امیر المومنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی خدمات و خصوصیات فضیلت

سیدنا عمر فاروقؓ قریباً تیس برس کی عمر میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے ،قبول اسلام سے پہلے آپ عرب میں علم الانساب کے عالم ،عربی ادب کے ماہر ،شعر وسخن میں یکتا تصور کیے جاتے تھے ۔سفارت میں یدطولیٰ رکھتے تھے ۔آپؓ عرب کے سفیر اور عرب سرداروں کے مشیر کی حیثیت سے مشہور تھے ۔جب آپ مسلمان ہونے کیلئے حاضر ہوئے تو رسول اﷲﷺ نے اپنی جگہ سے چند قدم آگے چل کر معانقہ فرمایا اور آپؓ کے سینے پر تین مرتبہ ہاتھ پھیر کر دعا دی کہ ’’اے اﷲ! ان کے سینہ سے کینہ اور عداوت نکال دے اوران کے سینہ کو ایمان سے بھردے ‘‘۔

آپؓ کے اسلام لانے پر جبرائیل علیہ السلام مبارکباد دینے کیلئے آئے اور رسول اﷲﷺ سے کہا کہ ’’ یارسول اﷲﷺ اس وقت آسمان والے ایک دوسرے کو جناب عمرؓ کے اسلام لانے کی خوشخبری سنارہے ہیں ۔‘‘ قبول اسلام کے بعد آپؓ نے آنحضرتﷺ سے ’’الفاروق‘‘ کا لقب پایا ۔

آپؓ کی زندگی تاریخ میں پوری تابانی سے جگمگارہی ہے ،تمام صحابہ کرامؓ مریدین نبوت تھے ، مگر حضرت عمرفاروقؓ مراد نبوت تھے ۔آپﷺ کی نگاہ کرم نے انہیں عزت وعظمت کے اس مقام پر پہنچا دیا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔آپؓ قوی الجثہ ،طویل قامت اور مضبوط جسم کے مالک تھے ۔کشتی ،پہلوانی ،تیر اندازی ،شہ سواری اور سپہ گری میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا ، فنون حرب میں مہارت ،انتہائی ذہین اور اعلیٰ پیمانے کے مدبر تھے اور قریش کے ان سترہ افراد میں سے تھے جو زمانہ جاہلیت میں لکھنا پڑھنا جانتے تھے ،آپؓ کا شمارکا تبان وحی میں بھی ہوتا ہے ۔

سیدنا عمرفاروقؓ کے مشرف بہ اسلام ہونے سے اسلام اور مسلمانوں کی حیثیت مضبوط ہوگئی ،انہوں نے مشرکین مکہ سے کہا کہ اگر مسلمانوں کو مسجد الحرام میں نماز پڑھنے سے روکا گیا تو روکنے والوں کی گردنیں اڑا دی جائیں گی ۔چنانچہ آپؓ کے رعب ودبدبہ کی وجہ سے کسی کو روکنے کی جرأت نہ ہوسکی ،غزوہ بدر میں اپنے ماموں عاصی بن ہشام کو اپنی تلوار سے قتل کرنے میں پس پیش نہ کی اور یہ تجویز پیش کی کہ ہر مسلمان خود اپنی تلوارسے اپنے قریبی مشرک رشتہ دار کو قتل کرے اور آپؓ کی اس تجویز کی تائید وحی الٰہی نے بھی کی ۔غزوہ احد میں بھی آپؓ نے شجاعت اور جوانمردی کے جوہر دکھائے ۔امور ریاست مین بھی اکثر اوقات حضور نبی کریمﷺ کے مشوروں پر عمل فرمایا کرتے تھے ۔غزوہ خیبر میں جو زمین سیدنا عمر فاروقؓ کے حصہ میں آئی وہ آپؓ نے اسی وقت اﷲ کی راہ میں وقف کردی تھی اور یہ اسلامی تاریخ کا پہلا وقف تھا ۔

حضورﷺ سے انتہاء درجے کی محبت وعقیدت رکھتے تھے ،عقیدت کا یہ عالم تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ کی وفات کی خبر پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے ۔ مسجد نبوی میں تلوار لے کر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ جس نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کی خبر دی میں اس کا سر تن سے جدا کردوں گا ۔حضورﷺ کے وصال کے بعد سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر آپؓ نے بیعت کی ،دورِ صدیقی ؓ میں مجلس شوریٰ کے اہم ترین رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا اسلام قبول کرنے کے بعد تمام تر تفاخر خاندانی اور غرور ونخوت جاتی رہی ،طبیعت میں انکساری ،اسلام سے محبت ،سرکاردوعالمﷺ سے عشق ،اسلام کی اشاعت کی جدوجہد اور کفر وشرک کے خاتمے کیلئے ہر وقت مصروف رہتے ۔آپؓ زاہد ،عادل، فقیہ ، سیاستدان اور مدبر ہونے کے ساتھ ساتھ گوناگوں اوصاف حمیدہ کا حسین وجمیل امتزاج تھے ۔

خلیفہ بلا فصل حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد 11ہجری میں مسلمانوں نے سیدنا فاروق اعظمؓ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی تھی ۔انہوں نے خلافت کے بارگراں کو قبول کرکے تاریخ اسلام میں سنہری دور کا اضافہ کیا ۔حضورﷺ نے عملاًاسلامی نظام قائم کردیا تھا ۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کے عہد خلافت میں اسلامی حکومت کی حدود شام ،مصر اورایران تک پھیل گئیں،اورآپؓ کی حکومت دنیا کی سب سے بڑی متمدن حکومت کہلانے لگی ، صحابہ کرامؓ کی مشاورت سے ایسا نظام قائم کیا جو ایک طرف عقل وحکمت کے تمام تقاضے پورے کرتا تھا اور دوسری طرف اجماع امت کی وجہ سے اس نظام کو عوام کا بھر پور اعتماد حاصل تھا ۔آپؓ نے شوریٰ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ بنایا ۔بیت المال کو لوگوں کا مال سمجھا ،اسلامی سلطنت کو صوبوں میں تقسیم کرکے نظم ونسق کو بہترین کیا ،گورنروں پر واضح کیا کہ اگر کسی طاقتور نے کسی کمزور کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی تو اس کی بازپرس گورنر سے ہوگی ، ان کیلئے ترکی گھوڑے پر سوارہونا ،باریک لباس پہننا ،چھنا ہوا آٹا کھانا اور دربان رکھنا منع تھا ۔تقرری سے پہلے گورنر اور عامل کے اثاثوں کی پڑتال کی جاتی ،اضافہ پایا جاتا تو اسے ضبط کرکے بیت المال میں جمع کروادیا جاتا تھا ،زکوٰۃ ،عشر، خراج ذرائع آمدن تھے ۔شاہی خاندانوں کی جاگیریں ،لاوارث جائدادیں باغیوں اور مفروروں کی ضبط شدہ املاک بھی بیت المال کی ملکیت سمجھی جاتی تھیں ۔آپؓ نے زراعت کے میدان میں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ،اراضی کی ازسر نو پیمائش کراکے پیداوار میں اضافہ کرایا ،مالیہ کی وصولی کے علاوہ جاگیرداری نظام ختم کرکے زمین کاشتکاروں میں تقسیم کردی ۔آب پاشی کاباقاعدہ نظام قائم کیا ،عدالتوں کے دروازے ہر عام وخاص کیلئے کھلے رہتے ، مقدمہ دائر کرنے کی کوئی فیس ہوتی نہ وکیل کی ضرورت رہتی ،افتاء کا شعبہ بھی قائم کیا گیا ،ناپ تول ،قیمتوں کا تعین ،شراب نوشی کی روک تھام ،انسداد بے رحمی حیوانات ، راستوں اور گزرگاہوں کی حفاظت قافلوں کی سلامتی وغیرہ کے امور محکمہ پولیس کے سپرد تھے ۔باقاعدہ عسکری نظام قائم کیا گیا اور جوانوں کی تنخواہیں مقرر کی گئیں ۔ان کے بچوں کے وظائف مقرر کیے گئے ،چھاؤنیاں تعمیر کی گئیں اور پنشن کا نظام قائم کیا گیا ۔غیر مسلموں کو جان ومال کی حفاظت دے کر انہیں مکمل مذہبی آزادی دی گئی ۔ عوام کی فلاح وبہبود اورآسائش کے لیے سڑکیں ،پل اور سرائے تعمیر کرائی گئیں۔

