مجھے کرکٹ بہت پسند ہے اور تقریباً سارے پاکستان میں ایک
پسندیدہ کھیل ہے۔ہمیں ہمیشہ یہ نصیحت کی جاتی تھی کہ بیٹا "پڑھوگے لکھو کے
ہو گے کامیاب، کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب" مگر ہمارے معاشرے میں تو اس کے
باالکل الٹ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہم نے تو یہ دیکھا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ
بھی روزگار کے لیے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں اور جو محلہ کا سب سے آوارہ بچہ
ہوتا ہے وہ کھیل کود سے ایک کامیاب انسان بن جاتاہے۔
مولانا مودودیکے مطابق حکومت اس سب کی ذمہ دار ہے چونکہ تمام ادارے بشمول
افواج،عدلیہ،پولیس،صحت،پاور وغیرہ حکومت کے زیرنگرانی ہوتے ہیں اس طرح کوئی
بھی معاشرہ میں بگاڑ ہو تو ذمہ دار حکومت ہوتی ہے۔ حکومتیں خود ایسے شر یر
لوگوں کو سپورٹ کرتی ہے اور اپنا فائدہ اٹھاتی ہے بعد میں یہی لوگ سیاست
میں آکر حکمران بن جاتے ہیں اور یہ سرکل چلتا رہتا ہے۔
موجودہ حکمران بھی پہلے جیسے حکمرانوں کی ڈگر پر ہیں بلکہ چند ایک کے علاوہ
وہی چہرے ہیں جو پہلی حکومتوں میں شامل تھے تو تبدیلی کیا ہوئی؟
خیر بات ہو رہی تھی کرکٹ کی تو ہم نے کرکٹ میں بہت ترقی کی اور الحمداللہ
1992میں ہم نے کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر پوری دنیا میں پاکستان کو نام روشن کیا
یہ سب اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی سے ہواجس میں پاکستان کی عوام کی دعاؤں
اور ہماری کرکٹ ٹیم کی محنت اور لگن کا خاص کردار تھا۔
مگر اس کا سب سے زیادہ فائدہ ٹیم کے کپتان کو ملا جس نے ٹیم کو اکٹھا رکھنے
اور مل کر کھیلنے میں مدد دی ۔
کرکٹ میں تو تما م کھلاڑی چونکہ ایک ہی گراونڈ میں ہوتے ہیں تو ان پہ نظر
رکھنا اور ہر ایک کی کارکرگی جانچنا اور اس کے مطابق اسے سمجھانا ایک آسان
عمل ہے۔ مگر پتہ نہی کس نے یہ پٹی پڑھا دی کہ اسی طرح ایک ملک کو بھی ایک
ٹیم سنبھال سکتی ہے تو جناب پھر کیا تھا کپتان صاحب نے کمر کس لی اور ایک
نظریاتی ٹیم بنائی اور میدان سیاست میں انصاف کا پرچم لے کے کود پڑے۔
پورے بائیس سال محنت کی مگر کچھ کامیابی نہ مل سکی تو ان کی سمجھ میں یہ
بات آئی کہ امپائیر سے ذرا تجربات شئیر کیے جائیں کیونکہ انہیں تو پچھلے
ستر سالوں سے کئی میچوں کا تجربہ ہے۔ اس طرح ان کو یہ بات سمجھ آئی کہ ملک
سے ان لوگوں کو ٹیم میں شامل کریں جو کہ ایلیکٹ ایبلز ہوں۔ اس طرح پہلے
والی کرپٹ جماعتوں سے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا گیا اور اپنے پہلے جو نظریاتی
لوگ تھے چونکہ ان کی جگہ نہیں بن رہی تھی اور ان کے نظریات بھی فیل ہو چکے
تھے تو ان کو نکال باہر کیا گیا۔
ایک نیا نعرہ تبدیلی بلند ہوا اور اس کا شکار سب سے پہلے خود ٹیم کے اپنے
پرانے نظریاتی ارکان ہوئے۔
پاکستان کوایک اور تجربہ کے لیے آماجگاہ بنایا گیا اور پھر 2018 میں یہ
تجربہ کامیاب رہا اور" تبدیلی آنہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے" کے نعروں سے پورا
ملک گونجنے لگا۔ٹیم نے گراؤنڈ (پاکستان) سنبھال لیا اور کھلاڑیوں کو ان کی
ذمہ داری دے دی گئی۔
مخالف ٹیم کے کپتان سمیت بیشتر کھلاڑیوں کو پابندسلاسل کیا تاکہ کو ئی
ہماری کارکردگی کی رپورٹ عوام کو نہ دے سکے اور پھر کھیلنا شروع کیا
گیا۔پہلے ہی اوور (سال) کی پہلی بال پہ روپیہ گراؤنڈ سے باہر، دوسری بال پہ
سٹاک ایکسچینچ آدھی، تیسری بال پہ قرض کے انبار، چوتھی بال پہ مہنگائی کا
طوفان، پانچویں بال پہ سی پیک کا پیک اپ اور چھٹی بال پہ گراؤنڈمیں کھڈے
پڑنا شروع ہوگئے۔
روپیہ گرنا شروع ہو گیا، معیشت کا پہیہ الٹا چلنا شروع ہوگیا اورقرضوں کا
بوجھ بہت زیادہ بڑھنا شروع ہوگیا مگر عوام کو بتایا گیا کہ اس سب کی ذمہ
دارتو مخالف ٹیم ہے انہوں نے گراؤنڈ پرمصنوعی غلاف چڑھایا ہوا تھاجس سے یہ
کھڈے چھپ گئے تھے اور ہم نے آکر ابھی صفائی ہی کی توکھڈے نکل آئے اور
پھردوسرے اوور (سال)کی پہلی بال پہ ہی کرونا آگیا اور ایک مرتبہ پھر
گھبرانا نہیں ہے بھوک سے مر جانا ہے مگر شکوہ نہیں کرنا اگر کیا تو تم کو
بھی مخالف ٹیم کا کھلاڑی سمجھا جائے گا اور انجام تو سب کے سامنے ہے کہ پھر
کیا ہوگا۔
اب تک دو اوور (سال) کامیچ ہو چکا اور صورتحال یہ ہے کہ گروتھ ریٹ منفی
چار، لارج سکیل انڈسٹری گروتھ منفی دس،پر کیپٹا انکم 1654$سے 1388$ پہ اپنی
آخری سانسیں لے رہی ہیں اور ایکسچینچ ریٹ 168، انفلیشن 10.7% اورہمارے بلند
و بانگ دعوے کہ معیشت ترقی کر رہی ہے ، اپنے عروج پر ہے۔باقی عوام کی جو
حالت ہے وہ تو عوام جانتے ہیں لیکن میچ ختم ہونے میں ابھی تین اوور باقی
ہیں اورکھیل کو کھیل ہی سمجھنا چاہیے سیرئیس نہیں لینا چاہیے۔ اس امید کے
ساتھ عوام کی دعاؤں سے ہی اس ٹیم کی کارکردگی بہتر ہو اور مالک کائنات اپنا
کرم فرمائیں اور میرا پیارا پاکستان ایک مرتبہ پھر پوری دنیا میں روشن
ستارہ بن کے چمکے. |