ہمت مرداں مدد خدا

کیا کسی کے ماتھے پر لکھا ہے کہ غریب کی اولاد نے غریبی میں ہی زندگی بسر کرنی ہے؟

یہ توبس ایک سوچ ہے جو انسان کو ترقی کرنے نہیں دیتی۔زندگی انسان کو بار بار مواقعے فراہم کرتی ہے۔دنیا مواقعوں کا بازار ہے۔جو چاہے ،جتنا چاہے خریداری کرے۔ اگر انسان دو قدم دور ہٹ کر کھڑا رہے تو اس میں قسمت ،مقدر کو کوسنے کا کیا جواز؟

جب بھی انسان کی زندگی میں کوئی بربادی کا موقع آتا ہے۔تو اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں ،ایک وہ اپنی بربادی کو پس پشت ڈال کر تعمیر نو کے لیے کمر بستہ ہوجائے، دوسرا راستہ یہ کہ وہ نا امید ،دل برداشتہ ہوکر اپنی قسمت کو کوستے بقیہ زندگی گزار دے۔ہمیشہ وقت اور قسمت نے ان کا ساتھ دیا جنہوں نے پہلا راستہ اپنایا۔ پھر تاریخ گواہ ہے ان قوموں نے وقت کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا۔جاپانی قوم ہمارے سامنے ہے ۔ہیروشما ،ناگاساکی کی بربادی کے فوراً بعد وہ اپنے عزم ،محنت سے دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوگئے۔

دنیا میں "امریکہ کپ" کو کون نہیں جانتا۔ کشتی رانی کے مقابلوں میں امریکہ کی ٹیم نے 138 سال کپ اپنے نام کیا۔1983 میں آسٹریلیا کی ٹیم نے بھر پور محنت سے وہ امریکہ سے چھین لیا۔اس وقت امریکی ٹیم کی قیادت "ڈینس کارنر" کر رہے تھی ۔اسی شکست نے تحریک پیدا کی ۔صرف 3سال کے مختصر عرصے کے بعد اپنا ریکارڈ بحال کر لیا۔1867 کی بات ہے ۔ تھامس ایڈیسن کمپنی میں کام کرتا تھا۔نا ئیٹ شفٹ میں بیٹریوں کے تجربات کرتا تھا۔ ایک دن تجربہ کے دوران باس کی میز خل کر خاکستر ہوگئی تو باس نے کمپنی سے نکال دیا۔ اس بات نے تحریک دی تو دنیا آج اسے عظیم سانئس دانوں میں شمار کرتی ہے۔ ہیلری کلنٹن سے تو سب واقف ہیں۔امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سیکرٹری اور وزیر خارجہ رہی ہیں۔پھر امریکہ کی صدارتی امیدوار۔ کسی کو کیا معلوم کہ وہ گریجویشن کرنے کے بعد الاسکا میں مچھلیوں کی آلائشیں صاف کرتی تھی۔جاپانی مزدورں کے مقابلہ میں سست تھی۔اسی سستی کی وجہ سے اسے ملازمت سے نکال دیا گیا،یہی ناکامی اسے کامیابی تک لے گئی۔ آج آئی پوڈ، آئی پیڈ، آئی فون جیسی ڈیوائسز کے موجد "انسیٹو جابز ' کو ایپل کمپنی سے نکالا گیا۔ جی ہاں وہی کمپنی جو اس نے خود بنائی تھی۔لیکن بعد میں اس نے "نیکسٹ" نامی کمپنی بنائی۔کس کو ایپل نے منہ مانگے داموں خریدا اور انسیٹو کو بھی رکھ لیا جس نے آئی فون کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔

ظہیر الدین بابر جب فرغانہ سے چلا تو سانڈ کی ننگی پیٹھ پر سوار تھا ،پھر دنیا نے دیکھا ، وہ ہندوستان کا حکمران بنا۔قطب الدین ایبک ایک غلام تھا جو بعد میں حکمران بنا۔

