دیہاتوں کے تعلیمی تظام کی خامیاں

دیہاتوں کے تعلیمی نظام کی خامیوں کی نشاندہی کرنا اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرنا

شہروں کی نسبت دیہاتوں یا پہاڑوں میں تعلیم کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔دیہاتوں میں مقیم آبادی کا تقریبا %80 حصہ تعلیم سے محروم ہونے کی وجہ سے جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ دیہاتی لوگوں میں جدت پسند سوچ کم اور روایت پسند سوچ عروج پر ہوتی ہے۔ دیہاتوں میں آبادی کی کمی کی وجہ سے دوردراز علاقوں میں اسکول بنائے جاتے ہیں جہاں تک طالبعلموں کی رسائی میسر نہیں ہوتی۔ سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے طلباءوطالبات کو روزانہ دشوار راستوں سے گھنٹوں گھنٹوں کا سفر طے کر کے سکول جانا پڑھتا ہے۔اور جب وہ سکول سے واپس آتے ہیں تو ان کے پاس بہت کم وقت بچا ہوتا ہے جسے وہ گھریلو کاموں کو نمٹانے میں سرف کر دیتے ہیں اور اس طرح وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں کی عمارتیں بہت کم اور ٹوٹی پھوٹی ہونے کی وجہ سے اسکولوں میں طلباء کو سہولیات میسر نہیں ہوتیں ، وہ خوشگوار ماحول میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہوتے ہیں۔اکثر اساتذہ دوردراز کے علاقوں سے ہونےکی وجہ سے اسکولوں میں کافی دیر سے پہنچ پاتے ہیں جس کی وجہ سے طلباء کا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔تعلیمی اداروں کے اساتذہ بھی کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ وہ شہروں کے اساتذہ کی بہ نسبت اپنے شاگردوں کے کردار، اخلاق اور انکے تعلیمی معیار کو مضبوط بنانے میں ناکام ہوتے ہیں۔وہ خود کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اسی لیئے اپنے طالبعلموں کی بھی بہتر طریقے سے رہنمائی نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے دیہاتی طلباء شہری طلباء کے مقابلے میں بہت کمزور ہوتے ہیں۔دیہاتوں میں تعلیم کی کمی کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ بہت سے گھرانوں میں اسکولوں کی فیس، کتابیں، یونیفام اور دیگر تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیئے پیسے نہیں ہوتے، لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی بھاڑی اور جانور پالنا ہوتا ہے اور اکثر بچوں کو ان کی چھوٹی عمر میں ہی ان کاموں پر لگا دیا جاتا ہے۔ جو عمر انکی کھیل کود اور تعلیم حاصل کرنے کی ہوتی ہے اسمیں انہیں کام کاج کر کے اپنے گھر کا نظام چلانا پڑھتا ہے۔اکثر لوگ وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنے بچوں کو مدرسوں میں بھیج دیتے ہیں جہاں وہ جدید سائنسی علوم حاصل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔بعض بزرگ حضرات اس سوچ کے مالک ہوتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنا صرف اور صرف وقت کا ضیاع ہے اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اسی سوچ کی بناء پر وہ اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھتے ہیں۔ ایسی سوچ کے لوگ خاص طور پر تعلیم نسواں کی سخت مخالفت کرتے ہیں اور وہ اپنی بچیوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنا اپنی توعین سمجھتے ہیں۔یہی ایک اہم وجہ ہے کہ دیہاتوں میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی تعلیمی شرح بہت کم ہے۔ میری حکومت سے یہ درخواست ہے کہ دیہی علاقوں کے تعلیمی نظام پر خصوصی توجہ دی جائےاور اسے مضبوط بنانے کے لیئے اقدامات کیے جائیں۔ جب تعلیمی نظام بہتر ہو گا تو دیہاتوں سے %70 غربت خودبخود ختم ہو جائے گی۔

Umar Sharif
About the Author: Umar Sharif Read More Articles by Umar Sharif: 4 Articles with 5129 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.