سالانہ اپریزل اور آموں کا موسم

سرکاری ملازمین کے لئے مئی اور جون کے مہینے بہت اہم ہوتے ہیں کیونکہ ان مہینوں میں ہر طرف سالانہ اپریزلز (کارکردگی رپورٹ) کا بہت چرچا رہتا ہے اور ہر جگہ طرح طرح کی چہ مہ گوئیاں گوش گزار ہو رہی ہوتی ہیں ۔جسطرح شبِ برات میں اللہ رب العزت اپنے بندوں کے لئے اعمال نامے مرتب کرتے ہیں، بلکل اسی طرح مئی اور جون میں سالانہ اپریزلز کی وجہ سے یہ کام شاید اللہ کے بندوں کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ جسکا نتیجہ جولائی اگست میں منظرِ عام پر رونما ہوتا ہے، اور پھر کسی کا منہ کھلا تو کسی کا کھِلا نظر آتا ہے۔ مذکورہ مہینوں میں ہر ملازم کسی بھی طریقے سے زبردستی اپنے سینئر کی قربت کا متمنی ہوکر اس سے اپنا ڈاکخانہ ملانے کی کوششوں میں نظر آتا ہے۔ جو حضرات سارا سال کچھ نہیں صرف کمال کرتے ہیں یا صرف زبانی جمع خرچ پر گزارہ کرتے ہیں، وقت کی نزاکت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے باس کے آگے پیچھے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی کسی کام سے تو کبھی یونہی سلام دعا اور بچوں کا حال احوال جاننے کے لئے۔یا کبھی پرانی دوستیاں اور رشتہ داریاں یاد کرائی جارہی ہوتی ہیں، کوئی اپنے اچھے کارناموں کے گن گا رہا ہوتا ہے۔ایک صاحب تو بھلیکے میں ایک ایسے صاحب سے بچوں کا پوچھ بیٹھے جن کی ابھی شادی تو کیا بات بھی طے نہیں ہوئی تھی۔ ایک بڑے میاں اپنی ایک کنواری خاتون افسر کو بیٹا ہونے کی دعا بھی دے بیٹھے ، نتیجہ آپ خود سمجھ سکتے ہیں؟؟ ۔ ایسے موسم میں کچھ لوگ اِدھر ادھر سے کہنے کہلوانے اور سفارشوں کا سلسلہ بھی نہیں گنواتے۔چاہے اسکے لیے انہیں کسی حد تلک بھی جانا پڑے؟؟۔ حالانکہ صاحب بہادر لوگ نے کرنی صرف اپنی ہی ہوتی ہے ۔ یعنی آپکو جتنا انکریمنٹ آخری دفع دیا گیا تھا اس سے زیادہ کی توقع کرنا بھی عبث ٹھہرتا ہے، کمی البتہ ہر وقت ممکن ہوتی ہے۔ تا ہم ملازم بیچارہ دل کی تسلی اور گوھر نایاب پانے کے لئے پھر بھی اپنی سی کو شش جاری رکھتا ہے۔ جس میں اسے اکثر ناکامی اور کبھی کبھار ہی کامیابی ملتی ہے۔

