چند سال قبل میرا اجمیر شریف حاضری کیلئے بھارت جانا ہوا
تھااس دورے کے دوران ہم بھارت کے جدید ترین اور نئے شہر گڑگاں میں داخل ہو
چکے تھے جو لوگ گڑ گاں جا چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ نیا شہر دہلی کے ساتھ
ہی آباد ہواہے، اِس کی فلک بوس عمارتیں اور پلازے دیکھنے والے کو اپنے سحر
میں جکڑ لیتے ہیں، ہمارا میزبان دلاورچٹھہ سنگھ فخریہ انداز سے گڑگاں کی
تعریفیں کر رہا تھا، چٹھہ سنگھ کی باتیں اور شہر کی خوبصورتی دیکھ کر میرا
تجسس آخری حدوں کو چھورہا تھا، ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دہلی
جیسے پرانے شہر کے ساتھ ہی سنگاپور، ہانگ کانگ یا دوبئی جیسا جدید شہر اِس
تیزی سے پھیل رہا ہوگا۔دنیا بھر کے مہنگے اور سستے برانڈ کے علاوہ
انٹرنیشنل کھانے برگر وغیرہ کی برانچیں ہر طرف کھلی ہوئی تھی، ہم جو دہلی،
اجمیر شریف، جے پور، پانی پت، شملہ، سرہند شریف، امرتسر، چندی گڑھ، موالی
کے علاوہ بھارت کے بے شمار شہروں سے ہوتے ہوئے آئے تھے، ہمارے لیے یہ ایک
جھٹکا تھا کہ بھارت جس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک غربت نے اپنی زلفیں
چاروں طرف بکھیر رکھی ہیں، اس ملک میں ایسا جدید شہر آباد ہو گا جو برق
رفتاری سے پھیل رہا تھا۔ اِس شہر کی خوبصورتی اور جدت کو ایک دم داغ لگ گیا،
اچانک میری نظر سڑک پر گھومتے، سڑک کو کراس کرتے اور ادھر ادھر پھرتے اس
جانور پر پڑی جس کا نام لینا بھی ہم مسلمان اچھا خیال نہیں کرتے، اس ناپاک
جانورکی ٹولیاں سر عام بلا خوف و خطر گھوم رہی تھی، بھارت کے مختلف شہروں
میں بندروں کو تو ہم نے اکثر دیکھا لیکن اِس جانور کی بلکل توقع نہ تھی۔
چٹھہ سنگھ کا تعلق بھارت کے ایک سیاسی خاندان سے ہے، یہ لوگ پاکستان سے
ہجرت کر کے بھارت آئے ہیں لیکن پاکستان کے چند سیاسی خاندانوں کے ساتھ اِن
کے مراسم ابھی تک قائم و دائم ہیں، اِن کا خاندان پاکستان اکثر جاتا رہتا
ہے اور جب بھی کوئی پاکستانی بھارت آتا ہے تو یہ ان کی خوب آوبھگت کرتے ہیں،
میرے ایک پاکستانی سیاسی دوست نے اِن کو فون کیا تھا لہذا آج چٹھہ سنگھ
ہمیں کمپنی کر رہا تھا باتوں کے دوران چٹھہ سنگھ نے بتایا کہ اِن کے خاندان
کے دو بوڑھے سکھ ہیں جو پاکستانیوں سے بہت محبت کرتے ہیں، جب بھی کوئی
پاکستانی آتا ہے یہ ان کی دعوت کرتے ہیں اور بہت خواہش کرتے ہیں کہ جب بھی
کوئی پاکستانی آئے تو ان کے گھر ضرور آئے لہذا چٹھہ سنگھ ہمیں ان کے گھر
کھانے پر لے جارہا تھا۔یہ دونوں بوڑھے سکھ آپس میں بہت دوست تھے اور خوب گپ
شپ بھی لگاتے تھے، ہم انہی باتوں میں گم تھے کہ اچانک چٹھہ سنگھ نے گاڑی
ایک دو منزلہ دس مرلے کے گھر کے سامنے کھڑی کی اور پر جوش نعرہ مارا کہ
ہماری منزل آگئی، گھر والے ہمارے آنے سے باخبر تھے اِس لئے جیسے ہی گاڑی
رکی ملازم نے گیٹ کھول دیا، ہم گاڑی سے اتر کر ملازم کے پیچھے گھر کے
ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے جہاں دو بوڑھے بیٹھے ہمارا انتظار کر رہے تھے ایک
تو سکھ تھا پگ وغیرہ کے ساتھ جبکہ دوسرا بھی بعد میں پتہ چلا کہ سکھ ہی ہے
لیکن وہ مونا سکھ ہے، آج کل بھارت میں نوجوان سکھ نسل میں تیزی سے داڑھی
مونچھ صاف کر نے کا رجحان فروغ پا رہا ہے اس کے بارے میں سکھ برادری میں
بہت پریشانی پائی جاتی ہے، نوجوان نسل سکھ کلچر سے دور بھاگ رہی ہے۔دونوں
سکھ بہت محبت اور پیار سے ملے ان کی آنکھوں پر خوشی کے تاثرات واضح نظر
آرہے تھے وہ بہت پرجوش اور خوش نظر آرہے تھے پگ والے سکھ کا نام پردیپ سنگھ