آپ کے زہن میں یقیناً یہ بات گردش کر رہی ہو گی کہ یہ تو ایسے معاشروں کی کہانیاں ہیں۔ جن میں ہر فرد کو ترقی کے یکساں مواقع ملتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں ماحول اور حالات ہر جگہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔چشمہ ہمیشہ زمیں کی تہ کی رکاوٹ کو توڑ کر ہی جاری ہوتا ہے۔ آج کے دور کی بات کریں تو "ڈاکٹر محمد یونس " جس نے معمولی سے سرمایہ سے کام شروع کیا اور اب انہوں بنگلہ دیش "گرامین بنک" کے نام سے دنیائے معیشت کوایک نیا فارمولا دیا ہے۔اس نے اب بھی بورڈ آف گورنرز کے 13ممبران میں سے 9 دیہاتی لوگ بنائے ہوئے ہیں۔نریندر مودی ایک خوانچہ فروش کا بیٹا ہے اور آج دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور دنیا کے دوسرے بڑے ملک کا وزیر اعظم ہے۔پاکستان کے "اخوت پروگرام" کو تو سبھی جانتے ہیں۔دنیا میں سود سے بغیر "قرض حسنہ" دینے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے دس ہزار سے یہ کام شروع کیا۔ نیت اچھی تھی۔ میو ہسپتال لاہور سے ڈاکٹر کی ملازمت چھوڑی، سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا،امتحان میں پورے پنجاب میں پہلی پوزیشن اور پورے ملک میں تیسری پوزیشن حاصل کی ، شیخو پورہ میں اے سی تعینات ہوئے۔ سیکرٹری تک پہنچے۔لیکن روح میں خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ملازمت چھوڑی ،اخوت ادارہ بنایا۔اب تک لوگوں کو 53ارب روپے بغیر سود کے قرض دے چکے ہیں۔ 23لاکھ گھرانے اس پروگرام سے مستفید ہوچکے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے بکھری پڑی ہیں۔میاں منشاء،ایس ایم منیر،افتخار علی ملک ، ملک ریاض ہمارے سامنے ابھی کی مثالیں ہیں۔

دنیامیں کوئی کامیاب آدمی ایسا نہیں گزرا،جس نے جست اول میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہوں۔یہ ناکامیاں ہی انسان کو اوپر لے کر جاتی ہیں۔"گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں" ناکامیوں سےمایوس نہیں ہونا چاہیے۔ہمت، لگن سے کام میں جت جانا چاہیے۔ یورپی ممالک میں لوگ پرائیویٹ بزنس کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اسی میں ہی ترقی ہوتی ہے۔ اور تجارت میں برکت بھی ہے۔ہمیں نوکریوں کی تلاش کو چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع کرنے کا منصوبہ بنانا چاہیے۔اگر حکومت سب ڈگری ہولڈرز کو نوکریاں دینا شروع کردے تو یہ کام حکومت کے بس کی بات نہیں۔ ملازم ملک سے لینے والا ہوتا ہے جبکہ تاجر ملک کو دینے والا ہوتا ہے۔ اس لیے ہمت کریں ، کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں پھر کر اوور ایج نہ ہوجائیں۔ حقیر سے حقیر پیشہ بھی بھیک مانگنے سے بہتر ہے۔ میرے شہر میں ایک آلو چنے والے اور فالودہ والے کو میں ہمیشہ دیکھتا ہوں لوگ چنے لینے اور فالودہ کھانے کے لیے لائین میں لگے رہتے ہیں۔ وہ منافع کم لیتےہیں۔ اسی وجہ سے گاہگ زیادہ ہوتا ہے۔ بزنس کے ایک اہم اصول کو وہ ان پڑھ بھی جانتے ہیں۔برگر پوائنٹ،تکہ پوئنٹ، فش کارنر،کھلونوں کا کھوکھا، چشموں،شرٹس،ماسک کا ٹھیلا،پاپ کارن کا چھوٹا سا پلانٹ یہ وہ کام ہیں جو انتہائی کم سرمایہ میں شروع ہوسکتے ہیں۔ فارغ نہ رہیں کوئی نہ کوئی کام کریں ،والدین اور ملک و قوم پر بوجھ نہ بنیں۔ تھوڑا کمائیں لیکن حلال کمائیں۔اللہ ایسی ترقی دے گا جو تصور میں بھی نہ ہوگی۔اللہ تو فرماتا ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ آئیے اپنے مقدر کو بدلنے کے لیے جست لگائیں۔ کامیابیاں آپ کی منتظر ہیں۔

Iqbal Noor
About the Author: Iqbal Noor Read More Articles by Iqbal Noor: 9 Articles with 6996 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.