قدرت کی کاری گری دیکھئے کہ سالانہ اپریزلز اور آموں کا موسم ایک ساتھ آ تا ہے۔ لگتا ہے جیسے آ م اور اپریزلز کا کوئی بہت پرانا رشتہ ہو(مگر سمجھ میں وقت پڑنے پر آتا ہے) ۔ کرکٹ ڈپلومیسی اور بیک ڈور چینل ڈپلومیسی اور دیگر کئی طرح کی ڈپلومیسیوں کی طرح آم ڈپلومیسی کا بھی اپنا ایک اعلیٰ اور ارفع مقام ہے اور آم ڈپلومیسی اس موسم میں سب سے زیادہ کامیاب نظر آتی ہے۔ جس کسی کا بھی کوئی کام پھنسا ہو، ایک پیٹی آم لگا کر کام نکال لیا جاتا ہے۔ حتی کہ پچھلے سال تو امریکی وزیرِ خارجہ کو بھی آم کھلا کر دام لیے گئے تھے۔ سرکاری ملازم بیچارہ جس نے پورا سال بے شک اپنے سوپیریئرز کے گھر چاہے گیارہویں شریف کا حلوہ یا قربانی کے بکرے کی ران بھی نہ بھیجی ہو مگر ، پھل، پھول ، گفٹ ٓا ئٹم کے ساتھ ساتھ، اس آم کے موسم میں آم کی بھی کوئی نہ کوئی ا چھی سی ورائیٹی اپنے باس کے گھر ضرور بھجوا تا ہے۔ تا کہ من کی مراد پا سکے یعنی اپنی اپریزل اچھی بھرواسکے ۔ بعض دفعہ تو سوپیریئرز کے گھر اتنے آم جمع ہو جاتے ہیں کہ گھر کے نوکروں، خاندان والوں اور محلے والوں کے بھی مزے ہو جاتے ہیں ۔بلکہ کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی محلے والے کے ہاں سالن نہ ہو تو بچہ بھیج کر سوپیریئرز کے گھر سے آم منگوا کر اسکی چٹنی سے روٹی سوت لی جاتی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے ہمارے ایک محلے دا ر تایاعنایت آ م اور مچھلی کی سپلائی کا کام سرانجام دیتے تھے مگر بقضائے الہی اب اس جہان فانی سے کوچ کر کے مرحوم ہو گئے ہیں (اللہ رب العزت انکی مغفرت کرے اور جنت الفردوس میں جگہ دے) اِنہوں نے بہت سے گھروں میں اپنی مچھلی اور آم سپلائی سے گودیں بھی ہری کرائیں ، مگر اب انکے بغیر لوگوں کو آ م اور مچھلی کی سپلائی میں شدید مشکلات کا سامنا درپیش ہے ۔

آم کے اس موسم میں کچھ لالچی قسم کے افسران فرمائش کر کے مہنگی ورائٹیاں بھی منگواتے ہیں ، جو کہ بعض دفعہ غریب ملازمین پر بڑا بھار ڈال جاتی ہیں ۔ بہرحال! جو ملازم سب سے اچھی اور مہنگی ورائٹی اچھی سی پیکنگ میں باس کے گھر بھیجے اسکی سالانہ کارکردگی رپورٹ بھی اچھی بھیج دی جاتی ہے اور اگر کوئی ملازم فجری ، مالدا ، دیسی یا شانِ خدا جیسی کسی سادہ ورائٹی پرپر ٹرخانے کی کوشش کرے تو اسے ہمیشہ کے لیے دوسری جگہ ٹرخا دیا جاتا ہے۔ آتے موسم میں جب آم پانچ سو روپے کلو ہو تو ہم جیسے غریب غرباء اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب یہ پچاس روپے کلو پر آئے تو ہم خود کھائیں اور بچوں کو بھی کھلائیں ، لیکن کچھ ملازمین تو تاڑ میں رہتے ہیں اور پانچ سو روپے کلو والے آم اپنے بڑوں کے ہاں بھیج کر پانچ لاکھ کا فائدہ اٹھا تے ہیں۔ہمارے لوٹے سیاستدان بھی اس موقع پر اپنے تعلقات سیدھے کر نے کے لیے دھڑا دھڑ آم کی پیٹیاں اِدھر سے ادھر کر کے اپنے کام سیدھے کرتے رہتے ہیں ۔ کچھ ناہنجار قسم کے ملازمین تو صاحب کی صاحبہ سے فرمائش پوچھ کر آم بھجواتے ہیں تا کہ آموں کا اثر جلد اور اچھا ہو۔ہمارے ایک واقف کار ہیں وہ اکثر اپنے صاحب کے ہاں آم مہنگے ترین کوریئر سے بجھواتے ہیں حالآنکہ دونوں ایک ہی محلے میں رہتے ہیں۔ وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ انکے باس اور باسنی دونوں ذرا غصے کے تیز ہیں، پتہ نہیں کب انکا پارا ہائی ہو جائے اسلئے خود جانے کا رسک نہیں لیتے۔ ایک بار تو انکے صاحب نے کوریئر والے لڑکے کو بھی ڈانٹ ڈپٹ کر کے بھگا دیا تھا، پھر اس آنی جانی میں آم کی ڈیٹ ایکسپائر ہوگئی، آم خراب ، بھنگی بھی نہ کھائے، آخر کار اروڑی کی نظر کرنے پڑے۔