تھا جبکہ دوسرے کا نام دلاور سنگھ تھا، پردیپ سنگھ انڈین پولیس سے ریٹائرڈ
ہوا تھاپنجابی زبان میں تھوڑا بہت لکھتا بھی تھا وہ فر فر بلھے شاہ اور
بابا فرید کے شعر پڑرہا تھا جبکہ دوسرا دلاور سنگھ راولپنڈی پاکستان کا
رہنے والا تھا قیام پاکستان کے وقت وہ بھارت آگیا۔بھارت میں جہاں بھی سکھ
برادری اکھٹی ہوتی ہے کوئی مہمان آتا ہے تو سرعام مشروب مغرب پیش کیا جاتا
ہے ہمارے سامنے بھی جام اور برف کے ساتھ مشروب مغرب آگیا جب ہم نے سختی سے
انکار کیاتو تینوں حیرت سے ہماری طرف دیکھنے لگے وہ یہ یقین کر نے کو تیار
نہیں تھے کہ ہم مشروب مغرب نہیں پیتے ان کے بقول پاکستان سے زیادہ تر لوگ
عیاشی اور شراب نوشی کے لیے آتے ہیں، ہمارا انکار انہیں ہضم نہیں ہورہاتھا
بہرحال اب انہوں نے کوک پیش کردی جو ہم ڈرتے ڈرتے سونگھ سونگھ کر پینی شروع
کردی ایسی دوران باتوں کا دور شروع ہو گیا، وہ پاکستانی فوجی اداروں کی بہت
تعریف کر رہے تھے کہ پاکستانی انٹیلی جنس بھارت میں بہت ایکٹو ہے وہ جب
چاہتی ہے یہاں پر اپنی مرضی کا کھیل رچاتی ہے باتوں کے دوران جب ہم نے
بتایا کہ ہم سرہند شریف سلام کر کے آرہے ہیں تو اچانک پردیپ سنگھ نے رونا
شروع کردیا اس کے چہرے پر شام غریباں اور آنکھوں میں کوفے کی ویرانی نظر
آنا شروع ہو گئی وہ روح تک بنجر اور باہر سے ویران لگ رہا تھا شدید اور
شرمندگی کے گہرے تاثرات اس کے بوڑھے چہرے پر اور بھی گہرے ہو گئے، اس کا
اندرونی دکھ برداشت کے بند توڑ کر پلکوں تک آگیا تھا اس کی آنکھوں سے
آنسوساون بھادوں کی طرح برسنے لگے رونے سے اس کے دل کا غبار کچھ کم ہوا تو
اس نے لرزتی ہوئی کربناک آواز میں بولنا شروع کیا۔اب اس کی زبان سے الفاظ
ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہونا شروع ہوئے باتوں کے دوران اس کے اشکوں کی روانی اور
بھی تیز ہو جاتی، اس نے بتانا شروع کیا تقسیم کے وقت ہمیں پتہ چلا کہ
پاکستان میں مسلمان سکھوں کا قتل عام کر رہے ہیں جو بعد میں پتا چلا کہ
افواہ تھی لیکن میرے والد صاحب ان کے بھائی اور میرے بڑے بھائی نے اپنے
دوستوں کے ساتھ مل کر جتھوں کی شکل میں پاکستان جانے والے قافلوں پر حملے
شروع کر دیے، سر ہند شریف میں مسلمانوں کی بہت بڑی درگاہ تھی بے چارے
مسلمان سکھوں کے خوف سے اس درگاہ کی طرف بھاگ رہے تھے لیکن میرے والد صاحب
اور ان کے ساتھیوں نے چن چن کر مسلمانوں کا قتل عام کیا، بچوں کو نیزوں پر
ٹانکا گیا نوجوان لڑکیوں کو اٹھا لیا گیا میری آنکھوں کے سامنے میرے والد
صاحب اور اس کے ساتھیوں نے مجبور مظلوم مسلمانوں کو قطار میں کھڑا کر کے
قتل کرنا شروع کردیا۔ غریب ہاتھ جوڑتے رہے پاں پڑتے رہے لیکن ظالموں کو کسی
پر بھی ترس نہ آیالاکھوں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور معصوم
پاک باز لڑکیوں کو اٹھا لیا گیا ، بوڑھا پردیپ سنگھ رو رو کر شرمندگی سے یہ
داستان ظلم سنارہا تھا کمرے پر سناٹا طاری تھا پردیپ سنگھ بار بار معافی
مانگ رہا تھاکہ تقسیم کے وقت ہم مکار ہندوں کی باتوں میں آگئے ہم سے بہت
بڑی غلطی ہوئی، پردیپ سنگھ کی باتیں سن کر میرے وجود میں کئی آتش فشاں دہک
اٹھے میں سوچنے لگا آج کل کی نوجوان نسل یہ بلکل نہیں جانتی کہ جس پاکستان
کو وہ گالیاں دیتے ہیں جس میں آزادی کا سانس لیتے ہیں اِس پاکستان کی
بنیادوں میں لاکھوں آزادی کے گمنام ہیروز کا خون اور معصوم پاک بہنوں
بیٹیوں کی عزتیں دفن ہیں ، سلام ہے ان گمنام آزادی کے ہیروزکو جن کی
قربانیوں کے طفیل آج ہم آزادی کا سانس لے رہے ہیں۔
|