محترمہ نجمہ شکور کا چند دن قبل انتقال ہو گیا ۔ انا للہ
و انا الیہ راجعون ۔ محترمہ کو پانیولہ (راولا کوٹ) آزادکشمیر میں سپرد خاک
کر دیا گیا۔ لیکن معاملہ یہیں ختم نہیں ہو گیا، ان کی وفات نے ہزاروں
آنکھوں کو اشکبار کر دیا ، اس لیے کہ وہ ان کے لیے ایک سائبان تھیں،ایک شجر
سایہ دار تھیں، جس کے چھن جانے کا ان ہزاروں لوگوں خصوصاً خواتین کو شدید
احساس ہو رہا تھا۔ نجمہ شکور نے مجہوئی گڑھی دوپٹہ کےایک معروف گھرانے میں
1965 میں جنم لیا۔ والد کا نام سید غلام حسین شاہ تھا ۔نجمہ صرف انٹرمیڈیٹ
تک تعلیم حاصل کر سکیں اور ان کی شادی سرچھ ، ضلع پونچھ کے سید عتیق اللہ
شاہ مرحوم کے صاحبزادے سید عبدالشکور سے کر دی گئی۔
یہ نجمہ کی خوش قسمتی تھی یا ان کے دنیا سے چلے جانے سے ان کے سوگوار
ہزاروں لوگوں کی خوش بختی تھی کہ نجمہ کو اپنے آپ کا ادراک ہو گیا۔ نجمہ نے
اپنے میاں کو قائل کر لیا کہ ان کا مقصد محض ذاتی زندگی گزارنا نہیں بلکہ
دوسروں کے لیے زندگی گزارنا ہے ۔ نجمہ اور شکور کی جوڑی نے عرفان ذات کا
مرحلہ طے کرنے کے بعد وہ کچھ کر دکھایا اور اتنے بلند قامت ہو گئے کہ اب ان
کے کام کو دیکھ کر ورطہ حیرت میں مبتلا ہونا پڑتا ہے۔ ضلع پونچھ کے پسماندہ
علاقے کو مرکز بنا کر نجمہ نے خواتین کی فلاح و بہبود کا بیڑا اٹھایا۔ ویمن
ویلفیئر آرگنائزیشن قائم کی۔ وسائل کی کمی کے باوجود نجمہ اور شکور کا
اخلاص جیت گیا اور رفتہ رفتہ انکی تنظیم پورے علاقے میں فلاح و بہبود کا
مترادف بن گئی۔
نجمہ اور شکور کی خدمات نے پورے علاقے میں ایک مقام حاصل کر لیا۔ رفتہ رفتہ
ان کے درمیان کا 'اور ' مٹ گیااور نجمہ شکور خدمت خلق کی علامت بن گئیں۔
انہوں نے خواتین کو اٹھانے ، جی ہاں، مروج معنوں میں اٹھانے نہیں بلکہ
اقتصادی اعتبار سے بلند کرنے کا بھرپور کام کیا۔ نجمہ این جی او کے ساتھ
آگے بڑھ رہی تھیں اور وہ کئی فرسودہ روایات کو توڑ رہی تھیں اور نئی روایات
قائم کر رہی تھیں۔ وہ بیک وقت روایات شکن اور روایات ساز تھیں۔ جب لوگ فیشن
کی چکاچوند کو اپنا سب کچھ سمجھ رہے تھے وہ نہایت باوقار انداز میں کام کر
رہی تھیں۔ انہوں نے مختلف علاقوں میں پانی کی ا سکیمیں دیں اور تربیتی
ادارے قائم کیے۔ اپنے کاموں کے لیے فندز جمع کیے۔ مختصر عملے کے ساتھ کام
کیا۔ گاؤں گاؤں پیدل گئیں، مقامی انجمنیں قائم کیں، ایمبولینس سروس کا آغاز
کیا۔ الغرض انسانیت کی خدمت کا ایک نیا تصور عام کر دیا۔ نجمہ شکور کے ہاں
تعصب اور تنگ نظری نام کی کوئی شے نہ تھی۔ محض انٹرمیڈیٹ کے ساتھ نجمہ شکور
نے کئی سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کو تعاون فراہم کیا اور ہر ایک سے
سپاس اعتراف حاصل کیا۔ ان کی خدمات کا اعتراف اقوام متحدہ تک نے کیا۔
نجمہ شکور کی خدمات کے اعتراف میں امریکی حکومت کی طرف سے انہیں خصوصی طور
پر ٹریننگ کے لیے امریکہ بلوایا گیا لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ
وہ مقبوضہ کشمیر بھی گئیں اور وہاں کی خواتین پر مظالم اور ان کی پسماندہ
حالت کا گہرا ادراک کیا اور انہیں ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے ہوئے اقتصادی
میدان میں آگے بڑھنے کی راہ سجھائی۔
اب نجمہ شکور اس دنیا میں نہیں رہیں لیکن وہ اپنے رب کے حضور لازما فرحاں و
شاداں ہوں گی کہ انہوں نے اللہ کی مخلوق کی خدمت کی۔ انہوں نے ضرورتمندوں
کو قرضے فراہم کیے ، ان کی بچیوں کی شادیاں کروائیں، خواتین کے سروں سے
گھڑوں کا بوجھ ہٹوایا اور انہیں گھروں کے اندر پانی فراہم کیا۔ کئی سڑکیں
بنوائیں۔ الغرض میں نے ابتداء میں انہیں سائبان اور شجر سایہ دار قرار دیا
تھا تو یہ بلا وجہ نہ تھا وہ واقعتاً ایک سائبان اور شجر سایہ دار تھیں۔ وہ
دنیا سے چلی گئیں لوگ انہیں بہت زیادہ یاد کر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر میں بے
شمار صاحبِ حیثیت لوگ موجود ہیں لیکن عام سی خاتون نجمہ نے وہ کر دکھایا کہ
ان کے علاقے کے وہ امیر لوگ اب ان کی زندگی کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
نجمہ کی زندگی میں ان کے لیے لایحہ عمل موجود ہے :
؏ مر گئے ہم تو بہت زمانے نے یاد کیا
ایسے ہی موقع کے لیے کہا گیا ہے ۔ اردو ادب میں " حق مغفرت کرے عجب آزاد
مرد تھا" پر مرنے والے کے لیے بات ختم کی جاتی ہے ۔ لیکن میں کہوں گا : ؏
حق مغفرت کرے عجب نجمہ تھی |