صحابہ کرام ؓ آسمان ہدایت کے روشن ستارے ہیں اور ان
ستاروں میں خلیفۂ دوئم، فاتح عرب وعجم، خسرِ رسولؐ، داماد علیؓ،امیر
المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی مبارک شخصیت نہ صرف عالم اسلام
بلکہ تمام غیر مسلم مؤرخین میں بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔دنیا کا ہر
مصنف و مؤرخ آپؓکے تدبر، تفکر،دور اندیشی ، باریک بینی،زیرکی، ذہانت و
فطانت،بصیرت ، شجاعت،حسن انتظام،عدل و انصاف، محبت رسولؐاور خوف خدا کا
قائل نظر آئے گا۔من جملہ ایک بہت بڑی خوبی جو سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ
کی شخصیت کو چار چاند لگا دیتی ہے وہ آپؓ کی اصابت رائے اور اجتہاد ہے،آپ ؓ
کے مشوروں اور رائے کو بارہا تائید ایزدی کا شرف حاصل ہونا آپؓ کو اپنے
دیگر تمام رفقاء میں یکسر ممتاز مقام پر لا کھڑا کرتاہے۔ اس امر میں کوئی
شک نہیں کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ مشورہ زمین پر دیتے جبکہ اس مشورے
کی تصدیق اور سند آسمانوں سے وحی کے ذریعے ملتی تھی۔لہٰذا نبی اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری کردیا
ہے۔ذیل میں تواریخ و تفاسیر سے اخذ کردہ ایسے متعدد مقامات کی نشاندہی کی
گئی ہے کہ جب سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والے
الفاظ و مطالب کی حمایت و تصدیق وحیٔ الٰہی سے کی گئی۔
1۔ مقام ابراہیم ؑ کو نماز پڑھنے کے جگہ بنانے کی خواہش
مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
کعبہ کو تعمیر فرمایا ، روایات میں ہے کہ جب نبی کریم حضرت محمد صلی اﷲ
علیہ وسلم نے بیت اﷲ کا طواف کیا تو سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ تمنا کی کہ کیوں نہ ہم مقام ابراہیم کو نماز
پڑھنے کی جگہ بنا لیں،اس بات کو کچھ ہی دیر گزری تھی کہ رب العالمین کی طرف
سے سورۂ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی،
وَاتَّخِذُوا مِن مّقَامِ اِبرَاھِیمَ مُصَلّیٰ
اور تم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کرلو
2۔ امہات الموٗمنین ؓ کے لیے پردے کے حکم کی خواہش
اسلام میں جب تک پردے کے واضح احکام نازل نہیں ہوئے تھے تو نبی اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم کے انتہائی احترام کے پیش نظر سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی
دلی خواہش تھی کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پردے میں
رہیں۔ ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے اس خواہش کا اعادہ کیا اور
عرض کیا یا رسول اﷲ ! آپ کے گھر میں نیک و بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں ، کاش
آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دے دیں، اسی وقت امہات المؤمنین ؓکے پردے
کے وہ احکام نازل ہوئے جوقرآن حکیم کی سورۃ الاحزاب میں درج ہیں
وَاِذَا سَاَ لتُمُوھُنَّ مَتَاعاً فَسئَلُوھُنَّ مِن وَّرَآءِ حِجَاب
اور جب تم نبی ؐ کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو حجاب کے پیچھے سے طلب
کرو
3۔ امہات المؤمنین ؓ کو تنبیہ
ایک مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کو خبر ملی کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ
وسلم اپنی ازواج مطہرات ؓ سے کسی معاملے پر ناراض ہیں ، آپؓ اپنی بیٹی حضرت
حفصہ رضی اﷲ عنہا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں ان کے پاس اور
پھردیگر امہات المؤمنین کے پاس گئے اور فرمایا تم لوگ باز آجاؤ ورنہ اﷲ
