انسانی زندگی میں کسی بھی کام کو بحسن و خوبی انجام دینے
کے لئے ترغیب اور تحریک کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔بناء تحریک کااکتسا ب بے فیض
ہوتا ہے۔ایک تجربہ کار اور قابل استاذ بچوں میں جوش و رغبت کے لئے محرکہ
پیدا کر تا ہے ۔بارش کی آمد سے قبل کسان اپنی زمین کی ذرخیز ی کو ممکن
بنانے کے لئے ہل چلا کراس کو اپچ کے قابل بنا تا ہے ۔کوئی بھی کسان زمین کو
ڈھیلا کئے بغیربیج نہیں بوتا۔ ایک استا د بھی بغیر محرکہ پیدا کئے اپنے
تدریسی فرائض انجام نہیں دیتا ہے۔ اپنے درس سے قبل وہ طلباء میں محرکہ پیدا
کر تا ہے اور طلبا ء کو اکتسابی عمل کے لئے آمادہ کر تا ہے۔بچوں کی پوشیدہ
صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور ان کو عیا ں کر نے کے لئے بھی تحریک و ترغیب
کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ مقولہ مشہور ہے کہ جب لوہا گر م ہوتا ہے تب ہی
ہتھوڑا مارنا چاہیئے۔ یہ با ت تدریسی عمل میں بھی صادق آتی ہے۔ جب بچوں میں
استاد تحریک پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ معلومات کی ترسیل بھی
کامیابی سے انجام دیتا ہے۔اکتسابی عمل میں سب سے بنیادی محرک نصاب یا
مستعملہ حکمت عملی نہیں بلکہ طالب علم کی دلچسپی(رغبت،محرکہ) کی وہ مقدار
ہوتی ہے جس سے طالب علم یا تو متصف ہوتا ہے یا پھر وہ اس میں پیدا کی جا تی
ہے۔محرکہ اکتسابی عمل میں شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور محرکہ ہی انسانی
جسم و ذہن کو متحرک اور فعال بناتا ہے۔ جدید تعلیمی تحقیقات سے پتہ چلا ہے
کہ موثر اکتساب کے لئے حقیقی محرکہ کی ضرورت در پیش ہوتی ہے۔جدید تعلیمی
نظام نے موثر تدریس اور کامیاب اکتساب کے درمیان ایک اٹوٹ رابطے کے طو ر پر
محرکہ (Motivation )کو تسلیم کیا ہے۔کسی بھی عمر کے بچوں میں ،کسی بھی
مرحلہ پر اور کسی بھی تعلیمی نظام میں کامیاب اکتساب کا دارومدار
محرکہ(رغبت) پر منحصر ہوتا ہے جس کو مناسب طور پر مہمیز کر نا بھی لازمی
ہوتا ہے۔درس و تدریس میں اگر یہ عنصر نا پید ہوتو اس کے بدترین اثرات طلباء
کے اکتسابی صلاحیتوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ طلباء میں شوق و ذوق کو جا گزیں کر
دیا جائے تو حصول علم سے انھیں کوئی بھی طاقت روک نہیں پاتی ۔درس و تدریس
کے دوران ترسیل شدہ معلومات ،تعلیم اور زندگی میں محرکہ ایک بامعنی رشتہ
استوار کر تا ہے۔بچوں میں محرکہ اکتسابی دلچسپی کو فروغ دینے میں ایک تماس
عامل(Catalyst ) کا کردار انجام دیتا ہے۔ مقولہ مشہور ہے کہ ایک گھوڑے کو
زبردستی کنویں تک تو لے جایا جا سکتا ہے لیکن اس کو پانی پینے کے لئے کو ئی
بھی مجبور نہیں کر سکتا جب تک گھوڑے کو خود اپنی تشنگی کا احساس نہ ہو۔اسی
لئے طلباء میں معلومات کی فراہمی تعلیمی مقاصد کی تکمیل نہیں کر تی جب تک
کہ ان میں معلومات کے بہتر استعمال اور اکتساب کا جویا نہ پیدا کیا
جائے۔طلباء کو بہتر طورپر تحریک کے ذریعہ اکتساب کے لئے تیار کیا جا سکتا
ہے۔اگر طلباء اکتسابی عمل میں ایک فعال کردار نبھانے کے بجائے ساکت و جا مد
کردار انجام دیں گے تو اکتسابی عمل کے مقررہ مقاصدکے حصول میں درس و تدریس
