سعدیہ دہلوی :بچھڑنے والے اِتنے ہو گئے ہیں شہر در شہر

 ڈاکٹر غلام شبیررانا
ادب، صحافت ،کالم نگاری ،نشریات اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں خواتین کے حقوق کی علم بردار سعدیہ دہلوی ( پیدائش : سولہ جون، 1957 ء،وفات:پانچ اگست ،2020 ء)کی زندگی کا سفر اختتام کو پہنچا۔ اجل کے ہاتھوں رونما ہونے والے اس سانحہ کے بارے میں سُن کر دِل دہل گیا، فکر و خیال کی سوگوار وادی میں ہر سُو منتشر الفاظ بکھر گئے ۔ اَجل کے بے رحم ہاتھوں نے چار عشروں تک پرورش ِ لوح و قلم میں مصروف رہنے والی اِس ذہین ادیبہ سے قلم چھین لیا۔ پیہم دو برس دِلِ لخت لخت کو جمع کرکے پُرسکون اور پُرشکو ہ انداز میں کینسر کے خلاف جنگ لڑنے و الی اِس باہمت خاتون کے اَعصاب جواب دے گئے اور بالآخر وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔ ایک شان اِستغنا سے اَپنی خوابیدہ صلاحیتوں کو مجتمع کر کے رو بہ عمل لانے پر اِصرار کرنے والی صابر و شاکر اَدیبہ اپنے دِل میں ہزاروں خواہشیں لیے بزمِ ِ ادب سے رخصت ہو گئی ۔دنیا بھر کی خواتین کو اپنی حقیقت سے آ شنا ہونے کا مشورہ دینے والی بے لوث سماجی کارکن نے چپکے سے عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیا۔ اَپنے آبا سے مِلنے والی خلوص و شفقت کی بیش بہامیراث اور ،تصوف سے وابستگی کو حرزِ جاں بنائے زندگی کا بے آواز سازسُن کر عقیدت کے پھول نچھاور کرنے والی خاتون کیاگئی کہ کارِ جہاں سے اِعتبار ہی اُٹھ گیا۔ شیخ معین الدین چشتی اجمیری (خواجہ غریب نواز: 1141- ء۔1236 ء)اور حضرت نظام الدین اولیا ( 1238-1325)کے ساتھ گہری عقیدت رکھنے والی یہ نیک دِل خاتون زندگی بھر تصوف اور معرفت کی جستجو میں اپنے من کی غواصی کر کے جذبۂ انسانیت نوازی سے سرشار ہو کر اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنے کی سعی میں مصروف رہی ۔زندگی بھر روحانیت ،مذہب اور تصوف کی طرف مائل ہونے کا مشورہ دینے والی یہ خاتون ردائے خاک اوڑھ کر اَبدی نیندسوگئی۔ دہلی میں تخلیقِ ادب ، تصوف اور صحافت کی عظیم الشان روایت پر گہری نظر رکھنے والی تانیثیت کی علم بردار بھرپور زندگی بسر کرنے والی مجلسی خاتون اب ماضی کاحصہ بن گئی ہے ۔ دہلی میں اپنے گھر نظام الدین ایسٹ میں اِس پر عزم اور با حوصلہ خاتون نے عدم کے کوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھ لیا۔ انسانیت نوازی کی اَرفع سوچ کی مظہر جدت اَور تنوع سعدیہ دہلوی کے اَسلوب اورشخصیت کا اِمتیازی وصف سمجھا جاتاہے ۔ دنیا بھر کی خواتین کے لیے اخلاص و مروّت اور مہمان نواز ی کے لیے شہرت رکھنے والی خاتون دیکھتے ہی دیکھتے زینۂ ہستی سے اُتر گئی اور اُن کی لاکھوں پرستارخواتین بے بسی کے عالم میں اجل کی یہ بے رحمی دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں۔ اپنی جنم بھومی دہلی کے بام و در کی خیر مانگنے والی اِس ادیبہ نے اپنے افکار کی تابانیوں سے جس لائق صدرشک و تحسین انداز میں اس قدیم شہرکو منور کیا اُسی شہر میں اُس نے آخری سانس لی ۔ سعدیہ دہلوی نے تنہائیوں سے بچنے کی خاطر اپنی جنم بھومی کی محبت میں پناہ لی اور اس کی شخصیت میں خو ش اخلاقی ،انسانی ہمدردی اور وضع داری کے سوتے اسی محبت سے پھوٹتے ہیں ۔سعدیہ دہلوی کی خواہش تھی کہ اُسے حضرت نظام الدین اولیا محبوب الٰہی کی درگاہ کے نواحی شہر خموشاں میں سپر دِخاک کیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا۔دہلی شہر کے نواح میں عید گاہ کے قریب واقع شیدی پورہ کے شہر ِخموشاں کے ایک گوشے میں جو پنجابی خاندانوں کے رفتگاں کے لیے مخصوص ہے اُس میں اپنے رفتگاں کے پہلو میں علم و ادب اور فنون لطیفہ کی اس شمع فروزاں کو سپر ِدِ خاک کر دیا گیا۔ داستان گوئی ،تصوف ،طعام اور تانیثیت کی ایک رجحان ساز ادیبہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئی۔ تصوف ،تاریخ ، تہذیب و ثقافت،آثارقدیمہ ، روحانیت ،اقلیتی امور ،مابعد الطبیعات ،پیراسائیکالوجی ا ور خواتین کے مسائل پر اُردو اور انگریزی زبان میں اس ادیبہ کے لکھے ہوئے کالم پور ی دنیا میں توجہ سے پڑھے جاتے تھے ۔ زندگی بھرحریت فکر و عمل کا علم بلند رکھنے والی اس با کما ل ادیبہ نے خونِ دِل میں اُنگلیاں ڈبو کر لکھنے والے ادیبوں کے اسلوب کی تقلید کی ۔ چشتی سلسلہ ٔ تصوف سے سعدیہ دہلوی کو روحانی لگاؤ اور قلبی عقیدت تھی۔ سعدیہ دہلوی کے کالم ہندوستان ٹائمز،انڈین ایکسپریس اور بھارت سے شائع ہونے والے کئی بڑے اخبارات و جرائد میں چھپتے تھے ۔پاکستان سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ڈان (Dawn)میں پیہم دس برس (1980-1990) سعدیہ دہلوی کے کالم شائع ہوتے رہے ۔ دہلی کی قدیم تہذیب و ثقافت سیسعدیہ دہلوی کو بہت محبت تھی ۔اپنے آبا سے ملنے والی تہذیب و ثقافت کی میراث کا تحفظ اُنھیں دِل و جاں سے عزیز تھا۔ اُن کا مطمح نظر یہ تھا کہ مشرقی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کے فروغ میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی جائے ۔ اُن کا خیا ل تھا کہ اپنے اسلاف کی تہذیبی و ثقافتی میراث سے شپرانہ چشم پوشی جمود و سکوت کی ایسی لرزہ خیز اور اعصاب شکن فضا کو جنم دیتی ہے جوپتھر کے زمانے کی یاد دلاتی ہے ۔وہ تہذیب و ثقافت کی قدردان تھیں مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری،جعلی شان و شوکت اور لیپا پوتی سے اُنھیں شدید نفرت تھی ۔ بھارت کے ممتاز اشاعتی ادارے ہارپر کولنز ( Harper Collins) کے زیر اہتمام بائیس اپریل 2009ء کو شائع ہونے والی سعدیہ دہلوی کی اہم تصنیف (Sufism: The heart of Islam)کو دنیا بھر میں بہت پذیرائی ملی۔ اس کے دو سال بعد دہلی شہر میں واقع بزرگانِ دین کی درگاہوں اور مزاروں کے بارے میں سعدیہ دہلوی کی ایک اور کتاب (The Sufi Courtyard: Dargahs of Delhi,) منظر ِ عام پر آ ئی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روحانیت،تصوف،علم بشریات اور ما بعد الطبیعات میں اُن کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ سعدیہ دہلوی ایسے لوگوں کی نفسیات سے واقف تھیں جن کا وتیرہ ہے کہ وہ لذیز طعام کے علاوہ کسی بھی چیز سے بے لوث محبت نہیں کرتے۔سعدیہ دہلوی نے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے دستر خوان پر مزے مزے کے مقامی کھانے پیش کرنے کے بارے میں ہمیشہ سنجیدہ انداز ِ فکر اپنایا ۔ دہلی شہر کے باشندوں کے رہن سہن اور قیام و طعام کے موضوع پر سعدیہ دہلوی کی تصنیف ’’:Memories and Recipes of My Delhi Jasmine & Jinns ‘‘ میں مختلف خوش ذائقہ طعام اور اس کے پکانے کے طریقے مذکور ہیں۔ یہ کتاب محض طعام پکانے کی تراکیب پر مشتمل نہیں بل کہ اس میں تاریخ کے مختلف ادوار سے وابستہ یادیں ،بڑی بوڑھیوں سے سنی گئی باتیں ،تاریخ کے نشیب و فراز،دہلی کے گھرانوں میں دعوتوں کے انداز ،کھانے کے ذوق ،مہمان نوازی کے انداز اور سوانح عمری کے پہلو بھی قابل توجہ ہیں ۔ امور خانہ داری کے متعلق اپنی اس اہم کتاب میں دہلی کی ثقافتی میراث کے تحفظ کے کٹھن کام کے حوالے سے سعدیہ دہلوی نے لکھاہے :
" I am sharing these recipes as an effort to preserve my "Delhi" that is fadding away ."
اپنی محولہ بالا کتاب میں سعدیہ دہلوی نے ازمنہ قدیم کی تاریخ ،آثار قدیمہ ،ماضی کی یادگاریں ، مقامی طور پر تیار ہونے والے روزمرہ استعمال کے ظروف ،قدیم دہلی کی تنگ و تاریک گلیوں اور حبس زدہ کُوچہ و بازارکے بارے میں دستیاب معلومات کو یک جاکر دیاہے ۔ سعدیہ دہلوی نے تاریخ اور اُس کے پیہم روا ں عمل پر ہمیشہ گہری نظر رکھی اورتاریخ سے وابستہ عوامل پر تحقیق اُن کا خاص موضوع رہاہے ۔ان قدیم کھانوں کے پکانے کے طریقے معلوم کرنے کے لیے سعدیہ دہلوی نے بزرگ خواتین سے میٹھی میٹھی باتیں کیں اور اُن سے گھر کے باورچی خانے میں مزے دار پکوان تیار کرنے کی وہ سب خفیہ معلومات حاصل کیں جو نسل در نسل اُن کی یادداشت میں محفوظ چلی آرہی تھیں۔ہوائے جور و ستم میں بھی رخِ وفا اور مشعلِ خلوص کو فروزاں رکھنے والی اس ادیبہ کی بلوریں شخصیت اس قدر شفاف تھی کہ ہر قسم کے جذبات ،احساسات اور خدشات صاف دکھائی دیتے تھے ۔اجنبیت آمیز تکلف اور منافقت آمیز مصلحت اندیشی سے اُنھیں شدید نفرت تھی ۔ کسی کو منانا ہوتا تووہ انا کے فیصلوں کو کبھی خاطر میں نہ لاتیں اور بلا تامل ترکِ تعلق پر تاسف کا اظہار کر تیں۔انسانیت کے ساتھ محبت ان کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی۔اُن کی طلسمی شخصیت کا راز یہ تھا کہ وہ سدا حریت ضمیر سے جینے کی آ رزو مند ر ہیں ۔وہ بابا فرید الدین گنج شکر ( 1173-1266) کی زندگی سے بہت متاثر تھیں ۔ روح ،ذہن و ذکاوت اور اجسام پر روحانیت کے اثرات کے بارے میں صوفیاکے ناصحانہ اقوال پر وہ یقین رکھتی تھیں ۔ماضی کے واقعات ،اُن سے وابستہ یادیں ،بر صغیر میں بولی جانے والی مختلف زبانوں بالخصوص اُردو زبان کے کلاسیکی ادب اور مقامی تہذیب و معاشرت کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں ۔قحط الرجال کی پیدا کردہ ہلاکت خیزیوں کے اِس دور میں بھی وہ حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھنے پر اصرار کرتی تھیں ۔ حرص و ہوس کے ہاتھوں انسانیت اور تصورِ حیات کو جس بے دردی سے خبط کر دیا گیایہ المیہ حساس تخلیق کار اور مورخین کو خون کے آ نسو رلاتاہے ۔اپنی جنم بھومی دہلی سے والہانہ محبت کرنے والی اس یگانۂ روزگار ادیبہ نے اس قدیم اور تاریخی شہر سے وابستہ ماضی کی یادوں کو رجائیت پسندانہ انداز میں اپنی کتاب ’’ I live in Delhi, a city I love. ‘‘ میں شامل کیا ہے ۔ دہلی شہر کے بارے میں سعدیہ دہلوی کی ڈاکو منٹری ’’ Dilli - A few Images (1991)) کو ماہرین آثار قدیمہ نے تحقیق اور سروے پر مبنی ایسے بلند پایہ یہ کام سے تعبیر کیا ہے جس سے تاریخی اور دستاویزی تحقیق کو استناد کا درجہ حاصل ہواہے ۔وہ تاریخ کے اہم حوالوں کے بارے میں جانچ پرکھ پر یقین رکھتی تھیں ۔انھیں اِس بات پر تشو یش تھی کہ معاشرتی زندگی سے منسلک ماضی کے معتبر اور نہایت اہم اداروں جیسے خاندان ،برادری ،پڑوسی اور مخلص احباب کی ملاقاتوں ،ادبی نشستوں کوحرص و ہوس اور خود غرضی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان نے مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیاہے ۔دہلی کے چنکیا پوری کے مصروف علاقے میں اپنی والدہ کے اشتراک سے اُنھوں نے سال 1979ء میں الکوثر ریسٹورنٹ قائم کیا ۔ اس ریسٹورنٹ میں تیار ہونے والے کھانے اپنے خاص ذائقے کی وجہ سے بہت مشہور تھے ۔ واضح رہے کہ کاکوری کباب اس علاقے کے مقبول و ماہر خانسامہ نابو میاں نے عہد ِشباب میں لکھنو کے شمال میں چوہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اُتر پردیش کے شہر کاکوری میں ڈیڑ ھ سو سال قبل متعارف کرائے تھے ۔ سعدیہ دہلوی نے اپنے ریستوران میں نابو میاں کے پڑپوتے کی خدمات حاصل کیں ۔ اِن دنوں نابو میاں کا پڑپوتا اشفاق اس ریستوران میں اپنے آبائی فن کو آ گے بڑھا رہا ہے ۔بر صغیر میں مغلیہ عہد حکومت میں تہذیبی اور ثقافتی سطح پر جو کام ہوا سعدیہ دہلوی نے اپنی تحریروں میں اُسے محفوظ کیا۔ جہاں تک مطبخ اور طعام کا تعلق ہے اس میں بھی سعدیہ دہلوی نے زیادہ تر عہد ِ مغلیہ کے پکوان پیشِ نظر ر کھے ہیں۔ سعدیہ دہلوی کی ادارت میں شائع ہونے والا ادبی مجلہ ’’ بانو ‘‘ اپنے عہد کا ایک بے حد مقبول مجلہ تھا۔اس مجلے میں خواتین کے مسائل پر جن موضوعات پر معیاری تحریریں شائع ہوتی تھیں اُن میں ملبوسات کے فیشن،حسن و جمال کے نکھار کے طریقے ، مختلف کھانے پکانے کی تراکیب ،بچوں کی تعلیم و تربیت ،حفظان صحت کے اصول ،خانہ د اری کے انداز اور بچت کے طریقے شامل ہیں ۔
سعدیہ دہلوی کا تعلق بھارت کے ایک قدامت پسند،معروف ادبی ، معززمذہبی اور فیاض متمول تاجر گھرانے خاندان ِ سوداگراں سے تھا جو کئی صدیوں سے اِس علاقے میں مقیم تھا۔خدا ترسی اور ایثارکی مظہر سخاوت،فیاضی اوردریا دلی اِس خاندان کا نمایاں وصف تھا۔ ہرسال 10۔ ذی الحجہ کو عید الاضحی کے موقع پر سعدیہ دہلوی کا خاندان ایک سو (100 بکروں کی قربانی دیتا اور قربانی کے ان جانووں کا گوشت مفلس و قلاش خاندانوں ،محتاجوں اور ناداروں میں تقسیم کر دیا جاتا۔ موسم سرما کے آ غاز سے پہلے سیکڑوں غریب اور مستحق خاندانوں میں سردی سے بچنے کے لیے گرم کپڑے ، رضائیاں اور کمبل فراہم کیے جاتے ۔صحافت ،فنون لطیفہ اور ادب میں جدت اور تنوع کو فروغ دینے والے رجحان ساز رسالہ ’’ شمع ‘‘ جسے سعدیہ دہلوی کے دادا حافظ یوسف دہلوی نے سال 1938ء میں جاری کیا اسی خاندان کی علمی و ادبی میراث ہے ۔ دہلی شہر کے پھاٹک حبش خان سے روشنی کا سفرشروع کرنے والہ مجلہ شمع جلد ہی قارئینِ ادب میں بے حد مقبول ہو گیا۔ نو آبادیاتی دور میں سعدیہ دہلوی کے دادا یوسف دہلوی اوروالد یونس دہلوی اُس زمانے میں دہلی کے قدیم ترین اشاعتی ادارے ’’ شمع گھر‘‘ سردار پٹیل روڈ کے مکین تھے ۔ حافظ یوسف دہلوی کے بڑے بیٹے یونس دہلوی نے زندگی بھر ادب اور فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے مقدوربھر جد و جہد کی ۔ سعدیہ دہلوی نے سردار پٹیل روڈ ،دہلی پر واقع ’’ شمع گھر ‘‘ میں آ نکھ کھولی اور دہلی کی محبت اُن کی روح اور قلب میں رچ بس گئی۔ سعدیہ دہلوی نے بھارت کے ممتاز تعلیمی ادارے دون سکول( Doon School) میں تعلیم حاصل کی ۔ اُس زمانے میں ’’ شمع گھر ‘‘ کو علمی،ادبی ،تہذیبی ،ثقافتی اور فنون لطیفہ کے اہم مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ ’’ شمع گھر ‘‘ میں منعقد ہونے والی تقریبات میں سعدیہ دہلوی ہی شمع محفل ہوتی تھیں۔ اِن نشستوں میں تصوف ،شاعری ،فلم ،تھیٹر اور حالاتِ حاضرہ پر کھل کر بات کرنے کے لیے یاران ِ نکتہ داراں کے لیے صلائے عام تھی۔ سعدیہ دہلوی کے والد یونس دہلوی نے نو آبادیاتی دور میں جو مجلات شائع کی ان میں مجرم، شبستان، بانو ،شمع ، ہندی ماہ نامہ ’ سشما ‘اور کھلونا بہت مقبول تھے۔ فلمی اور ادبی مجلہ ’’ شمع ‘‘ میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد ایک سو (100)کے قریب تھی ان میں رحمٰن نیر، سعید سہروردی اورسلامت علی مہدی جیسی ہفت اختر شخصیات بھی شامل تھیں ۔ نو آبادیاتی دور میں مجلہ شمع کی اشاعت ایک لاکھ کے قریب تھی ۔مجلہ شمع نے متعدد ادیبوں کو متعارف کرایا جو بعد میں افق ادب پر مثلِ آفتاب ضوفشاں رہے ۔اِن میں عثمانیہ یونیورسٹی ( قائم شدہ :1918ء) سے فارغ التحصیل ہونے والی ادیبہ واجد تبسم ( 1935-2011) بھی شامل ہیں ۔یونس دہلوی کی خدمات کو پیشِ نظر ر کھتے ہوئے اُنھیں علمی و ادبی محافل میں شرکت کی خصوصی دعوت دی جاتی تھی ۔پس نو آبادیاتی دور میں یونس دہلوی نے مدیران ِ جرائد کی قدیم انجمن کُل ہند اُردو ایڈیٹر ز کانفرنس کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں ۔ پس نو آبادیاتی دور میں شمع گھر کی مطبوعات نے نو آزاد ممالک میں تہذیبی و ثقافتی میلانات کو فروغٖ دینے میں اہم کردار اداکیا ۔یونس دہلوی نے صحافت میں جو طرزِ فغاں ایجا دکی آنے والے زمانے میں تصنیف و تالیف کے حوالے سے وہی طرزِ ادا ٹھہری ۔