تعالیٰ تم سے بہتر ازواج رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دے گا۔ اس موقع پر
سورۂ تحریم کی یہ آیت نازل ہوئی،
عَسیٰ رَبُّہُ اِن طَّلَقَکُنَّ اَن یُبدِلَہُ اَزوَاجاً خَیراً
اگر نبی ؐ تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد ان کا رب
اس کے بدلے میں انہیں اچھی بیویاں دے گا
4۔ بدر کے قیدیوں کے قتل کا مشورہ
غزوۂ بدر میں صحابہ کرام ؓ نے70کافروں کو گرفتار کرلیاتو یہ مشورہ کیا گیا
کہ ان جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم
نے صحابہ کرام ؓ کی رائے لی جس پر مختلف آراء پیش کی گئیں،ایک مشورہ یہ دیا
گیا کہ ان سے فدیہ لے کر معاف کر دیا جائے، ایک اور رائے یہ دی گئی کہ ان
کو درختوں کے ساتھ باندھ کر آگ لگا دی جائے۔جبکہ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ
عنہ نے یہ عرض کیا ، یارسول اﷲ! ان لوگوں نے آپ ؐ کو جھٹلایا اور آپ ؐ کو(
آپؐ کے وطن سے) نکال دیا آپؐ اجازت دیجیے کہ ان کی گردنیں اتار دی جائیں۔
رحمۃ اللعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے رحیمانہ مزاج کے باعث رحم کرنے کا
ارادہ فرمایا اور ان قیدیوں سے فدیہ لے عام معافی کا اعلان فرما دیا، اس
واقعہ پر رب العالمین نے وحی کے ذریعے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے مشورے
کی حمایت فرمائی لہٰذا سورۃالا نفال کی درج ذیل آیات نازل ہوئیں
مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَن یَّکُونَ لَہُٓ اَسریٰ حَتَّیٰ یُثخِنَ فِی
الاَرضِ
تُرِیدُونَ عَرَضَ الدُّنیَا وَاﷲُ یُرِیدُ الآخِرۃ وَاﷲُ عَزِیز’‘ حَکیم
نبی (کی شان) کے لائق نہیں کہ یہ قیدی(زندہ)رہ جائیں جب تک کہ زمین
میں(کفار کی)خوب خون ریزی
نہ کرلی جائے۔تم لوگ دنیا کا مال اسباب چاہتے ہواور اﷲ تعالیٰ آخرت( کی
مصلحت )کو چاہتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ
بڑے زبردست بڑی حکمت والے ہیں
5۔ منافقین کے لیے استغفار نہ کرنے کا مشورہ
منافقین کے بارے میں اﷲ کا یہ حکم آیا کہ
اِ ن تَستَغفِرلَھُم سَبعِینَ مَرَّ ۃًفَلَن یَّغفِرَاﷲُ لَھُم
اگر آپ ستر باربھی ان کے لیے مغفرت طلب
کریں تب بھی اﷲ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا
چونکہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے سراپا رحمت بنا کر بھیجا
تھا لہٰذا آپ ؐ کی دلی خواہش تھی کہ ہر پیدا ہونے والا شخص کسی بھی طرح
جہنم سے بچ کر جنتی بن جائے لہٰذا اس آیت کے نزول کے بعد نبی اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے خواہش ظاہر فرمائی کہ میں ستر سے بھی زیادہ مرتبہ ان کے لیے
استغفار کر لوں، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا ، یا رسول اﷲ! اﷲ کبھی بھی
ان کی مغفرت نہیں کرے گا، آپ ؐ ان کے لیے معافی مانگیں یا نہ مانگیں۔پس اس
کے بعد سورۃ المنافقون کی یہ آیت نازل ہوئی
سَوآء’‘ عَلَیھِم اَستَغفَرتَ لَھُم اَم لَم تَستَغفِر لَھُم لَن یَّغفِرَ
اﷲُ لَھُم
برابر ہے خواہ آپ ان کے لیے معافی مانگیں یا نہ مانگیں اﷲ ان کو ہرگز نہیں
بخشے گا
6۔ منافق کا جنازہ نہ پڑھانے کا مشورہ
عبداﷲ بن ابئی بن سلول جو کہ اپنی اسلام دشمنی کے باعث رئیس المنافقین
کہلاتا تھا۔بظاہر خود کو مسلمان ظاہر کرتا تھا لیکن دل سے اﷲ اور رسول ؐ کا
دشمن تھا۔اسی عبداﷲ کا بیٹا صحیح مسلمان تھااور اپنے باپ کے منافقانہ رویے
سے خائف و تائب بھی تھا۔جب اس منافق کا انتقال ہو گیا تو اس کا بیٹا نبی
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ا اور درخواست کی آپ ؐ اس کا
