محرم الحرام کا مہینہ اسلامی اور قمری سال کا پہلا مہینہ
ہے یہ مہینہ سال بھر کے ان چار مہینوں میں شامل ہے جن کو اﷲ تعالی نے
وجودکائنات کے شروع دن ہی سے خصوصی حرمت اورفٖضیلت بخشی ہے وہ چار مہینے یہ
ہیں 1۔ذوالقعدہ2 ۔ذو الحجہ3 ۔محرم 4۔رجب،
اس مہینے میں خوب نیک اعمال کریں ،جتنا ممکن ہو حسب توفیق نفلی روزے رکھنے
کی کوشش کریں،کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے ’’کہ رمضان کے روزوں کے بعد سب
سے بہترین روزے اﷲ کے مہینے ’’محرم‘‘ کے روزے ہیں‘‘اس حدیث مبارکہ میں
روزوں کی فضیلت کے ساتھ محرم کی نسبت اﷲ کی طرف کر کے اس مہینہ کی خصوصی
شرافت اور اہمیت کو بتلایا گیا کہ محرم اﷲ کا مہینہ ہے پھر اس مہینہ میں جو
فضیلت عاشوراء یعنی دس محرم کے دن کو حاصل ہے وہ اس مہینہ کے باقی عام دنوں
سے زیادہ ہے اسی طرح جو فضیلت دس محرم کے روزے کی ہے وہ بھی اس مہینہ کے
باقی عام دنوں سے زیادہ ہے اسی دن حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون سے نجات
پائی تھی، یہود ونصاری اور قریش مکہ اس دن کی فضیلت کے قائل تھے اور تعظیم
کرتے تھے اور حضور انور ﷺ اس دن میں روزہ رکھا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی
اس کی ترغیب دیتے تھے، زمانہ جاہلیت میں کعبہ کو تعظیم کی وجہ سے غلاف بھی
اسی دن پہنایا جاتا تھا،رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے اسی دن کا روزہ فرض
تھا جو کہ بعد میں منسوخ ہوگیا لیکن اب بھی اس دن کے روزے کی فضیلت باقی ہے
جیسا کہ مسلم شریف کی روایت میں موجود ہے کہ حضور پاک ﷺکا ارشاد ہے کہ’’
میں امید کرتا ہوں کہ دس محرم کا روزہ رکھنے کی وجہ سے گزشتہ ایک سال کے (صغیرہ)
گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘‘ایک دوسری حدیث میں اس کے ساتھ دوسرا روزہ ملانے کا
بھی ذکر ہے لہذا اس روایت کے پیش نظر فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ تنہا دس
محرم کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی (یعنی خلاف اولی )ہے اس لئے بہتر اور
مستحب یہ ہے کہ دس محرم کے ساتھ ایک دن پہلے یعنی نویں تاریخ کا ایک روزہ
یا ایک دن بعد گیارہویں تاریخ کا ایک روزہ ملا لیا جائے تاکہ حضورپرنور ﷺ
کے فرمان کے مطابق یہودیوں کی مخالفت بھی ہو جائے اور اس دن کے روزے کی
فضیلت بھی حاصل ہو جائے۔عاشوراء یعنی دس محرم کے دن اپنے اہل وعیال پر
کھانے پینے یا کسی بھی اعتبار سے کشادگی اور فراخی سے خرچ کرنے کی فضیلت
حدیث پاک میں آئی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو کوئی شخص عاشوراء
(دس محرم) کے دن اپنے گھر والوں پر خرچ میں وسعت کرے گا اﷲ تعالی سارا سال
اس پر( رزق )میں وسعت فرمائے گاَ۔اگرچہ اس قسم کی روایات کی سند پر کلام ہے
لیکن محدثین کی تصریح کے مطابق ایسی روایا ت جو مختلف طرق اور اسناد سے
مروی ہوں ان میں قوت پیدا ہو جاتی ہے اس لئے اس کو اعمال کے فضائل میں بیان
کرنا درست ہوتا ہے ۔ اسی لئے فقہائے کرام ؒنے لکھا ہے کہ دس محرم کو اہل
وعیا ل پر وسعت کرنا مستحب ہے لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ جو چیز یں جتنے
درجے میں ثابت ہوں ان کو اسی درجے میں رکھ کر بغیر کمی اور زیادتی کے ماننا
اور عمل کرنا چاہیے مثلا حدیث میں وسعت کا ذکر ہے اور وسعت صرف کھانے پینے
کی چیزوں سے نہیں بلکہ لباس وغیرہ دیگر چیزوں کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے اور
مذکورہ حدیث میں اہل وعیال پر وسعت کا ذکر ہے اس کو اتنا بڑھانا کہ ہر
علاقے یا محلے والوں کو شامل کرنے کا انتظام و التزام کرنا اور ادھر ادھر
کھانے پینے کی چیزوں کوبھیجنے کا التزام کرنا یا عید کا ساسماں پید اکرنا
درست نہیں۔اور نہ ہی اس مذکورہ حدیث کا تقاضا ہے اس حدیث پاک کا مطلب فقط
اتنا ہے کہ صرف برکت حاصل کرنے کے لئے اس دن اپنے اور اپنے زیر کفالت گھر
والوں کی حد تک،اپنی حیثیت کے مطابق بغیر کسی سے قرض لئے،حلال مال سے اچھی
چیزیں خرید کر مہیا کی جائیں اور اس کو نہ تو ضروری سمجھا جائے اورنہ ہی اس
کا دائرہ کار بڑھا کر اپنی کفالت سے باہر کے افراد کو شامل کرنے کو ضروری
سمجھا جائے۔ہمارا عمل جتنا حدیث اور سنت کے مطابق ہو گا اتنا ہی خیر وبرکت
کے دروازے کھلیں گے۔ جو کام دوسرے حرمت والے مہینوں میں جائز ہیں وہ محرم
کے مہینے میں بھی جائز ہیں مثلا نکاح مسنون کرنا،کاروبار کرنا،نیامکان
بنانایا بنوانا،نیا لباس پہنناوغیرہ سب جائز امور ہیں۔قبروں کی لیپا پوتی
جائز ہے لیکن اس کام کے لئے صرف ماہ محرم کو مقرر کرنا درست نہیں،جب بھی
موقع ہو، لیپا پوتی کرسکتا ہے۔ قبروں کی زیارت ثواب ہے مگر اس کام کے لئے
لوگ دس محرم کو مقرر کرتے ہیں سال میں صرف اسی دن قبرستان میں جاتے ہیں ،آگے
پیچھے بھول کر بھی نہیں جاتے ،یہ صحیح نہیں۔ اورجو کام دوسرے مہینوں میں
ناجائز ہیں وہ اس محرم کے مہنیے میں بھی ناجائز ہیں۔بہر حال مختصریہ کہ دس
محرم کے دن دو چیزیں سنت سے ثابت ہیں ،ایک دس محرم کا نفل روزہ جس کے ساتھ
نو یا گیارہ کا روزہ ملا لینا بہتر ہے،دوسرے اہل وعیال پر نان ونفقہ میں
وسعت کرنا اور بس ،اس کے علاوہ باقی چیزیں سنت سے ثابت نہیں۔
|