ایک مرتبہ قیصر روم کا سفیر مدینہ منورہ آیا اور لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے بادشاہ کا محل کہاں ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا نہ ہمارے ہاں کوئی بادشاہ ہوتا ہے اور نہ اس کا کوئی محل ہوتا ہے ۔البتہ ہمارے ایک خلیفہ ہیں جو اس وقت سامنے کی گلی میں گارااٹھا رہے ہیں ،سفیر نے جاکر دیکھا تو سیدنا فاروق اعظمؓ فارغ ہونے کے بعد دیوار کے سائے میں ریت پر آرام فرما تھے اس نے کہا یہ ہے وہ انسان جس کی ہیبت سے دنیا کے انسانوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں ۔اے عمرؓ !تو نے انصاف کیا اور تجھے گرم ریت پر بھی نیند آگئی اور ہمارے حکمرانوں نے ظلم کیا اور انہیں سنگین حصاروں میں سمو کر اور کمخواب کے بستر پر بھی نیند نہیں آسکتی ۔جب آپؓ کو اطلاع ملی کہ ایران کے گورنر حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے مکان کے سامنے ڈیوڑھی بنائی ہے تو آپؓ نے محمد بن مسلمہؓ کو بھیج کر گرادی ۔

تمام زمانہ خلافت میں خیمہ کبھی آپ کے پاس نہ رہا ،سفر میں منزل پر پہنچ کر دھوپ یا بارش سے بچنے کیلئے کسی درخت پر کپڑا تان کر گزارہ کرلیتے ،اپنے زمانہ خلافت میں تین عمرے کیے ،اپنی مملکت میں ہر ایک کا خیال رکھتے تھے ،حتیٰ کہ جن عورتوں کے خاوند جہاد کیلئے گئے ہوئے تھے ان کے دروازوں پر جاکر انہیں سلام پیش کرتے ،ان کیلئے سودا سلف خرید کرلاتے اور جن کے پاس پیسہ نہ ہوتا انہیں اپنی جیب سے خریدکردیتے ۔

بیت المال سے وظائف کی تقسیم کا آپؓ نے عجیب انتظام فرمایا تھا اور اسکے لیے علیحدہ دفتر بنایاتھا ۔ تمام مسلمانوں کے نام اس میں لکھوائے اور سب سے زیادہ رسول اکرمﷺ کی قرابت کا لحاظ کیا ۔حضرت عباسؓ کا وظیفہ بارہ ہزار ،ازواج مطہرات کے دس دس ہزار جبکہ ان میں ام المومنین حضرت سیدہ عائشہؓ کا بارہ ہزار مقرر کیا ۔ بدری صحابہ کرامؓ کا پانچ ہزار انصار کا چار ہزار ،مہاجرین کا چار ہزار مقرر کیا ۔حضرت عمرؓ آنحضرتﷺ کے رشتہ داروں کا بہت خیال رکھتے تھے ، اسی لیے اپنے بیٹے عبداﷲ بن عمرؓ کاوظیفہ تین ہزار اور حسنین کریمینؓ کا وظیفہ پانچ پانچ ہزار اور حضرت اسامہؓ بن زید کا وظیفہ چار ہزار مقرر کیا ۔