اُرد وصحافت کے اِس منفرد انداز کوادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ جن ممتاز شخصیات نے قدر کی نگاہ سی دیکھا اُن میں عصمت چغتائی ،حجاب امتیاز علی ، صدیقہ بیگم ، سردار جعفری ،قرۃ العین حیدر، ممتازشیریں ،کرشن چندر ، خشونت سنگھ ،راجندر سنگھ بیدی ،مینا کماری ،نرگس، نمی،راج کپور ،دلیب کمار ، سنتوش کمار،وحیدہ رحمان اور نو ر جہاں شامل ہیں ۔ گردِ ش ِایام نے اِس خاندان کی خوش قسمتی کو گہنا دیا جس کے نتیجے میں فلم اور ادب کا مجلہ شمع سال 1987ء میں بند ہو گیا۔ چالیس کمروں پر مشتمل محل نما عمارت ’’شمع گھر ‘‘ جس میں اس خاندان کے پندرہ افراد مقیم تھے وہ اب فروخت ہو گیاہے اور اِسے بھارت کی انتہائی موثر اورطاقتور دلت(Dalit) سیاسی پارٹی BSP(Bahujan Samaj Party)کے رہنما مایاواتی نے پچھتر کروڑ ( Rs.750000000/- )روپے کے عوض خرید لیا ہے ۔ شمع گھر کی فروخت سے ملنے والی یہ رقم سعدیہ دہلوی کے والدیونس دہلوی اور اُس کے دوبھائیوں ادریس دہلوی اورالیاس دہلوی میں برابر برابر تقسیم کردی گئی ۔تاریخ کے مختلف اَدوار میں وہ عمارت جو ’’ شمع گھر ‘‘کے نام سے مشہور تھی اور جہاں آنے والے ادیبوں نے تخلیقِ ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا اَ ب اُس کی پیشانی پر BSP House کی تختی آویزاں ہو چکی ہے ۔ اپنے آبائی مکان کی فروخت کے بعد سعدیہ دہلوی نے اپنی ماں کے ساتھ مشرقی نظام الدین کی ایک آبادی میں نقل مکانی کر لی۔ اس نئے مکان میں بھی سعدیہ دہلوی نے اپنی فیاضانہ مہمان نوازی اور ادبی نشستوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رکھا۔سعدیہ دہلوی کے والد نے دہلی کے جنوب مغرب میں اُنیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ریاست ہریانہ کے شہر گرگاؤں میں مقیم اپنے بھائی کے پاس قیام کا فیصلہ کیا۔ اُس زمانے میں گرگاؤں کو علوم و فنون اور معیشت کے اہم مرکز کی حیثیت حاصل تھی ۔ گرگاؤں میں’ ’ خوابوں کی سلطنت ‘‘ کے نام سے قائم ہونے والا تھیٹر کا مرکز ادیبوں کی توجہ کا مرکز تھا۔
سعدیہ دہلوی کی پہلی شادی محمد سلیمان سے ہوئی جو کلکتہ کی ممتاز سماجی و سیاسی شخصیت خان بہادرمحمد جان کے فرزند تھے ۔سعدیہ دہلوی کی سیمابی شخصیت میں جو بے قراری،اضطراب اور بے چینی پائی جاتی تھی اس کے نتیجے میں پہلی شادی مختصر عرصے میں علاحدگی پر منتج ہوئی ۔ جب سعدیہ دہلوی کی عمر تینتیس ( 33) تھی تو باون (52) سالہ پاکستانی شہری اور اِسلام آباد کی آٹو موبائل صنعت کے افسر رضا پرویز نے اپنی نفاست اور خوش اخلاقی کی وجہ سے سعدیہ دہلوی کو بہت متاثر کیا۔ باہمی رضا مندی سے سعدیہ دہلوی کی شادی سال 1990ء میں رضا پرویز سے ہوئی ۔ رضا پرویز پہلے سے شادی شدہ تھے اور دو نو جوان بیٹوں کے باپ تھے ۔ رضاپرویز اور سعدیہ دہلوی کی شادی کے موقع پرنکاح نامے پر خشونت سنگھ نے وکیل کی حیثیت سے اپنے دستخط ثبت کیے اور سعدیہ دہلوی کو پُر نم آ نکھوں سے پیا کے دیس رخصت کیا۔ شادی کے بعد سعدیہ دہلوی نے کچھ عرصہ اپنے شوہر کے ساتھ کراچی میں قیام کیا ۔ اِسی عرصے میں لاہور میں اپنے قیام کے دوران میں وہ فہمیدہ ریاض ، صدیقہ بیگم ،رضیہ بٹ،ہاجرہ مسرور ،خدیجہ مستور، شبنم شکیل ، اوربانو قدسیہ سے بھی ملیں ۔ صدیقہ بیگم نے مجھے بتایا کہ سعدیہ دہلوی کا خیا ل تھا کہ دہلی ا پنے موسم ، مجلسی زندگی ،قدیم عمارات،تہذیب و ثقافت اور تاریخ کی وجہ سے کسی حد تک لاہور کے قریب ہے ۔ لاہور کا باغ جناح جو ایک سو اکتالیس (141) ایکڑ رقبے پر محیط ہے انواع و اقسام کے پھولوں اور پھل دار پودوں کی وجہ سے اپنی مثا ل آ پ ہے ۔ اس تاریخی باغ کی خاص بات یہ ہے کہ موسموں کے تغیر و تبدل سے متاثر ہو کر دنیا بھر سے ہجرت کر کے آنے والے طائران ِ خوش نوا پر فضا مقام پر واقع اس سر سبز و شاداب باغ میں کچھ عرصہ اپنا آ شیانہ بناتے ہیں اور اپنی اپنی بولیاں بول کر لمبی اُڑان بھر جاتے ہیں۔ لاہور میں بھاٹی اور گوالمنڈی کے کھابے تو ہمیشہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں ۔ لاہور اور دہلی میں موجود قدیم عمارات کی محیر العقول یادیں دنیابھر سے آنے والے سیاحوں کے دلوں کو مسخر کر لیتی ہیں۔کراچی اور دہلی کے ماحول میں بہت فرق ہے جب کہ اِسلام آباد میں زندگی اکیسویں صدی کا ماحول پیش کرتی ہے ۔سال 1992ء میں اُن کا بیٹا پیدا ہواجس کا نام ارمان علی دہلوی ہے۔ پاکستانی شہری رضا پرویز اور سعدیہ دہلوی کی شادی کایہ بندھن بارہ برس تک کامیاب رہا مگر نا معلوم اس گلشن کو کسی کی نظر کھا گئی کہ اچانک رضا پرویز نے آٹھ اپریل 2002ء کو سعدیہ دہلوی کوای میل کے ذریعے تین طلاق ارسا ل کر دی ۔ بھارت کے خاندانوں میں ای میل کے ذریعے طلاق کی ترسیل کا یہ پہلا سانحہ تھا۔ شادی کا بندھن ٹوٹنے کے المیہ کے بعد سعدیہ دہلوی واپس بھارت چلی گئی جہاں اُ س نے اپنی تیسری شادی کے لیے سید کرامت علی کو منتخب کیا جس کی عمر پینتالیس سال تھی ۔ اپنے بیٹے ارمان علی دہلوی کو تنہائیوں اور سمے کے سم کے مسموم ثمرات سے بچانے کی غرض سے سعدیہ دہلوی نے اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا لبِ اظہار پر تالے لگالیے اور بغیر آ نسوو ٔں کے رونا اپنا معمول بنالیا۔ اس شادی کے بعد سعدیہ دہلوی نے اپنا نام سعدیہ سیّد کرامت علی رکھ لیا ۔ یکے بعد دیگرے دو شادیوں کی ناکامی کے بعد سعدیہ دہلوی نے غموں کے ازدحام میں اپنے دِل کو سنبھالا، اپنے اکلوتے بچے ارمان علی رضا دہلوی کو سینے سے لگایا ، فنون لطیفہ کے فروغ میں گہری دلچسپی لی اور اپنی زندگی غرقابِ غم ہونے سے بچا لیا ۔ سعدیہ دہلوی نے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کو سد ا پیشِ نظر رکھا۔صحافت ،تجارت ،ادب اورفنون لطیفہ کے شعبوں میں ان کے سامنے ترقی کے متعدد آ فاق تھے ۔ تقدیر نے قدم قدم پر اُن کی تدابیر کی دھجیاں اُڑا دیں اوراُن کی کوئی اُمید بر نہ آ ئی ۔ اُن کی کا ماہتاب اِقبال گہنا گیا اوررفتہ رفتہ اُن کی ترقی ،خوش حالی اور شہرت کی تمنا دم توڑ گئی ۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعد بڑے بڑے نامیوں کے نام و نشاں تک مِٹ جاتے ہیں اور کئی حقائق خیال و خواب ہو جاتے ہیں۔ مجلہ شمع اور اس سے وابستہ افراد گوشۂ کے ساتھ بھی مقدر نے عجب کھیل کھیلا اُن میں سے اکثرگوشۂ گم نامی میں چلے گئے ۔ حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ آج الیاس دہلوی اور ادریس دہلوی کی وفات کی تاریخ اور تدفین کے مقام کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ سعدیہ دہلوی یہ بات زور دے کر کہتیں کہ جس وقت سلاطین اور بادشاہ تخت وکلاہ و تاج کے سلسلوں میں اُلجھ گئے تھے اُس وقت بزرگانِ دین ،اولیائے کرام اور صوفیانے روحانیت کی شمع فروزاں رکھی جس کے اعجاز سے اذہان کی تطہیر و تنویر کااہتمام ہوا۔اُن کی تحریروں سے یہ تاثر ملتاتھا کہ وہ اِ س بات پر یقین رکھتی ہیں کہ روح کو قدرت کاملہ کی طرف سے سماعتوں اور بصیرتوں کی متاعِ بے بہا سے نواز ا گیاہے ۔اپنے من کی غواصی کر کے زندگی کے گوہر یکتا کی جستجو وقت کا ہم ترین تقاضا ہے ۔ خالقِ کائنات نے زندگی کے متعدد اسرار و رموز انسان کی لوحِ دِل پر نقش کر دئیے ہیں ۔دِل کے آ ئینے پر نظر ڈال کر فطرت کے مقاصد کی گرہ کشائی وجدان کی متقاضی ہے ۔
اپنے عہد کی ممتاز اداکارہ ،رقاصہ اوررقص کی تربیت دینے والی زہرہ ممتازسہگل ( 1912-2014) کے ساتھ مِل کر سعدیہ دہلوی نے فلم سازی کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ سعدیہ دہلوی کا خیال تھاکہ دہلی کے مطبخ اور طعام اِس شہر کی درخشاں اقدار و روایا ت کے امین ہیں۔سال 2017ء میں دہلی کے پسندید ہ کھانوں اور اُن کی تیاری کی تراکیب کے بارے میں سعدیہ دہلوی کی کتاب شائع ہوئی ۔ اپنی اِس کتاب میں انھوں نے دہلی کے قدیم گھرانوں میں صدیوں سے پکائے جانے والے اُن لذیذ کھانوں کے بارے میں تحقیق کی ہے جن کا رواج اب کم کم دیکھا جاتاہے ۔ ان کی پیش کی ہوئی ’’ دِل ایک مسافر ‘‘ ( 1985)،سال 1995ء کی مقبول ٹیلی ویژن سیریز ’اما ں اینڈ فیملی ‘ اور ’’ زندگی کتنی خوب صورت ہے ‘‘ ( 2001)میں سعدیہ دہلوی کی اداکاری کو ٹیلی ویژن کے ناظرین کبھی فراموش نہیں کر سکتے ۔ اس ٹیلی ویژن سیریز کو سعدیہ دہلوی نے خود لکھا اور پیش کیا۔ اُن کی لکھی ہوئی کہانیاں سنی سنائی باتوں پر مبنی نہیں بل کہ یہ اُن کے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی مظہر ہیں ۔حرص و ہوس کے کچلے ہوئے وفا کے ریاکار نقیبوں اور ابن الوقتی کو عیارانہ منافقت سے رو بہ عمل لانے والوں کے خلا ف سعدیہ دہلوی نے کھل کر لکھا ہے ۔سال 2001ء میں ٹیلی ویژن سیریز ’’ زندگی کتنی خوب صورت ہے۔‘‘ میں سعدیہ دہلوی نے اداکاری کے جوہر دکھائے ۔سعدیہ دہلوی نے ممتاز صوفی شعرا کے کلام کا بہ نظر غائر مطالعہ کرنے پرزور دیا۔ اُن کا خیا ل تھا کہ اس مقصد کے لیے آہِ سحر گاہی اور اﷲ ہو کی امان ناگزیر ہے ۔
پنجاب ( پاکستان) کے ضلع خوشاب کے قصبہ ہڈالی میں جنم لینے والے بھارتی ادیب ،قانون دان ،صحافی اورسفارت کار خشونت سنگھ( 1915-2014) کے ساتھ سعدیہ دہلوی کے قریبی مراسم تھے ۔ ہجوم ِ غم میں دِلِ حزیں کو سنبھالنے اور بروٹس قماش کے سفہاکے اجنبیت آمیز تکلف سے بچنے کی خاطر وہ اکثر اپنے معتمد رفیق خشونت سنگھ کی رہائش گاہ سجن سنگھ پارک اپارٹمنٹ پہنچ جاتی اور تزکیہ ٔ نفس کے لیے جی بھر کر باتیں کرتی ۔ قارئین ِ ادب اُس وقت ششدررہ گئے جب خشونت سنگھ نے اپنی کتاب ’‘Not a nice man to know ‘کا انتساب سعدیہ دہلوی کے نام کرتے ہوئے یہ لکھاہے :
"To Sadia Dehlvi ,who gave me more affection and notoriety than I deserve"
