’’ماسک نہیں ، سیاحت نہیں ‘‘۔۔۔۔ پالیسی کامیاب نہیں؟

image
 
پاکستان میں 23اگست 2020تک سامنے آنے والے حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک میں 10ہزار964کورونا کے ایکٹو کیسز موجود ہیں ، 22اگست کو591کیسز کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا، جبکہ اس دن ملک بھر سے24ہزار956لوگوں کاکا کورونا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔جبکہ اس دن کے اعداد وشمار کے مطابق کورونا وائرس سے 2لاکھ 75ہزار836مریض صحت یاب ہوگئے تھے۔اس حوالے سے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 23اگست کو گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران 4لوگوں کی اس وائرس کی وجہ سے موت ہوئی۔ ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی کی اس وقت بلوچستان اور آزاد جموں اینڈ کشمیر میں کوئی بھی کیس وینٹی لیٹر پر نہیں ہے ۔
 
 ان تمام اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو پاکستان میں کورونا کیسز کے حوالے سے حالات دنیا کے کئی ممالک سے بہت بہتر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی سیاحت کو فروغ دینے کی غرض سے جون 2020میں ہی وزیر اعظم عمران خان نے ٹورازم انڈسٹری کو کھولنے کا اعلان کردیا تھا۔جس کے بعد سے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کا پاکستان میں موجود پُر فضا مقامات کا دورہ کرنے کیلئے بے تاب دکھائی دئیے۔
 
سیاحت کی غرض سے ملک کے پُر فضا مقامات کا دورہ کرنے والے سیاحوں کو سختی سے ہدایات جاری کی گئیں تھیں کہ ’’ماسک نہیں تو سیاحت نہیں ‘‘، تاہم یہ پالیسی اتنی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ،کیونکہ کئی مقامات پر سیاح بغیر ماسک کے دکھائی دے رہے ہیں اور ناہی وہ چھ فٹ کا فاصلہ رکھنے پر غور کررہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے کیسز مزید ہوجانے کے خدشات بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔
 
image
 
اس حوالے سے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’ہنزہ‘‘ کورونا سے پاک علاقہ ہے ، یعنی وہاں اب کورونا کا کوئی ایکٹو کیس موجود نہیں ، تاہم اب وہاں جانے والے سیاحوں کی جانب سے ایس او پیز پر عمل نہ کرنے ، ماسک نہ لگانے اور مناسب فاصلہ رکھنے کی احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے اس علاقے میں کورونا وائرس کا دوبارہ پھیلاؤ ممکن نظر آتا ہے ۔
 
اس حوالے سے نیشنل ٹورازم ریکوری ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹورازم انڈسٹری کو کھولنے کا فیصلہ اچانک نہیں کیا گیا، تین ماہ تک اس مسئلے کو دیکھا گیا اور اس کے بعد ہی سیاحتی شعبے کو کھول دینے کا اعلان کیا گیا، ان کے مطابق گرمیوں کے دوران صرف گلگت بلتستان میں 1.5ملین لوگ گھومنے کی غرض سے ٓتے ہیں ، جبکہ سوات، پشاور، چترال ، ایبٹ آباد وغیرہ آنے والوں کی تعداد 1.2ملین تک ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو اس بات کی اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ان مقامات کا دورہ کریں اور ملکی سیاحت کو فروغ دیں۔ تاہم گھومنے کے دوران ایس او پیز پر عمل کروانے کی سختی کرنے کو کہا گیا ہے ۔ان کے مطابق پُرفضا مقامات پر موجود چھوٹے، بڑے ریسٹورنٹس، دکانیں ودیگر کے مالکان اور ہر علاقے کے ڈسٹرک ایڈمنسٹریشن سے سے ان کا رابطہ ہے اور وہ تمام لوگوں سے رابطہ کرکے ایس او پیز پر عمل کروا رہے ہیں ۔ان لوگوں کو یہی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کے گیسٹ رومز اور ڈائننگ ایریا میں کم تعداد میں لوگوں کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے،ماسک اور دستانوں کے بغیر لوگوں کو آنے کی اجازت نہ دی جائے، جگہ جگہ کورونا سے بچاؤ کی ہدایات پر مبنی سائن بورڈز لگائے جائیں ، تاکہ لوگ ان باتوں کو پڑھ کر ان پر عمل کریں ، پمفلٹس کی صورت میں لوگوں کو ہدایات کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے ،انتظامیہ کی جانب سے یہ سب ہدایات جاری کردی گئی ہیں تاہم ان پر عمل کروانا مقامی عہدیداروں کا کام ہے۔
 
image
 
ایک مسئلہ جو گلگت بلتستان آنے والے سیاحوں کی جانب سے احتیاط نہ کرنے کی صورت میں بھگتنا پڑسکتا ہے ،وہ ہے ’’کورونا وائرس کا پھیلاؤ‘‘۔ اگر اس علاقے میں کورونا وائرس سیاحت کی وجہ سے پھیلا تو یہاں نئے مسائل جنم لے سکتے ہیں ، جیسا کہ یہاں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تعداد کم ہے ، پاکستان جرنل آف پبلک ہیلتھ میں لکھے گئے اعداد وشمار کے مطابق یہاں 1206افراد کیلئے صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے ، اس تناسب سے ڈاکٹرز کی عدم موجودگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اگر وائرس یہاں پھیل گیا تو سیاحت کے لئے آنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کی جانوں کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ۔
 