آپؓ کے بہت سے اعزازات میں سے ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ آپؓ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہیں امیر المومنین کے لقب سے پکارا گیا ،17ہجری میں مسجد نبوی اور مسجد حرام میں توسیع کی اور مسجد نبوی کے لکڑی کے ستون نکال کر اینٹ کے ستون لگادیے زمین پر موجود انسانوں کے علاوہ بھی اگر آپؓ نے ہوا کو حکم دیا تو اس نے مانا ،قبرستان میں مردوں کو مخاطب کیا تو انہوں نے جواب دیا ،دریا کو خط لکھا تو اس نے عمل کیا ،اگر کہیں سے آگ نکلی جو لوگوں کو نقصان پہنچارہی تھی تو اس کو اندر دھکیلنے کیلئے اپنی چادر بھیجی ،زلزلے کی وجہ سے زمین ہلی تو اسے کوڑا رسید کیا اورآج تک مدینہ میں دوبارہ زلزلہ نہیں آیا اور جب بارش کو دعا کے زریعے بلایا تو پوری خوشی اور آب وتاب کے ساتھ بارش آپؓ کی طرف برستی ہوئی آئی ۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اﷲﷺ کے ساتھ تھا کہ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ دور سے آتے ہوئے دکھائی دیئے انہیں دیکھ کر آنحضرتﷺ نے فرمایا:’’یہ انبیاء اور رسولوں کے بعد باقی تمام جنتیوں کے سردار ہیں ‘‘۔

سال ہجری کے آغاز سے پہلے تعیین واقعات کیلئے عام الفیل اور رومیوں کے سال سے کام لیا جاتا تھا ۔ 16ہجری میں حضرت عمر فاروقؓ نے سال ہجری کی ترویج فرمائی ،قرآن کریم کی مقدس تعلیم اور اس کو پوری دنیا شام ،ایران ،ایشیائے کوچک اور چین کی مغربی سرحدوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں انتشار سے اتحاد،جہالت سے علم ،وحشت سے تہذیب ،مادیت سے روحانیت ،بت پرستی سے خداپرستی ،بدکاری سے پرہیزگاری اور آمریت سے شورٰیت کا بول بولا ہوا۔

آپؓ کو آدھی دنیا کا حکمران ہونے کا شرف حاصل تھا مگر اپنی حفاظت کیلئے کبھی ذاتی محافظ رکھنا پسند نہ فرمایا ۔مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ کے غلام فیروز نے مالک کے خلاف شکایت کی جو تفتیش کے بعد غلط ثابت ہوئی ،فیصلہ جب اس کے حق میں نہ ہوا تو وہ غصہ میں چلا گیا اور اگلے دن مسجد نبوی میں جب حضرت عمر فاروق ؓ نماز فجر کی امامت کررہے تھے تو خنجر سے وار کرکے آپؓ کو سخت زخمی کردیا ۔آپؓ زخموں کی تاب نہ لاسکے اور یکم محرم الحرام 24 ہجری کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔آپؓ کو حضرت عائشہؓ کے حجرہ مبارک میں رسول اﷲﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ سپردخاک کیا گیا ۔جب آپ کاجنازہ لایا گیا تو حضرت علیؓ نے فرمایا:مجھے پہلے سے ہی خیال تھا کہ آپ دونوں کا مدفون بھی رسول اﷲﷺ کے ساتھ ہوگا کیونکہ میں سناکرتا تھا کہ آنحضرتﷺ ہر بات میں اپنے ذکر کے ساتھ آپ دونوں کاذکر کیا کرتے تھے اور میں اﷲ سے دعا مانگا کرتا تھا کہ یا اﷲ جیسا نامہ اعمال عمرؓ کا ہے میرا نامہ اعمال بھی ایسا ہو ۔‘‘

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 158435 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.