اپنی زندگی میں خشونت سنگھ کا جن عورتوں اور مردوں سے واسطہ پڑااُن سے وابستہ یادوں کو اپنی کتاب ’’ WOMEN & MEN IN MY LIFE‘‘ میں شامل کیا ہے ۔اس کتاب کے بیرونی ورق پر سعدیہ دہلوی کی تصویرشائع کی گئی ہے ۔کتاب کا دوسرا باب سعدیہ دہلوی کے بارے میں ہے ۔ خشونت سنگھ نے اس کتاب میں جن خواتین کے بارے میں ابواب شامل کیے ان میں بھارتی صحافی اور کالم نگار دیویانی چھابل( Devyani Chaubal :1942-1995 )، سعدیہ دہلوی ، بھارتی ناول نگار اندرانی ایکاتھ گیالسٹن ( 1952-1994 : Indrani Aikath Gyaltsen )،غیور النسا حفیظ ، انیس جُنگ (Anees Jung)، دھرما کُمار (1928-2001 : Dharma Kumar) ،نرملا ماتھن ، کامنا پرشاد، پریما سبرا منیم ، امریتا شہر گِل ، ریتادیوی ورما ، d The Beggar Mai ۔ اس کتاب میں جن مردوں کے بارے میں ابواب ہیں ان میں چیتن آ نند ،رومیش چندر ،بلونت گارگی، اندر سین جوہر ،گوپال داس کھوسلہ ،پریم کرپال، اے جی نورانی ،راجنی پٹیل، منظور قادر ،بھرت رام ، کرشن شنگلو، شرنجیت سنگھ ،این اقبال سنگھ ،ستیندرا سنگھ شامل ہیں ۔سال 1998ء میں سعدیہ دہلوی نے خشونت سنگھ کے ساتھ مِل کر ’ Not a nice man to know ‘کے نام سے ایک ٹیلی ویژن شو پیش کیا۔اس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ایسی با صلاحیت خواتین کو دعوت دی جاتی تھی جنھوں نے اپنی زندگی میں نمایا ں کامیابیاں حاصل کیں ۔ایک فعال اور مستعد ادیبہ کی حیثیت سے سعدیہ دہلوی نے خواتین کی فلاح و بہبود اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے لیے انتھک جد و جہد کی ۔اُن سے مِل کراس عالم آب و گِل کی حقیقی معنویت کی تفہیم ممکن ہو جاتی اور زندگی سے والہانہ محبت کے جذبات کو نمو مِلتی تھی۔وہ روحانیت ،تصوف اور معرفت کے مباحث میں جوش و خروش سے حصہ لیتی تھیں۔اُن کی خوش لباسی ،خوش اخلاقی ،خلوص ،مروّت اور مہمان نوازی اُن کی مسحور کن طلسمی شخصیت کو پر کشش بنا دیتی تھی ۔ ہر ملاقات میں وہ ادب اور آداب کو ملحوظ رکھنے پر اصرر کرتی تھیں۔وہ جس پر تپاک انداز میں اپنی ہم رازسہیلیوں اور ملاقاتی خواتین کے لیے دیدہ و دِل فرش ِ راہ کر دیتی تھیں وہ ان کی عظمت کی دلیل ہے۔
ایوار ڈ
۔ Indira Gandhi Priyadarshini Award Tribune India 1.
۲۔ بہترین صحافی کا ایوارڈ 1989ء
اپنی عملی زندگی اور ادبی فعالیتوں میں سعدیہ دہلوی نے تانیثیت کوقدر کی نگاہ سے دیکھا۔ عالمی ادب اور تانیثیت کو تاریخی تناظر میں دیکھنے سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یورپ میں تانیثت کا غلغلہ پندرہویں صدی عیسوی میں اٹھااوراس میں مد و جزر کی کیفیت سامنے آتی رہی ۔ جمود کے ماحول میں یہ ٹھہرے پانی میں ایک پتھر کے مانند تھی۔ یورپ میں تانیثیت کی دوسری لہر 1960میں اٹھی جب کہ یورپ میں تانیثیت کی تیسری لہر کے گرداب 1980 ء میں دیکھے گئے۔ان تما م حالات اور لہروں کا یہ موہوم مد و جزر اور جوار بھاٹا اپنے پیچھے جو کچھ چھوڑ گیا اس کا لب لبا ب یہ ہے کہ خواتین کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں حریت ِ فکر و عمل کا علم بلند رکھنے اور حریت ضمیر سے جینے کی آزادی ملنی چاہیے ۔ یہ امر لائق تحسین ہے کہ نو آبادیاتی دور میں انتہائی کٹھن حالات میں بھی بر صغیر کی با شعور خواتین نے ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اپنا شعار بنایااور انتہائی نا مساعد حالات میں بھی حریتِ ضمیر سے جینے کا راستہ اختیار کیا ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کا معاشرہ بالعموم مردوں کی بالادستی کے تصور کو تسلیم کر چکا ہے ۔اس قسم کے ماحول میں جب کہ خواتین کو اپنے وجود کے اثبات ،جہد للبقا اور مسابقت کے لیے انتھک جدو جہد کرنا پڑے ،خواتین کے لیے ترقی کے یکساں مواقع کی فراہمی تخیل کی شادابی کے سوا کچھ نہیں ۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سعدیہ دہلوی جیسی با حوصلہ ، جری اورپر عزم خواتین نے ارض ِ وطن اور انسانیت سے والہانہ محبت کو شعار بنایا ۔ ایسی باوقار خواتین کی فکری کاوشیں مہیب سناٹوں اور سفاک ظلمتوں کے طلسم کو کافورکرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔انھوں نے صبر آزما حالات میں بھی حوصلے اور امید کا دامن تھا م کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کا جو عہد وفا استوار کیا اسی کو علاجِ گردش ِلیل و نہار بھی قرار دیا۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ پس نو آبادیاتی دور میں ہر شعبہ ٔ زندگی میں خواتین بھرپور اور اہم کردار ادا کر رہی ہیں ۔عالمی ادبیات کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ سماجی زندگی کے جملہ موضوعات پر ادب سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اشہبِ قلم کی جو بے مثال جو لا نیاں دکھائی ہیں ان کے اعجاز سے طلوع صبح بہاراں کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔
تانیثیت کو سعدیہ دہلوی نے ایک ایسی مثبت سوچ،مدبرانہ تجزیہ اور دانش ورانہ اسلوب سے تعبیر کیا جس کے اہداف میں خواتین کے لیے معاشرے میں ترقی کے منصفانہ اور یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کا واضح لائحہ عمل متعین کیا گیا ہو۔ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ خواتین کسی خوف و ہراس کے بغیر کاروانِ ہستی کے تیزگام قافلے میں مردوں کے شانہ بہ شانہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں ۔روشنی کے اس سفر میں انھیں استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں سے خبردار کرنا تانیثیت کا اہم موضوع رہا ہے ۔ایک فلاحی معاشرے میں اس با ت کا خیال رکھا جا تا ہے کہ معاشرے کے تما م افراد کو ہر قسم کا معاشرتی تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ ہر فرد کو ملت کے مقدر کے ضو فشاں ستارے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔تانیثیت نے حق و انصاف کی بالا دستی ،حریتِ فکر،آزادی ٔ اظہار اور معاشرے کو ہر قسم کے استحصال سے پاک کرنے پر اصرار کیا ۔ سعدیہ دہلوی کو اس بات پر گہری تشویش تھی کہ فکری کجی کے باعث بعض اوقات تانیثیت اور جنسیت کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے حالانکہ تانیثیت اورجنسیت میں ایک واضح حد فاصل ہے بل کہ یہ کہنا درست ہو گا کہ تانیثیت اپنے مقاصد کے اعتبار سے جنسیت کی ضد ہے۔ تانیثیت کے امتیازی پہلو یہ ہیں کہ اس میں زندگی کی سماجی ،ثقافتی،معاشرتی ،سیاسی ،عمرانی اور ہر قسم کی تخلیقی اقدار و روایات کو صیقل کرنے اور انھیں مثبت انداز میں بروئے کار لانے کی راہ دکھائی جاتی ہے ۔اس میں خواتین کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے فراواں مواقع کی جستجو پر توجہ مرکوز رہتی ہے ۔
سعدیہ دہلوی نے دہلی کے کوچہ و بازار کو مانی و بہزاد کے اوراق کی حسین مثال قرار دیتی تھیں یہاں جوشکل بھی نظر آتی ہے وہ یادگارِ زمانہ لوگوں کی تصویر ہوتی ہے ۔اپنی تسبیح ِ روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرنے کے لیے وہ دہلی کے جن مقامات کا انتخاب کرتی اُن میں بزرگانِ دین کی درگاہیں ،باغات اورسیر گاہیں ،لودھی باغ،ہمایوں کا مقبرہ ،علائی مینار ،تغلق قلعہ ،اور لال قلعہ شامل ہیں ۔نوے ایکڑ پر محیط عظیم الشان لودھی باغ میں پندرہویں صدی( 1451 to 1526) کی جن عمارات میں وہ دلچسپی لیتی تھیں ان میں شیشہ گنبد،بڑا گنبد، سکندر لودھی کا مقبرہ اورمحمد شاہ ( سید عہد حکومت ) کا مقبرہ شامل ہیں ۔دہلی شہر میں واقع جن بزرگان دین کی درگاہوں پر سعدیہ دہلوی حاضر ی دیتی تھیں اُن میں حضرت نظام الدین ،قطب الدین بختیار کاکی ،خواجہ نصیر الدین چراغ ،حضرت شاہ ترکمان بیابانی اور حضرت شیخ شہاب الدین شامل ہیں۔
نو آبادیاتی دور میں جامعہ ملیہ دہلی میں جھنگ سے تعلق رکھنے والے حکیم محمد نواز اور حکیم احمد بخش نذیر نے حکیم اجمل خان( 1868-1927) سے اکتساب فیض کیا۔ سال 1970ء میں ان اطبا نے حاجی محمد ریاض ،احمد بخش ناصر ،شفیع ہمدم اور گدا حسین افضل کو ایک ملاقات میں بتایا کہ دہلی سے شائع ہونے والا مجلہ ’’ شمع ‘‘ قارئین میں بہت مقبول تھا۔اس مجلے کی اشاعت میں دلچسپی لینے والا خاندان صدیوں سے قدیم دہلی شہر میں مقیم تھا۔ مجلہ ادب لطیف کی مدیرہ صدیقہ بیگم نے سعدیہ دہلوی کے حوالے سے مجھے بتایا کہ سعدیہ دہلوی کے ننھیالی رشتہ دار قدیم دہلی کے کُوچہ بَلی ماراں کے اُسی علاقے میں رہتے تھے جہاں مرزااسداﷲ خان غالبؔ مقیم تھے ۔ جھنگ میں بَلی حبیب کے نام سے دریائے چناب کے کنارے دریا میں تیرنے والی کشتیوں میں چپو چلانے والے ملاحوں( بَلی ماروں ) کی بستی موجود ہے۔نو آبادیاتی دور میں بَلی حبیب کے باشندوں کا دہلی کے کوچہ بَلی ماراں میں مقیم ملاحوں سے قریبی مراسم تھے۔بَلی حبیب سے تعلق رکھنے والے دانش ورمیاں احمد دین نے بتایا کہ بَلی حبیب میں مقیم ملاحوں کے آباو اجدادنے ہڈالی اور دہلی کے کئی سفر کیے ۔ نو آبادیاتی دور میں خشونت سنگھ کا ایک قریبی عزیز سردار پریم سنگھ اس علاقے کی تاریخی مادر علمی گورنمنٹ کالج جھنگ ( قائم شدہ :1926 )کا پرنسپل رہا۔ ڈاکٹر عبدالسلام ( نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان ) کے چچا زاد بھائی حاجی محمد یوسف اور رانا سلطان محمود برطانوی فوج میں ملاز م تھے۔انھوں نے نو آبادیاتی دورمیں دہلی چھاونی میں اپنے قیام کے حوالے سے بتایاکہ دہلی شہرمیں مجلہ ’’ شمع ‘‘ اُسی قدر مقبول تھا جس قدر ادب لطیف ،نیرنگ خیال ،ساقی اور سب رس مقبول تھے ۔ حاجی محمد یوسف اور رانا سلطان محمود نے سال 1946 ء میں سعدیہ دہلوی کے خاندان کے بزرگوں سے دہلی میں ملاقات کی ۔اُن کا کہنا تھاکہ لاہورمیں چودھری برکت علی نے مجلہ ادب لطیف کو معیاراور وقارکی جس رفعت تک پہنچایا اُسی جذبے سے سعدیہ دہلوی کے والد اور دادا نے اپنے اشاعتی ادارے سے شائع ہونے والے ادبی مجلات کو نکھار عطا کیا۔ پس نو آبادیاتی دور میں دہلی کے شمع اشاعتی ادارے میں ادب اور فنون لطیفہ میں دلچسپی رکھنے والے افراد کا تانتا بندجا رہتاتھا۔