بہرحال! بات ہو رہی تھی سرکاری ملازمین کی تو انمیں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو گھریلو مسائل کی وجہ سے ) وجہ لکھنا مناسب نہیں(آفس دیر سے آنا ، کسی پری فِکس ڈیٹ وغیرہ کی وجہ سے جلدی چلے جا نا اور آئے روز بیمار شیمار ہوجانے والے، نانی اور دادی کو درجنوں بار مار کر چھٹیاں لینے والے ملازم حضرات بھی ان دنوں میں پرہیز علاج سے بہتر ہے کے مصداق مذکورہ تمام بری عادات سے عارضی طور پر پرہیزی اختیار کر کے آم ڈپلو میسی پر آجاتے ہیں اور جونہی آم کا سیزن گیا اگلی پچھلی ساری کسر پوری کر دیتے ہیں۔

ویسے اگر بنظر ِغایئر جائزہ لیا جائے تو اس اپریزل کے اثرات پور ے سال محسوس ہوتے ہیں، (بلکل ایسے ہی جسے پہاڑی علاقوں میں وقت بے وقت زلزلوں کے جھٹکے) مثلاً بونس کا ملنا، رمضان کا خرچہ، عیدین کا خرچہ ، میکے اور آبائی گھر آنا جانا ، سیرو تفریح وغیرہ وغیرہ۔ویسے موجودہ ملکی اور معاشی حالات اور حالیہ حکومتی بیانات کے پیش نظرخدشہ ہے کہ روتے پیٹتے ، گلے میں سوکھی روٹیاں لٹکائے مظاہرے کرتے ملازمین کی فریاد ر اس بار بھی ر ائیگاں جائیگی اور بونس اور تنخواہوں میں اضافے کے معاملہ میں کو ئی خفیہ ہاتھ حرکت میں آسکتا ہے جسکی وجہ سے بونس اور انکریمنٹ میں کمی بھی ہو سکتی ہے۔ نتیجتا خاتون خانہ سے گھریلو اخراجات اور فضول خرچی جیسے معاملات پر حالات کشیدہ بھی ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب میں تو ایک جج صاحب نے فضول خرچی پر خاتون خانہ کی پٹائی کو بھی جائز قرار دے دیا ہے، لہذا زیادہ پریشانی کی بات ہے بھی اور نہیں بھی۔ اور ہاں! اگر معاشی حالات کی وجہ سے اس سال بونس وغیرہ کچھ کم آئیں تو آ پ بھی گھر جانے سے پہلے سرکار سے ہیلمٹ کا تقاضا کر سکتے ہیں، جیسا کہ برطانوی پولیس میں موجود سردار صاحبان نے پگڑی کے اوپر پہننے کے لیے ہیلمٹ مانگ لیا ہے تاکہ ناگہانی آفات اور بلیات سے محفوظ رہا جا سکے۔ جی جناب! تو بات ہو رہی تھی آم ڈپلومسیی کی تو اگر آپ بھی خاتونِ خانہ سے پھڈا نہیں کرنا چاہتے اور ہیلمٹ سے بھی بچنا چاہتے ہیں تو اپنے تمام رکے ہوئے کام نکالنے کے لیے آموں کے اس موسم کا بھر پور فائدہ اٹھائیں۔

آخر میں ملازمین سے مودبانہ گزارش ہے کہ آئندہ گھریلو بجٹ کی تیاری سے فی ا لحال پرہیز رکھیں جب تک کہ تنخواہوں میں اضافے کے لیٹر یا سر کلر سر کار کی طرف سے جاری نہ ہو جائیں ِ اور پرسنٹیج(%) جو بھی ملے صبر شکر کر کے اسی پر گزارہ کریں۔ اگر اتفاق سے پرسنٹج کچھ زیادہ مل جائے تو کسی سے ذکر خیر نہ کریں، کہ کسی حاسد کی نظر نہ لگ جائے۔ خاتون خانہ کو بالخصوص بونس اور تنخواہوں میں اضافے جیسے معاملات سے ہمیشہ بلکل الگ تھلگ رکھیں، اسی میں سب کا بھلا ہے۔ (ورنہ خرچے کی ایک لسٹ تیار ملیگی)
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 234819 views self motivated, self made persons.. View More