1965ء میں بھی بھارتی فوج لاہور کے جم خانہ میں جشن
منانے کی بڑھک مار رہی تھی۔اس نے بین الاقوامی سرحد پار کرتے ہوئے لاہورپر
قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔عظیم مجاہد جرنیل طارق بن زیاد کے نام سے منسوب جبل
الطارق یا جبرالٹر آپریشن کشمیر میں کیا گیا۔شاید کشتیاں جلا کر میدان جنگ
کی جانب پیش قدمی نہ کی گئی۔ ذمہ دار کون تھا۔ قربانی کا بکرا کون بنا۔
ذوالفقار علی بھٹوکا کردار کیسا تھا؟ جنرل موسیٰ ککی کمانڈ کیسی تھی؟ جنرل
ایوب خان کو دھوکے سے قائل کس نے کیا؟ میجر جنرل اختر حسین ملک نے کیا
منصوبہ بنایا تھا؟ ان کے بھائی جنرل کا کردار کیا تھا؟۔کیا کوئی قادیانی
سازش بھی تھی؟۔وزارت خارجہ نے کیا مشورہ دیا؟ کشمیریوں کو اعتماد میں کیوں
نہ لیا گیا؟ناکامی کا اعتراف کرنے میں ہچکچاہٹکیوں کی گئی؟اپنی غلطی دوسروں
کے سر ڈالنے کی روایت کب قائم ہوئی؟ غلطیوں سے کیا سبق ملا؟ان سوالات کا
تسلی بخش جواب دینے کی ضرورت ہے۔مگر کوئی تحقیقات نہیں۔ کوئی کمیشن نہیں۔
معاملہ ایسا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ جیسے سقوط ڈھاکہ میں بھی ہوا۔ جنرل
محمد موسیٰ اس وقت پاک فوج کے کمانڈر ان چیف تھے۔ وہ اس آپریشن کے ایک سال
بعد تک آرمی چیف رہے۔ اپنی کتاب ’’مائی ورژن‘‘ یا میرا موقف میں لکھتے ہیں
کہ ، بھارت نے 6ستمبر 1965ء کو جی ایچ کیو اورسپریم کمانڈر فیلڈ مارشل ایوب
خان کو حیران کر دیا۔ 5اور6ستمبر کی رات ساڑھے تین بجے بھارت نے پاکستان پر
حملہ کر دیا۔ ایوب خان کو پاک فضائیہ کے کمانڈر نے حملے کے بارے میں آگاہ
کیا۔ انہوں نے جنرل موسیٰ کو فون کیا اور معلومات حاصل کیں۔ وہ لکھتے ہیں
کہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ، فارن سکریٹری عزیز احمد، آزاد کشمیر میں
فوج کی12ویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک نے آپریشن جبرالٹر کا
منصوبہ بنایا تھا۔ انھوں نے حکومت سے سفارش کی کہ وہ پاک فوج کو قبائلی
ریڈرز کشمیر بھیجنے کی ہدایت دے تا کہ وہاں گوریلا کارروائیاں شروع کی
جائیں۔ اور بھارتی قبضے کے خاتمے کے لئے کشمیریوں کو متحرک کیا جائے اور ان
کی مدد کی جائے۔ اس ریڈ کو قبائلی ریڈ یا یلغارکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مگر آزاد کشمیر کے ایک مرحوم قائد سردار عبد القیوم خان صاحب نے ایک
انٹرویو میں کہا کہ قبائیلیوں کو اس لئے کشمیر روانہ کیا گیا تا کہ وہ یہاں
حکومت کے لئے مسائل پیدا نہ کریں۔جب یہ ریڈ شروع ہوا تو قبائلی جنگجو وادی
پہنچنے لگے۔ کوئی تیاری نہیں تھی۔ وادی کے عوام کو بھی اعتماد میں نہیں
لیاگیا ۔ ان کے ہمراہ ایس ایس جی کمانڈوز بھی تھے۔ کوئی زاد راہ ، کوئی کمک