کوئی نمایا ں کامیابی حا صل نہیں کر سکتی ۔اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ
درس و تدریس کے دوران ایسی ترغیبی حکمت عملی اختیار کر یں جس سے بچوں میں
اکتساب کی راہیں اجاگر ہوجائیں اور تعلیم کا حصول آسان اور خوشگوار بن جا
ئے۔بچوں میں دلچسپی ،اشتیاق، شوق و ذوق کو جلاء بخشتے ہوئے طلباء کی علمی
تشنگی کو بجھا یا جا سکتا ہے۔تدریس اگر اکتسابی دلچسپی کو فروغ دینے کی
اساس پر قائم ہوتو بچوں کا اکتساب کی جانب مائل ہونے کا فیصد بہتر اور اعلی
ہوگا۔دلچسپ اور خوشگوار تعلیمی ماحول ہمیشہ اکتسابی عمل کو فروغ دینے میں
معاون ہوتا ہے۔کسی محر کہ کے زیر اثر حاصل شدہ اکتساب کا فیصد بغیر محرکہ
کے اکتساب کے فیصد سے ہمیشہ بہتر رہا ہے۔کسی دباؤ کے تحت طلباء میں موثر
اکتساب کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔طلباء کو اکتساب کی ضرورت اور مقصد سے
متعارف کیاجائے جس سے طلباء کی خفتہ اکتسابی صلاحیتوں کو تحریک ملے اور وہ
مزید پروان چڑھے۔طلباء کو تعلیم(اکتساب)کی ضرورت اور مقصد سے موثر تدریس
اور تکنیک کے ذریعہ آگاہ کیا جا سکتا ہے۔طلباء کے اکتساب کو فروغ دینے اور
دلچسپی پیداکرنے میں کئی بیرونی و اندرونی عوامل کار فر ما ہوتے ہیں۔ وہ
عوامل جو طلباء کی قوت محرکہ پر اثر انداز ہوتے ہیں ان میں بلاشبہ قابل
ذکر(ا)اسکول کا نظام تعلیم، سہولتیں اور اکتسابی ما حول (۲)اساتذہ کا درس و
تدریس کی تئیں رویہ ، طریقہء تدریس،بچوں کی حوصلہ افزائی، طلباء اور اساتذہ
کے مابین باہمی تعلق۔(۳)طلباء کا سماجی اور معاشی پس منظر (۴)طلباء کے فطری
تجسس کو مطمئن کرنے، مواقعوں کی فراہمی (۵)اساتذہ کی جا نب سے طلباء کی ہمت
و حوصلہ افزائی(۶)تدریسی اشیاء و ٹکنالوجی کا مناسب استعمال وغیرہ شامل
ہیں۔وہ بیرونی عوامل جو طلباء میں تحریک و رغبت کے فروغ کا باعث بنتے ہیں
ان کو بیرونی محرکہ(Extrinsic Motivation)کہاجا تا ہے۔اور وہ عوامل جو کہ
اندرونی طورپر اکتساب پر اثر انداز ہوتے ہیں اس کو اندرونی محرکہ(Intrinsic
Motivation )سے تعبیر کیا گیا ہے۔تعلیمی نفسیات کے ما ہرین کا ماننا ہے کہ
بیرونی محرکہ اندورنی محرکہ کے فروغ کا سبب بنتا ہے۔بیرونی اور اندورنی
تحریک کے ذریعہ اساتذہ اکتساب میں طلباء کی مد د کرتے ہیں۔اساتذہ قوت محرکہ
کو فروغ دینے اور مہمیز کر نے والے عوامل سے آگہی حاصل کر تے ہوئے ایک با
مقصد اور خوش گوار اکتسابی فضاء پیدا کر سکتے ہیں۔بیرونی محرکہ پیدا کر نے
والے عوامل میں اساتذہ کی درس و تدریس سے دلچسپی ،طلباء کی کاوشوں کی تعریف
و توصیف ،طلباء کی فطری اضافی صفات کا بر وقت استعمال،طلباء میں صحت مند
جذبہء مسابقت کی ہمواری ،طلباء کی صلاحیتوں کی نشاندہی اوراس کے اظہار کے
لئے مناسب موقعوں کی فراہمی،معیاری اکتسابی ماحول وغیرہ شامل ہیں۔جو طلباء
فطری طورپر تعلیم کی طرف ما ئل نہیں ہو پاتے ہیں ان کے لئے موثر بیرونی
محرکہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔اندرونی محرکہ سے متصف طلباء جانتے ہیں کہ
اکتساب دانش مندی کے فروغ میں اہمیت کا حامل ہے۔اندرونی محرکہ سے متصف
