یوں تو ازل سے ہی ایسا گروہ رہا ہے،جس نے مقدس ہستیوں کی
عزت و ناموس پر گھٹیا حملے کیے ہیں۔
ان مقدس ہستیوں میں سب سے افضل انبیاء کرام علیہم السلام ہیں۔انبیاء میں سب
سے افضل آقا نامدار،سرور کائنات، خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم ہیں۔ شیطانی گروہ نے بلا تفریق انبیاء کی توہین کی ہے۔اللہ نے ان
توہین کرنے والوں کے لیے ایک فطری قانون بنایا ہوا ہے،جس پر عمل ہوتا رہتا
ہے۔
مشرق سے لے کر مغرب تک، شمال سے جنوب تک ، دنیا کے کسی خطے بھی خطے میں
بسنے والے مسلمان کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی شخص
گستاخی کرے تو وہ ادنی سے ادنی،گناہ گار مسلمان تڑپ جاتا ہے،دل خون کے آنسو
روتا ہے، جگر چھلنی ہوجاتا ہے،کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔مسلمان اپنے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کی توہین برداشت نہیں کر سکتا۔اور یہی ایمان کا تقاضا ہے۔
دور رسالت سے ہی توہین رسالت کے مرتکب لوگوں کی سرکوبی کی جاتی رہی ہے۔ہر
دور میں ہی ایسے ناسور پیدا ہوتے رہے ہیں، جنہوں نے رسالت مآب کی شان میں
گستاخی کی۔
توہین رسالت کے مجرم کی سزا دور رسالت سے ہی مقرر کردی گئی تھی ، جس پر دور
رسالت اور خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی من و عن عمل ہوتا رہا۔ فتح مکہ
کے موقع پر گستاخ رسول کو بیت اللہ کے پردے میں چھپے ہونے کے باوجود قتل
کرنے کا حکم دیا گیا۔
نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے کعب بن اشرف کو صحابی رسول
محمد بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتل کیا۔ایک نابینا صحابی نے اپنے
بچوں کی ماں اپنی باندی (جو منع کرنے کے باوجود گستاخی کرتی تھی)کو قتل
کیا۔
اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"اے لوگو گواہ رہنا اس باندی
کا قتل رائیگاں گیا"عصما بنت مروان کو گستاخی کے جرم میں حضرت عمیر بن عدی
الخطمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قتل کیا۔
ابو جہل ،ابولہب اور اس کا بیٹا گستاخی رسول کے جرم کی پاداش میں اپنے اپنے
انجام کو پہنچے۔ خلفاء راشدین کے ادوار میں بھی توہین رسالت کے مجرم کی سزا
قتل ہی تھی۔
توہین رسالت کے قانون کی تشکیل کے لئے آئینی تحریک قیام پاکستان سے کئی سال
قبل مولنا محمد علی جوہر نے شروع کردی تھی۔جب لاہور ہائی کورٹ کے جج کنور
دلیپ سنگھ نے ایک قابل مذمت کتاب "رنگیلا رسول"کے ناشر راج پال کو محض یہ
کہ کر چھوڑ دیا کہ اس کی کتاب مروجہ قانون کی کسی دفعہ کی خلاف ورزی کے
زمرے میں نہیں آتی۔
مولانا محمد علی جوہر نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ قصور جج کا نہیں بلکہ
قانون کا ہے۔یوں 1927میں توہین رسالت کے سدباب کے لیے قانون سازی کی تحریک
کا آغاز ہوا۔دو سال بعد ہی 1929کو غازی علم الدین شہید نے ملعون راج پال کو
چھریوں کے وار کر کے لاہور میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔
غازی علم الدین کو سزائے موت دی گئی تو علامہ محمد اقبال نے قائد اعظم کو
ان کی وکالت پر آمادہ کیا۔شہادت کے موقع پر علامہ محمد اقبال نے غازی علم
الدین شہید کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔
حکومت پاکستان نے متفقہ طور پر ایک قانون منظور کیا ہے۔جسے آئین کا آرٹیکل
295سی کہا جاتا ہے۔اس قانون کے تحت اگر کوئی شخص حضور اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے،توہین آمیز کلمات کہتا ہے،اور
کوئی ایسی تحریر لکھتا ہے جس سے توہین رسالت ظاہر ہوتی ہو تو پاکستان کے
قانون کے مطابق،295سی کے تحت ایسے شخص کو "موت"کی سزا دی جائے گی۔
مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس قانون کو لاء کی کتابوں میں تو لکھ دیا گیا
ہے،حوالوں کے لیے محفوظ کردیا گیا ہے،لیکن اس قانون کو عملی طور پر غیر
مؤثر بنا دیا گیا ہے۔ہر دور کی جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں نے نادیدہ
قوتوں کے دباؤ یا پھر اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر اس قانون سے
چھیڑخانی کرتے ہیں،اس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔گاہے بگاہے عوامی ردعمل
کا اندازہ لگانے کے لیے اس قانون کو ختم کرنے کا عندیہ دیا جاتا ہے۔جس کا
نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک اس قانون کے تحت دی گئی سزاؤں عمل درآمد ممکن نہ
ہوسکا۔یہ کسی المیے سے کم نہیں ہے۔اسی وجہ سے ملکی قانون کو ہاتھ میں لے کر
عوام توہین رسالت کے مرتکب لوگوں کو خود کیفر کردار تک پہنچا دیتے
ہیں۔قانون کسی کو ہاتھ میں نہیں لینا چائیے۔
یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ توہین رسالت کے قانون پر من و عن اس کی روح
کے مطابق عمل کرے۔اسی میں سب کی بہتری ہے۔
|