نہ تھی۔ اسی ریڈ کا نام آپریشن جبرالٹر رکھا گیا۔ یہ کوڈ نام تھا۔ کمانڈر
12ڈویژن اختر حسین کو جی ایچ کیو کے تعاون سے پلان کا مسودہ تیار کرنے کی
ہدایت جنرل موسیٰ نے دی تھی۔ جی ایچ کیو نے پلان منظور کیا۔ جنرل ایوب خان
اور ان کے ملٹری سکریٹری ، سی جی ایس میجر جنرل شیر بہادر، ملٹری آپریشنز
اور انٹیلی جنس کے ڈائریکٹرز بریگیڈیئر گل حسن اور ارشاد احمد خان بریفنگ
میں موجود تھے۔ ایوب خان آپریشن پر تیار ہو گئے۔ بریفنگ میں کوئی سویلین
موجود نہ تھا۔ منصوبہ مقبوضہ کشمیر میں فوجی تنصیبات، مواصلات کی تباہی،
کشمیریوں میں اسلحہ کی تقسیم، گوریلا تحریک کی شروعات وغیر ہ کا تھا۔
اکھنور کی جان پیش قدمی اس کا حصہ نہ تھی۔ اسے آخری حربے کے طور آزمانے کی
بات ہوئی۔ لیکن جب کرناہ اور کیرن ، حاجی پیر کے علاقوں پر قبضہ شروع ہوا
تو چھمب سے آگے اکھنور کی جانب پیش قدمی کی گئی تا کہ بھارتی دباؤ کم کیا
جائے۔ یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ بھارت کو کشمیرتک محدود رکھا جائے
گا۔ بھارت پاکستان پر حملے کی جرائت نہیں کرے گا۔ لیکن یہ اندازہ غلط ثابت
ہوا۔
پشاور میں پیراشوٹ ٹریننگ سکول میں ایک بریفنگ میں کشمیر میں پیرا شوٹس کی
مدد سے فوج اتارنے کا منصوبہ بھی زیر غو ر لایا گیا۔ جو کہ 1956کی عرب
اسرائیل جنگ جیسا ہو ۔ اس کی کامیابی کی بات کی گئی۔ جنرل موسیٰ نے کشمیر
میں ریڈ سے متعلق واضح کیا تھا کہ کشمیر میں گوریلا جنگ تب ہی کامیاب ہو گی
جب کشمیری اس کا حصہ بنیں گے ، تیاری کے لئے مزید وقت در کار ہے۔ گوریلا
جنگ میں اگر بھارت نے سمجھا کہ وہ ہار رہا ہے تو وہ پاکستان پر حملہ کر دے
گا۔ بھارت کو ہرانے کہ لئے مزید فوج ، بہتر اسلحہ اور تربیت کی ضرورت ہے۔
انھوں نے دوڈویژن فوج کی بھرتی کے لئے وزارت خزانہ سے فنڈز مانگیلیکن انکار
کر دیا گیا۔ آپریشن شروع کرنے سے قبل کوئی فوج بھرتی نہ ہوئی لیکن جنگ کے
خاتمے کے فوری بعد اسی ماہ مزید دو ڈویژن فوج بھرتی کر لی گئی۔ جنرل موسیٰ
اور جنرل شیر بہادر نے اس کی مخالفت کی لیکن ضد پر نہ اڑے رہے۔ آپریشن کا
کمال دیکھیں کہ جس قوم کو آزاد کرانا تھا اسے کچھ نہ بتایا گیا۔ اس کا
اعتراف جنرل موسیٰ کی کتاب میں بھی کیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر حکومت تک کو اس
منصوبے کا علم نہ ہونے دیا گیا۔ پھر جب عوامی حمایت کا احساس ہوا تو پہلے
سے قائم لبریشن سیل کا سربراہ چوھدری غلام عباس کو مقرر کیا گیا۔ انھوں نے
اسے قبول نہ کیا اور اس منصوبے سے لاعلمی ظاہر کی۔ اس میں فارن آفس،وزارت
داخلہ اور وزارت امور کشمیر کے بعض سینئر لوگ شامل تھے۔ قائد اعظم کے