طلباء کو بیرونی محرکہ کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی ۔طلباء کو اکتساب کے
مقاصد و ضروریات سے اگر مناسب طور پر روشناس کردیا جا ئے تووہ مثبت اکتساب
کی جانب با آسانی پیش قدمی کر سکتے ہیں۔اکتسابی مقاصد سے آگا ہ طلباء تعلیم
و اکتساب کو ایک خوش گوار عمل سے تعبیر کر تے ہیں۔اکتساب سے ان کو لطف و
لذت اور سرور حا صل ہوتا ہے۔یہ امر کا فی اہمیت کا حامل ہے کہ کس طر ح
اساتذہ دوران تدریس اپنی قوت محرکہ بروئے کا ر لاتے ہیں۔طلبا ء کے اکتساب
کا معیار راست طور پر اساتذہ کے طریقہ تدریس پر منحصرہوتا ہے اسی لئے ضروری
ہے کہ اسا تذہ تدریسی حکمت عملی اور طریقہ تدریس پر زیادہ توجہ مر کوز کر
یں جس سے طلباء کا اکتساب فروغ پا تا ہے اور اکتسابی عمل مزید خوش گوار اور
با معنی و با مقصد بن جاتا ہے۔ایک فعال و محرک استاذ طلباء میں تحریک و
رغبت کو پیدا کرتے ہوئے کامیاب اکتساب کی راہیں متعین و ہموار کر
تاہے۔اساتذہ حالات اور موقع محل کے اعتبار سے طلباء میں تحریک ،جوش و ولولے
کو فروغ دیں،اکتساب سے رغبت و دلچسپی پیدا کر یں تاکہ حصول علم ان کے لئے
ایک سہل اور پر کیف عمل بن جائے۔قدیم زمانے میں خوف ہی وہ واحد محرکہ تھا
جس کے ذریعہ طلباء میں اکتسابی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جا تا تھا۔طلباء
کو سزا و جزاء ،مراعات سے محرومی اور عدم تعاون کے ذریعہ متحرک کر نے کی
کوشش کی جا تی تھی۔اساتذہ اور والدین کی جا نب سے استعمال کیئے جا نے والے
ان ہتھکنڈوں کی ماہرین تعلیم و نفسیات نے پر زور مذمت کی ہے ۔اس طرز عمل کو
ماہرین نے اکتسابی عمل میں بہت بڑی رکاوٹ قراردیا ہے جس سے اکتساب کو شدید
نقصان پہنچتا ہے۔ان وجوہا ت کے زیر اثر طلباء ذہنی و تعلیمی پسماندگی کے
بھی شکار ہوسکتے ہیں۔ تحریک و رغبت پیدا کرنے والی تدریسی سرگرمیوں پر عمل
کر تے ہوئے اساتذہ بتدیج بچوں میں اکتساب کو فروغ دے سکتے ہیں۔محرکہ پیدا
کر نے کے لئے تعلیمی مقاصد سے طلباء کو آگا ہ کر نا لازمی ہوتاہے۔ تعلیمی
مقاصد سے واقفیت محرکہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ طلباء کے اکتسابی عمل کی
رفتار کو تیز تر کر دیتی ہے۔طلباء کو تعلیمی مقاصد سے آگا ہ کر نا اس لئے
بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ مقا صد کے حصول کے لئے خود کو لائق و قابل بناسکیں
۔ اکتساب کا وہ طریقہ بہتر و اعلی سمجھا جاتا ہے جس میں اساتذہ اپنی تدریس
کو معلو م سے نا معلوم کی جا نب گردش دیں۔معلوم سے نا معلوم کی سمت پیش
قدمی طلباء کی قو ت محرکہ میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔معروف عنوان سے غیر
معروف مضمون کی جانب تدریسی کی تبدیلی سے طلباء کی دلچسپی میں کوئی خلل
واقع نہیں ہوتاہے بلکہ غیر معروف مضمون سے طلباء کی دلچسپی اور تجسس دیدنی
ہوجاتا ہے۔ یہی دلچسپی اور تجسس کاررگر محرکہ کی حیثیت سے سامنے آتا ہے اور
اکتسابی عمل کو با ل و پر عطا کرتا ہے۔ محرکہ طلباء میں تجسس ،جوش اور
ولولہ پیداکرتا ہے ۔جب تجسس ،جوش اور ولولہ طلباء کے رگ و پے میں سرایت کر
جاتا ہے تو یہ اپنی منز ل پر پہنچ کر ہی دم لیتا ہے۔ماہرین تعلیم محر کہ کو
تدریس کا لازمی جزو بنانے کے لئے اساتذہ سے مثبت تعلیمی سرگرمیوں کو زیادہ
