لے کر چل پڑا۔جب رات کھانے پر بیٹھا تووہ
بڑا فکرمند اوراندر سے ٹوٹاہواتھا۔رات جب سونے کے لیے بستر پر گیا تواس کی
ذہنی کوفت اور بڑھ گئی۔اس نے محسوس کیا کہ جیسے کوئی نادیدہ انسان میرے
ضمیر کو جھنجھوڑ کرمجھ سے پوچھ رہاہے :
’’کریم! تم نے یہ حرکت کیوں کی؟۔وہ روپے چپکے سے رکھ لینے کا تمہیں کس نے
حق دیا تھا جواصلاً تمہارے تھے ہی نہیں !‘‘۔
کریم نے سوچا کہ اب ماں سے چل کر ساری داستان کہہ دیتا ہوں؛ مگر پھر اس نے
فوراً اِرادہ بدل لیااور ماں سے کوئی بات نہ بتائی؛ کیوں کہ اسے پتا تھا کہ
ماں میری یہ حرکت سن کرغصے سے لال پیلی ہوجائے گی۔پوری رات وہ یوں ہی بے
چینی میں کروٹیں بدلتا رہا، کسی پہلو نیند نہ آئی۔ اور پھرصبح اُٹھ کر بھی
وہچین کی سانس نہ لے سکا۔
پیارے بچوں! پھر کیا ہوا کہ بے قراری میں کریم کی نگاہ دیوار پرلگے کیلنڈر
پر چلی گئی جہاں اسے آقا علیہ السلام کی ایک حدیث لکھی نظر آئی جسے پڑھ کر
وہ اور بے قرارہوا پھر جاکرزائد روپے دوکاندار کے حوالے کردیے، وہ حدیث پاک
یہ ہے :
’’وہ عمل‘ گناہ ہے جو تمہارے دل کو مضطرب رکھے، اور تم لوگوں سے اسے بتانا
بھی پسند نہ کرو‘‘۔
الإثْمُ مَا حَاکَ فِي صَدْرِکَ وَکَرِہْتَ أنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ
النَّاسُ
(صحیح مسلم: ۱۲؍۴۰۳حدیث:۴۶۳۲) |