اپنی زندگی کے آخری برسوں میں سعدیہ دہلوی کا رجحان مذہب اور تصوف کی طرف بڑھتا چلا گیا۔اس عرصے میں انھوں نے حج اورعمرہ کی سعادت حاصل کی ۔ وہ اس بات کی معترف تھیں کہ روحانیت اور معرفت کی مہک نے دلوں کو مرکز ِ مہر و وفاکرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ عمر کے آخر ی حصے میں وہ پردے کی پابند ہوگئیں اور اپنے گھر پر نعتیہ مشاعروں اور قوالی کی محافل کاانعقاد کر کے روحانی سکون کی جستجومیں انہماک کا مظاہرہ کرتی تھیں ۔قدیم قوالوں کے علاوہ جن معاصر قوالوں کی قوالیاں انھیں پسند تھیں اُن میں آصف علی سنتو خان ، اقبال حسین خان، بدر میاں داد، بہا الدین قطب الدین، پیاروقوال ،جعفر حسین خان ،حاجی غلا م فرید صابری، حبیب پینٹر قوال ،مقبول صابر ی ،نصرت فتح علی خا ں اورعزیز میاں قوال شامل ہیں ۔ لاہور سے شائع ہونے والے ادبی مجلہ’’ ادب لطیف‘‘ کی مدیرہ صدیقہ بیگم اور بانو قدسیہ کو پیارو قوال کی یہ قوالی بہت پسند تھی ۔سعدیہ دہلوی نے جب لاہور میں صدیقہ بیگم سے ملاقات کی تو ایک محفل سماع کااہتمام کیا گیا جس میں ایک مقامی قوال پارٹی نے یہ قوالی پیش کی تو وہاں موجود سب سامعین ماضی کی یادوں میں کھو گئے اوراُن کی آ نکھیں بھیگ بھیگ گئیں :
خدا کے سامنے جب سر جھکانا اِلتجا کرنا
مدینے کا مسافر ہوں میرے حق میں دعا کرنا
سعدیہ دہلوی کی زندگی کے آخری ایام جانگسل تنہائیوں کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ صرف اُس کا اکلوتا بیٹا ارمان علی رضا دہلوی ہی اُن کا درد آ شنا اور واحد سہارا رہ گیاتھا۔ فروری 2019ء میں اپنے نانا یونس دہلوی اور باپ رضا پرویز کی وفات کے بعد ارمان علی دہلوی کا دِ ل بُجھ گیا۔ اپنی والدہ کی شدید علالت کے زمانے میں ارمان علی دہلوی نے عید الاضحی کے موقع پر یکم اگست 2020ء کو ٹوئٹر جب پر یہ پیغام بھیجا تو قارئین کی آ نکھیں پُر نم ہو گئیں۔:
’’ سب کو عید مبارک ۔یہ ہمارے لیے ایک مشکل گھڑی ہے ۔امی اسپتال میں ہیں ۔اگر ممکن ہو توبرائے مہربانی ان کے علاج کے لیے دِل کھول کر اِمداد کیجیے ۔شکریہ ۔‘‘
اپنی والدہ کی شدید بیماری کی وجہ سے پریشان حال اور دِل شکستہ نوجوان ارمان علی رضا دہلوی کا ٹوئٹر پر مندرجہ بالا پیغام پڑھ کر مجھے لاہور میں مقیم اُردو زبان کے ممتاز شاعرساغر صدیقی( 1928-1974 ) یاد آئے جن کی زندگی جبر مسلسل کی طرح کٹ گئی اور جھنگ سے تعلق رکھنے والے رام ریاض( ریاض احمد شگفتہ :1933-1990) یاد آ گئے۔سال 1977ء میں گردشِ ایام ، بے روزگاری اور یاس و ہراس کے نتیجے میں فالج کے شدید حملے کے بعد محفل محفل رونق افروز رہنے والا اور اپنی گل افشانیٔ گفتار سے سماں باندھنے والا یہ فعال اور مستعد شاعر اپنے گھر میں محبوس اور بستر تک محدود ہو کر ر ہ گیاتو اُس نے مدد کے لیے احباب کو بہت پکارا مگراِ س درویش منش شاعر کی فغاں صدا بہ صحرا ثابت ہوئی ۔ اپنی حرماں نصیبی سے سمجھوتہ کر کے وطن اور اہلِ وطن کی اُلفت کو اپنے دِل میں سمو کر یہ حساس شاعر چپکے سے زینۂ ہستی سے اُتر گیا۔ اُس کی لحد سے اُٹھنے والی وفا کے عطر بیز جھونکے آج بھی بے مہری ٔ عالم کا پیغام سناتے ہیں ۔الفاظ کی حرمت کو ملحوظ رکھنے والے تخلیق کارجب عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیتے ہیں تو اجل کے بے رحم ہاتھ اُن کے اجسام کو توہم سے دُور لے جاتے ہیں مگر فنا سے نا آشنا اُن کی یادیں قلب و جاں میں بس جاتی ہیں ۔وفات سے چند گھنٹے پہلے رام ریاض نے عیادت کے لیے آنے والے ہمسایوں سے مخاطب ہو کر آہ بھر کر کہا :
میں نے سرِ گِرداب کئی بار پکارا
ساحل سے مگر لوگ بڑی دیر سے بولے
گلزار ِ ہست و بُود کے درمیان حائل فصیلِ وقت کے باعث وجود اور عدم کے بارے میں حقائق کی تصویر اِنسان کی آ نکھوں سے اوجھل رہتی ہے ۔ تقدیر کے چاک کو سوزنِ تدبیر سے رفو کرنا بعید از قیاس ہے ۔سعدیہ دہلوی کے لخت ِ جگر ارمان علی رضا دہلوی کے اضطراب اور اِس سانحہ کے نتائج کو محسوس کرتے ہوئے میرے ذہن میں فیض احمد فیض ؔکے یہ شعر گردش کرنے لگے :
موتی ہو کہ شیشہ جام کہ دُر
جو ٹُوٹ گیا سو ٹُوٹ گیا
کب اشکوں سے جُڑ سکتاہے
جو ٹُوٹ گیا سو ٹُوٹ گیا
تم ناحق ٹُکڑے چُن چُن کر
دامن میں سجائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آ س لگائے بیٹھے ہو
یادوں کے گریبانوں کے رفو
پردِل کی گزر کب ہوتی ہے
اِک بخیہ اُدھیڑا ایک سیا
یوں عمر بسر کب ہوتی ہے
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں کوفی النسل لوگوں نے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔ سعدیہ د ہلوی کی رحلت کے بعد ہو نہارنوجوان ارمان علی دہلوی کے دِل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے ہیں ۔ آفاق میں طلوع و غروب کے مانند زندگی اور موت کا سلسلہ بھی ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری ر ہے گامگر بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی دائمی مفارقت کا صدمہ پس ماندگان کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی کرچی کردیتاہے۔ خدا کرے یہ پر عزم نوجوان اپنی والدہ مرحومہ کی علم و ادب کی متحرک علمی ،ادبی اورثقافتی میراث کے حٖفاظت کر سکے اور حریت ِ فکر و عمل کی اُ س شمع فروزاں رکھ سکے جو اُس کی والدہ نے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کی تمنامیں زندگی بھر فروزاں رکھی ۔
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 609980 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.