سکریٹری کے ایچ خورشید کے مطابق ایوب خان کو کمزور کرنے کے لئے یہ منصوبہ
بنایا گیا تھا۔اور وہ ا س کے انجام سے بے خبر تھے۔ ورنہ جس ایوب خان نے
بھارت کو مشترکہ دفاع کی پیشکش کی تھی ، اسے کبھی منظور نہ کرتے۔ بھارت نے
کشمیرکو بچانے کے لئے لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کر دیا۔ کرگل اور لیہ تک
جنگ پھیلا دی۔ آپریشن جبرالٹر کی ناکامی پر پاکستان نے آپریشن گرینڈ سلام
کے تحت مظفر آباد کے تحفظ کے لئے بھمبر، چھمب، اکھنور کی جانب سے حملہ
کیااور 8میل تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ پاک فضائیہ کو بھی با خبر نہ رکھا
گیا۔ ایئر چیف مارشل(ر)انور شمیم اپنی کتاب ’’ کٹنگ ایج پی اے ایف‘‘میں
لکھتے ہیں کہ فضائیہ کو آپریشن جبرالٹر سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس کے لئے
کوئی مشترکہ منصوبہ نہ بنا۔ جو لوگکشمیر بھیجے گئے وہ نہ تو کشمیری زبان سے
واقف تھے اور نہ راستے جانتے تھے ۔ بھارت نے آزاد کشمیر کے جنوب کو شمال سے
کاٹنے کے لئے درہ حاجی پیر پر قبضہ کر لیا۔ ائر مارشل (ر)اصغر خان جو
آپریشن جبرالٹر سے چند ماہ قبل ریٹائر ہو گئے، نے ’’ دی فرسٹ راؤنڈ، انڈو
پاکستان وار ‘‘میں لکھا ہے کہ یہ پلان لانچنگ پیڈ پر ہی ناکام ہو گیا تھا۔
یہ دعویٰ کیا گیا کہ آپریشن فول پروف ہے۔ ہر کوئی اپنے کردار سے باخبر ہے،
دشمن منصوبہ کو کبھی نہ جان سکے گا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ پہلے چار رضاکار جو
بھارت نے پکڑے ، انھوں نے 8اگست 65ء کو بھارتی فوج کی جانب سے سرحد پار
کرنے سے ایک ماہ قبل ہی آل انڈیا ریڈیو پر تمام منصوبہ بیان کر دیا۔ یہ
منصوبہ غفلت اور حماقت کی داستان تھی۔ میاں ارشاد حسین اس وقت دہلی میں
پاکستان کے ہائی کمشنر تھے۔ جو بعد ازاں وزیر خارجہ بنے، انھوں نے77ء میں
مطالبہ کیا تھاکہ 65ء کی جنگ کی وجوہات کی عدالتی تحقیقات کی جائے۔ کیوں کہ
انھوں نے ترکی کے سفارتخانے کے زریعے 4ستمبر1965ء کو فارن آفس کوخبر دار کر
دیا تھاکہ بھارت پاکستان پر حملے کا پلان بنا رہا ہے۔ لیکن کوئی توجہ نہ دی
گئی۔ پھر جنرل موسیٰ کا یہ کہنا کہ بھارت نے حملہ کر کے حیران کر دیا کتنا
درست ہو سکتاے؟۔ آج2020کا ستمبرہے۔ اسلحہ بے شمار ہے۔ سب سے سے اہم قومی
اتحاد اور یک جہتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے فوج کے ساتھ بہترین تعلقات
ہیں۔ملک کی ترقی اور دفاع کے لئے ہر وقت الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ماضی کو
سامنے رکھا جا نا چاہیئے۔آج بھی اس آپریشن کا جائزہ لینے کے لئے انکوائری
کی ضرورت ہے تا کہ جوابدہی کی فکر میں مستقبل میں کسی غلطی کا احتمال نہ
رہے۔
|