موہن بھاگوت اور مودی۔ دور حاظر کے ہٹلر

یہ امر قابل ذکر ہے کہ آر ایس ایس کے 69سالہ سربراہ ’ موہن بھاگوت‘ کی سربراہی میں 16 تا 17اگست کو دو روزہ آر ایس ایس کا اجلاس منعقد ہوا۔یہ خصوصی اجتماع بھارتی صوبے اترپردیش کے شہر ورانسی میں ہوا۔ماہرین کے مطابق اس جلاس میں ایودھیا میں رام مندر تعمیر کے لئے بھومی پوجن کے بعد اب آگے کے مراحل پر غور و فکر شروع ہوچکا ہے۔ اسی دوران جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کے کئی اجلاس جاری ہیں اور ایسی کوششیں بھی جاری ہیں کہ رام مندر تعمیر میں ہر خاص و عام کی شرکت کو ممکن بنایا جا سکے۔

اس کے لیے مذکورہ ٹرسٹ نے بینک اکاؤنٹ بھی جاری کر دیا ہے تاکہ لوگ اپنی جانب سے جو بھی عطیہ دینا چاہیں وہ مندر کے لیے جمع کرا دیں۔اس اجلاس کو رام مندر تعمیر کے لیے بہت اہم تصور کیا جا رہا ہے کیونکہ کئی اہم فیصلے متوقع ہیں جن کا باقاعدہ اعلان آنے والے دنوں میں ہوگا۔ بھارتی میڈیا ذرائع کے مطابق آر ایس ایس رام مندر تعمیر کے لیے عام ہندوں میں مندر کی تعمیر نو کے حوالے سے ایک جنونی فضا پیدا کرنے کی خواہش مند ہے ۔

بتایا جارہا ہے کہ آر ایس ایس گاؤں گاؤں میں رام مندر کو لے کر خصوصی جوش پیدا کرنا چاہتی ہے ۔آر ایس ایس نہیں چاہتی کہ رام مندر کی تعمیر کا عمل شروع ہونے کے بعد عام ہندوں کا جوش ٹھنڈا پڑ جائے اور وہ جنون باقی نہ رہے جو ایودھیا میں رام مندر کے حق میں بھارت کی سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے دیکھنے کو ملتا تھا ۔غیر جانبدار مبصرین کے مطابق آر ایس ایس 1990 سے ایودھیامیں رام مندر کی اہم محرک رہی ہے لیکن وہ پردے کے پیچھے تھی جبکہ ایل کے ایڈوانی کو آگے کیا تھا لیکن 2014 کو اسی تنظیم نے نریندر مودی کو آگے کیا اور اب اس کی سربراہی میں ہی رام مندر کی تعمیر ہو رہی ہے۔

اسی ضمن میں انسان دوست حلقوں کے مطابق بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہا پسندی اور عدم برداشت کی موجودہ صورتحال کو تب تک سمجھنا خاصا مشکل ہے جب تک اس کے اصل منبع یعنی RSS کے ارتقائی مراحل کا جائزہ نہ لیا جائے ۔ RSS داراصل ’’ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ‘‘ کا مخفف ہے جس کا مطلب قومی رضا کار تنظیم ہے ۔ ڈاکٹر ہیگ واڑ نے 1925 میں RSS کی بنیاد رکھی ۔ 1940 میں موصوف نے گرو گول والکر کو اپنا جانشین نامزد کیا جو 1973 تک اپنے عہدے پر قائم رہے ۔ اور در حقیقت ’’ گولوالکر‘‘جنہیں سنگھ پریوار میں گرو جی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ) نے ہندو انتہا پسندی کو موجودہ سطح تک پہنچانے میں فعال کردار ادا کیا ۔ ان کی تینتیس سالہ قیادت کے دوران ہی RSS کے ایک رکن ’’ ناتھو رام گوڈسے ‘‘ نے تیس جنوری 1948 کو مہا تما گاندھی کو قتل کیا جس کی وجہ سے تقریباً ڈیڑھ سال کے لئے یہ تنظیم کالعدم قرار دے دی گئی االبتہ نہرو حکومت نے اسے دوبارہ کام کرنے کی اجازت دے دی ۔

RSS کے تیسرے سربراہ ’’ بالا صاحب دیو رس ‘‘ تھے جو 1973 تا 2000 تک اس منصب پر قائم رہے ۔ اسی دوران جب جون 1975 میں اندرا گاندھی نے بھارت میں ایمر جنسی نافذ کی تو چند ماہ کے لئے اس تنظیم کو کام کرنے سے روک دیا گیا ۔ RSS کے چوتھے سربراہ ’’ راجندر کمار عرف راجو بھیا ‘‘ تھے جس کے بعد ’’ کے سی سودرشن ‘‘ نے RSS کی قیادت سنبھالی اور 2009 سے موہن بھاگوت اس تنظیم کے سربراہ ہیں جو مصدقہ ذرائع کے مطابق سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں بھی بالواسطہ طور پر ملوث تھے ۔

اپنے قیام کے روزِ اول سے ہی اور 1947 میں بھارت کی آزادی کے بعد سے RSS اور اس کے حمائیتیوں کا موقف مسلسل یہ رہا ہے کہ وہ بھارت کو ہندو نظریات کی حامل ریاست بنائیں گے اور اکھنڈ بھارت اور رام راجیہ کے خواب کو عملی تعبیر دی جائے گی۔ ظاہر سی بات ہے کہ سیاسی اقتدار حاصل کیے بغیر ان میں سے کسی ہدف کا حصول ممکن نہ تھا ۔ اسی مقصد کے لئے RSS نے 1951 میں اپنے سیاسی ونگ کے طور پر ’’ بھارتی جن سنگھ نامی پارٹی کی بنیاد رکھی ۔ شیاما پرشاد مکر جی اس کا بانی صدر تھا ، بعد میں دین دیال اپادھیا اور بلراج مدھوک اس عہدے پر رہنے والوں میں نمایاں تھے ۔ جن سنگھ نامی یہ سیاسی نما انتہا پسند گروہ بتدریج 1980 میں BJP کی شکل اختیار کر گیا ۔ BJP کے سربراہ بالترتیب واجپائی ، ایڈوانی ، جوشی ، کیشو بھاؤ ٹھاکرے ، بھنگارو لکشمن ، کرشنا مورتی ، ونکیا نائیڈو ، راج ناتھ سنگھ اور نیتن گڈکری رہے ۔ آج کے کل جے پی نڈااس عہدے پر فائز ہے ۔

یہاں اس امر کا ذکر بھی ضروری ہے کہ 1947 میں بھارت کی آزادی کے بعد کے ابتدائی چار سال تک RSS نے بھارت کے قومی پرچم کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کیے رکھا کیونکہ اس کا موقف تھا کہ اس کا رنگ مکمل طور پر زعفرانی ہونا چاہیے ۔ ( زعفرانی رنگ کو بھگوا بھی کہا جاتا ہے اور ہندو مذہب کی علامت کا درجہ حاصل ہے گویا یہ ہندو ازم کا سمبل ہے) ۔ ہندو دانشوروں کے نزدیک یہ دہکتی آگ کا رنگ ہے ۔
 

Hammad Asghar
About the Author: Hammad Asghar Read More Articles by Hammad Asghar: 16 Articles with 12731 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.