سے زیادہ نصاب میں جگہ دینے کی تلقین کر تے نظر آتے ہیں۔تعریف و توصیف بھی
محرکہ پیدا کرنے میں اہم کردار انجام دیتا ہے۔بچوں کو مظاہرے اور کامیابی
کے برخلاف ان کی سعی و کوشش کی سطح پر جانچیں نہ کہ کامیابی اور ناکامی کی
کسوٹی پر۔ مظاہر ہ بے شک اہم ہوتا ہے لیکن اس سے زیاد طلباء کی کوشش اہم
ہوتی ہے جوہر پل ان کو مصروف رکھتی ہے۔اساتذہ ہمیشہ طلباء کی اکتسابی
کاوشوں کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کر یں تا کہ وہ اپنے تعلیمی سفر کو
بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھ سکیں۔ اکتساب کی طرف بچوں کو ما ئل کر نے کے
لئے طلباء کو چھوٹے چھوٹے گروپس میں تقسیم کر تے ہوئے جذبہ مسابقت کو اجاگر
کر یں۔جذبہ مسابقت بھی ایک کار گر محر کہ کی عمدہ مثال ہے۔ہر سبق اور پیریڈ
کے اختتام پر طلبا میں خود اکتسابی (Self Learning)کے مزاج کو فروغ دینے
والے تجسس اور دلچسپی سے مزین سوالات طلبا ء کو بطور سرگرمی تفویض کر یں تا
کہ طلباء از خود اپنے سوالات کے جوابات کو حا صل کر نے میں کامیاب ہوجائیں
اور ان کی اکتسابی دلچسپی بھی مزید پروان چڑھے۔ آسان سے مشکل کی جا نب اور
جزو سے کل کی طرف لے جانے والاطریقہ تدریس ہی طلباء میں اکتسابی دلچسپی کو
برقرار رکھنے میں کلیدی رول انجام دیتا ہے۔مذکورہ طریقہ ہا ئے تدریس اسلامی
طرز تعلیم کے ایجاد کردہ ہیں جو تعلیمی سفر کو دشواریوں سے پاک کر تے ہوئے
آسان اور سہل راستوں کی سمت گامزن کر تا ہے ۔اسلام کبھی بھی گنجلک اور
پیچیدہ طریقہ تدریس کا حامی نہیں رہا ہے بلکہ اس نے تعلیم کو آسان سے آسان
بنادیا تا کہ کوئی بھی انسان اﷲ کی اس عظیم نعمت سے محروم نہ رہے۔اکثر لوگو
ں کی ناکامی کی ان کی نا اہلی یا ذہانت کی کمی کے باعث نہیں ہوتی ہے بلکہ
وہ اس لئے ناکام ہوتے ہیں کہ ان میں خواہش(Desire) ،لگن(Dedication) ،سمت
(Direction)،اور نظم(Discipline)کی کمی واقع ہوتی ہے۔اکتسابی عمل میں استاد
کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔استاد کے اثرات شاگردوں پر تا دم
حیات قائم رہتے ہیں ان اثرات کے ذیلی اثرات بھی بیشمار ہوتے ہیں۔اسی لئے
ایک استاد کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کسی طرح کی
لاپرواہی اور کوتا ہی کو جگہ نہ دیں کیونکہ اس کوتا ہی اور لاپرواہی کا اثر
صرف ایک طالب علم تک محدود نہیں رہتا ہے بلکہ اس کا اثر نسل در نسل منتقل
ہوتا رہتاہے۔ایک با کمال اور فرض شناس استاد علم کو عقل مندی سے استعمال کر
تے ہوئے دانش مندی میں ڈھال دیتا ہے اور پھر دانش مندی کامیابی میں ڈھل جا
تی ہے۔ایک بہترین استاد معلومات کی منتقلی کے بجائے علم کے ذوق و شوق سے
طلباء کو سر شار کر تا ہے اور کائنات کے سربستہ رازوں کے انکشاف میں مصروف
رکھتا ہے۔شوق و ذوق کے بغیر تعلیمی سفر کسی طور بھی جاری نہیں رکھا جا سکتا
ہے۔تعلیمی اور اکتسابی عمل میں سب سے بڑھا محرک استاد کا عطا کردہ شوق و
ذوق ہو تا ہے جو طلباء کو زندگی بھر حصول علم میں مصروف و سرگرداں رکھتا
ہے۔اساتذہ کو چاہیئے کہ طلبا ء کو معلومات کے انبار کے بجائے حقیقی علم اور
زندگی کا وجدان عطاکر ے۔
|