جنازہ پڑھا دیں تو یقینا اس کی مغفرت ہو جائے گی۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم
مجسم رحمت تھے۔آپؐ کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اگر میرے جنازہ پڑھانے سے
کوئی شخص جہنم کی بجائے جنت میں جا سکتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔آپ ؐ
کے اس کریمانہ طرزعمل اور دشمن سے درگزرکے باعث کئی منافقین توبہ کرکے
اسلام میں داخل ہو گئے۔جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھانے کا
فیصلہ کر لیا اور اس کے لیے تشریف لے جانے لگے تو سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ
عنہ نے آپ ؐکا دامن تھام لیا اور عرض کیا ، یا رسول اﷲ !آپ ابن ابئی کی
نماز پڑھانے کے لیے تیا ر ہو گئے ہیں حالانکہ اس نے فلاں فلاں دن اس طرح کی
باتیں (اسلام کے خلاف) کی تھیں، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسکرا کر
سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کو سمجھایا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس کا جنازہ
پڑھانے سے منع نہیں فرمایا۔آپؐ نماز جنازہ پڑھانے کے بعد واپس تشریف لائے
تو تھوڑی ہی دیر میں سورۂ توبہ کی دو آیا ت نازل ہوئیں
وَلاَ ْتُصَلِّ َعَلیٰٓ اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَاْتَ اَبَداً وَلاَ ْتَقُمْ
َعَلیٰ قَبرِہ اِنَّھُْم کَفَرُوْا باِﷲ ِوَرَسُولِہ وَمَاتوُا وَ ھُمْ
فَاسِقُوْن
اور ان میں سے کوئی مر جائے توکبھی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر
پر کھڑے ہوں، بے شک انہوں نے اﷲ اور اس کے رسول سے کفر کیااور نافرمانی کی
حالت میں مر گئے
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم نے کبھی کسی منافق کا جنازہ نہیں پڑھا اور نہ کسی منافق کی قبر پر گئے
7۔ زبان سے نکلے الفاظ آیت قرآنی بن کر آ گئے
جب سورۂ المومنون کی ابتدائی آیات میں اﷲ تعالیٰ نے انتہائی خوبصورت انداز
میں تخلیق انسانی کے مراحل بیان فرمائے اور پھر سیدناعمر رضی اﷲ عنہ نے یہ
آیت پڑھی تو بے ساختہ زبان سے یہ الفاظ نکلے
فَتَبٰرکَ اﷲ ُاَحْسَنُ الْخالِقین
سو بڑی برکت اﷲ کی جوسب سے بہترین تخلیق کرنے والا ہے
پس یہ الفاظ وحی بن کر آگئے اور اسی مذکورہ آیت کے ساتھ منسلک کر دیے گئے۔
8۔ برأت سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا
ایسا ہی ایک اور واقعہ اس وقت پیش آیا جب عبداﷲ بن ابئی وغیرہ منافقین نے
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا پر بہتان تراشی کی، نبی اکرم صلی
اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ طلب کیا تو فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے
فرمایا
سُبْحَانَکَ ھٰذا بُھتاَن’‘ عَظِیم
پس جب رب العالمین نے وحی کے ذریعہ ام المؤمنین ؓ کی براٗت کا اعلان
فرمادیاتو سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے یہی الفاظ سورۂ النور کی آیات کا
حصہ بن گئے
یہ چند واقعات اختصار کے پیش نظر سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے یوم
شہادت(یکم محرم الحرام) کے حوالے سے تحریر کیے گئے ہیں جبکہ آپؓ کی موافقت
ِ وحی کے مزید واقعات بھی موجود ہیں۔ ان عوامل سے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ
عنہ کی مبارک شخصیت کی عظمت و حقانیت روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے جس کا
اظہار نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمایا ’’ لو کان
بعدالنبی لکان عمر‘‘ یعنی اگر میرے بعد کسی نبی کو آنا ہوتا تو وہ عمر
ہوتے۔
|