 مقامی لوگ یا لوکل ٹور گائیڈز لوگوں کو خوش آمدید کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر تیار کردہ کھانے وغیرہ بھی کھلاتے ہیں، ایسے میں ایس او پیز پر کیسے عمل کیا جاسکے گا ، یہ بات سمجھ سے باہر ہے، ساتھ ہی یہاں آنے والے سیاح باغات سے پھل وغیرہ توڑ کر کھاتے ہیں ، ایسے وقت میں انہیں کون اس طرح کرنے سے روک سکے گا۔
 
image
 
چئیر لفٹس کی مدد سے سیر کے دوران بھی کئی مقامات پر لوگ بغیر ماسک کے ہی دکھائی دے رہے ہیں ، کئی جگہ تو ایسا دیکھا گیا کہ بڑوں نے ماسک لگایا ہوا ہے اور ان کے بچوں نے ماسک نہیں لگایا ہوا۔ کئی مقامات پر بسوں میں سفر کرنے کے دوران سماجی فاصلہ اختیار نہیں کیا جارہا، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں تو سختی سے ایس او پیز پر عمل کروایا جارہاہے تاہم اکثر سیاح جب باہر گھومنے نکلتے ہیں تو ان حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ جس کی وجہ سے کورونا کا وائرس کا پھیلاؤ ممکن ہوسکتا ہے ۔
 
حال ہی میں مختلف سیاحتی مقامات کی کئی ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں، جن میں بخوبی دکھائی دے رہا ہے کہ لوگ گھومنے کیلئے ان مقامات پر آرہے ہیں لیکن حفاظتی اقدامات اختیار نہیں کررہے ۔ پاکستان مونومنٹ اینڈ میوزیم، اسلام آباد میں لوگوں کی بڑی تعداد گھومنے آرہی ہے ، لیکن یہاں آنے والے زیادہ تر لوگوں نے ماسک تک نہیں لگائے ہوئے ہوتے اور ناہی سماجی فاصلے کی شرط پر عمل کیا جارہا ہے ، اسی طرح مری کے قریب موجود پتریاٹا ریزورٹ میں آنے والے سیاح بھی بغیر ماسک پہنے چیئر لفٹ پر بیٹھے دکھائی دئیے ۔ ایسی تصاویر بھی سامنے آئیں ،جس میں شمالی علاقہ جات اور ملک کے پُرفضا مقامات پر سیر کی غرض سے لوگوں کی بڑی تعداد ایک ساتھ نکل آئی ، جس کی وجہ سے گاڑیوں کی طویل قطاریں گھنٹوں ٹریفک جام کا سبب بنی رہیں ، کچھ مقامات پر ڈرلنگ ودیگر وجوہات کی بناپر بھی ٹریفک کے مسائل دیکھنے میں آئے۔ مری ایکسپریس وے ہو یا جی ٹی روڈ، سب پر ہی ٹریفک کی بدترین صورتحال دیکھنے کو ملی۔ اسی طرح راولپنڈی اور اسلام آباد کے دوران چلائی جانے والی سیاحتی ڈبل ڈیکر بسوں میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد سماجی فاصلے کی پروا کئے بغیر ہی گھومتی دکھائی دے رہی ہے۔ لاہور کے چڑیا گھر کو بچوں کیلئے کھول دیا گیا ہے ، تاہم وہاں آنے والے کئی بچوں نے اپنے چہرے پر ماسک نہیں لگائے ہوئے ہوتے، انتظامیہ کو اس ہدایت پر سختی سے عمل کروانے کی ضرورت ہے ، کیونکہ بچوں کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے اور وہ کسی بھی بیماری کا جلدی شکار ہوجاتے ہیں، ایسے میں گھومنے آنے والے بچوں کیلئے حفاظتی قدامات کو یقینی بنانا ان کی اپنی زندگیوں کیلئے ضروری ہے ۔ اسی طرح لاہور کے شاہی قلعہ،شالامار باغ اسلام آباد کی فیصل مسجد ودیگر مقامات پر بھی لوگوں کی بڑی تعداد گھومنے کی غرض سے پہنچ رہی ہے ، تاہم وہ لوگ بھی ایس او پیز کو زیادہ اہمیت دیتے دکھائی نہیں دے رہے۔
 
image
 
اتوار کو ناران ، کاغان اور شوگران کے تمام ہوٹلز کو مانسہرہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ہوٹل اسٹاف میں 47کورونا کیسز سامنے آنے کی وجہ سے بند کردیا گیا ہے ۔ ان مقامات پر48ہوٹلز موجود ہیں ، جنہیں سیل کردیا گیا ہے تاکہ کورونا وائرس کا مزید پھیلاؤ نہ ہو۔ ان مقامات سے نئے کورونا کیسز سامنے آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اب بھی کورونا وائرس کا پھیلاؤ ممکن ہے ، لہٰذا سیاحوں کو حفاظتی اقدامات اختیار کرتے ہوئے مقامی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے ،انہیں اپنی اوردوسروں کی جانوں کو محفوظ بنانے کے لئے ایس او پیز پر سختی سے عمل کرنا چاہئے۔
YOU MAY ALSO LIKE: